زیرِ بحث آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ جس وقت خدا کو بھول جاؤ اور پھر تمھیں یاد آئے تو اسے یاد کرو ۔(1) یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر انشاء اللہ کہنے کی صورت میں اس کی مشیت پر بھروسہ نہ کرو تو جس وقت تمھیں یاد آئے اس کی تلافی کرو ۔
اس آیت کی تفسیر میں اہلِ بیت علیہم السلام سے جو متعدد روایات منقول ہیں ان سے بھی اس مفہوم پر تاکید ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ اگر ایک سال گزر نے کے بعد بھی تمھیں یاد آئے انشاء اللہ نہیں کہا تھا تو گزشتہ کی تلافی کرو ۔(2)
اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ بھول گئے ہیں حالانکہ اگر ان کی فکر و نظر میں نسیان آجائے تو ان کی گفتار اور اعمال پر کامل اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور انبیاء و آئمہ (ع) کے خطا اور نسیان سے معصوم ہونے کی یہی دلیل ہے یہاں تک کہ موضوعاتِ خارجیہ میں بھی ۔
لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ بہت سی قرآنی آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ روئے سخن انبیاء کی طرف ہے لیکن مقصو و منظور عام لوگ ہوتے ہیں ۔ اس بات سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے ۔ اس طرح کی گفتگو کے لیے عربوں کی مشہور ضرب المثل ہے:
”ایّاک اعنی واسمعی یا جارة“
میری مراد تو ہے جو میرے پاس ہے اور اے پڑوسن تو بھی سن لے ۔(3)
(بعض بزرگ مفسرین نے اس سوال کا ایک اور جواب دیا ہے جسے ہم سورہٴ انعام کی آیت ۶۸ کے ذیل میں بیان کر آئے ہیں ۔ پانچویں جلد کی طرف رجوع کیجئے) ۔