زیر بحث آیات ہمیں جو ایک او رنکتہ سکھاتی ہیں یہ ہے کہ ہم گروہ کو ہدایت و ارشاد اس لیے ترک نہ کریں کہ وہ دولت مند ہے اور خوشحال زندگی گزرتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے گرد سرخ لکیر نہیں کھینج دینا چاہیے بلکہ قابل مذمت یہ ہے کہ ہم ان کی مادی زندگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کے قریب ہوں اور قرآن کے بقول”ترید زینتہ الحیٰوة الدنیا“ (تم دنیا وی زندگی کے طلبگار ہو)کے مصداق نہ بنیں ۔ لیکن اگر مقصدان کی ہدایت اور ارشاد ہو ۔ یہاں تک کہ مقصد ان کے وسائل سے مثبت اور تعمیری معاشرتی و اجتماعی ضروریات کے لیے فائدہ اٹھانا ہو تو ان سے رابطہ قائم رکھنا نہ صرف یہ کہ مذموم نہیں ہے بلکہ ضروری ہے ۔