روح کیاہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
روح کی اصالت واستقلال سوره اسراء / آیه 85

روح کیاہے؟


گزشتہ آیات کے بعد ۔ اب مشرکین یا اہلِ کتاب کے بعض اہم سوالات کے جوابات دئےے جارہے ہیں ۔
ارشادہوتا ہے :تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو :روح میرے رب کے فرمان میںسے ہے اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے( وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی وَمَا اٴُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیلاً
گزشتہ اور موجودہ دَور کے عظیم مفسرین نے”روح “ کے معنی اور اس آیت کی تفسیر کے بارے میں بہت کچھ کہا، ہم پہلے لغت کے حوالے سے ”روح “ کے معنی کے بارے میں بات کریں گے، اس کے بعد قرآن میں یہ لفظ جہاں جہاں آیاہے اسے دیکھیں گے اور اس سلسلے میں وارد شدہ روایات بیان کریں گے ۔


۱۔ لغت کے حوالے سے:


لُغت کے لحاظ سے ” روح“ در اصل ”نفس“ اور ”دوڑنے“ کے معنی میںہے ، بعض نے تصریح کی ہے کہ ”روح“ اور ”ریح“(ہوا)ایک ہی معنی سے مشتق ہیں اور روحِ انسان کہ جو مستقل اور مجرد گوہر ہے اسے اس نام سے اس لئے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ تحرک، حیات آفرینی اور ظاہر نہ ہونے کے لحاظ سے نفس اور ہوا کی طرح ہے ۔


۲۔ قرآنی آیات کے حوالے سے:


قرآن حکیم میں یہ لفظ مختلف اور متنوع صورت میں آیاہے ۔
کبھی یہ لفظ انبیاء ومرسلین کو ان کی رسالت کی انجام دہی میں تقویت پہنچانے والی روحِ مقدس کے بارے میں آیاہے،مثلاً سورہٴ بقرہ کی آیہ ۲۵۳میں ہے:
<وَآتَیْنَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاٴَیَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدُس
ہم نے عیسیٰ کو واضح دلائل دئےے اور روح القدس کے ذریعے اسے تقویت بخشی۔
کبھی یہ لفظ مومنین کو تقویت بخشنے والی اللہ کی روحانی ومعنوی قوت کے مفہوم میں آیا ہے، جیسا کہ سورہ مجادلہ کی آیہ ۲۲میں ہے:
<اٴُوْلٰئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِھِمْ الْإِیمَانَ وَاٴَیَّدَھُمْ بِرُوحٍ مِنْہُ
وہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور روح کے ذریعے انہیں تقویت بخشی ہے ۔
اور کبھی وحی کے خاص فرشتے کے مفہوم میں یہ لفظ استعمال ہوئے:
”امین“ کے لفظ سے اس کی توصیف کی گئی ہے مثلاً سورہ شوریٰ کی آیہ ۱۹۳۔۱۹۴میں ہے:
<نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْاٴَمِینُ ، عَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِین۔
یہ قرآن روح الامین نے تیرے دل پر اتارا ہے تاکہ تُو ڈرانے والوں میں سے ہو ۔
کبھی یہ لفظ خدا کے خاص فرشتوں میں سے ایک عظیم فرشتے یا فرشتوں سے برتر ایک مخلوق کے معنی میں آیا ہے، مثلاً:
< تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیھَا بِإِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اٴَمْر
شبِ قدر میں ملائکہ اور روح اپنے پروردگار کے امر کے ساتھ تقدیرِ امور کے لئے نازل ہوتے ہیں(قدر:۴)
نیز سورہ نباء کی آیہ ۳۸ میں بھی ہے:
<یَوْمَ یَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِکَةُ صَفًّا
روزِ قیامت روح اور ملائکہ ایک ہی صف میں قیام کریں گے ۔
کبھی یہ لفظ قرآن اور وحی آسمانی کے معنی میں آیاہے،مثلاً
< وَکَذٰلِکَ اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِنْ اٴَمْرِنَا
اور اسی طرح ہم نے تیری طرف روح کووحی کیا کہ جو ہمارے امر میں سے ہیں(شوریٰ: ۵۲)
کبھی یہ لفظ روحِ انسانی کے معنی میں آیا ہے جیسا کہ خلقتِ آدم سے متعلق آیات میں ہے:
< ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیہِ مِنْ رُوحِہ۔
اس کے بعد خلقتِ آدم کو نظام بخشا اور اس میں اپنی روح پھونکی(سجدہ:۹)
اسی طرح سورہٴ حجر کی آیہ ۲۹ میں ہے
<فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِین
پس ہم نے خلقتِ آدم کو عملی صورت دے دی اور اس میں اپنی روح پھونک دی تو اس کے لئے سجدہ کرو ۔(۱)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیرِ بحث آیت میں روح سے کیا مراد ہے، یہ کس روح کا تذکرہ ہے کہ جس کے بارے میں کچھ لوگوں نے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سوال کیا ہے اور آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تمہیں تھوڑے سے علم کے سوا کچھ پتہ نہیں ۔
آیت کے داخلی وخارجی قرائن سے ایسا لگتاہے کہ سوال کرنے والوں نے انسان کی روح سے متعلق سوال کیا ہے، وہی عظیم روح کہ جو انسان کو حیوانات سے جدا کرتی ہے، جو ہمارا افضل ترین شرف ہے اور جو ہماری تمام تر طاقت اور فعالیت کا سرچشمہ ہے، جس کی مدد سے ہم زمین و آسمان کو اپنی جولان گاہ بنائے ہوئے ہیں، جس کے ذریعے ہم علمی اسرار کی گتھیاں سلجھاتے ہیں، جس کے ذریعے ہم موجودات کی گہرائیوں تک پہنچنے کا راستہ پاتے ہیں، چاہتے تھے کہ عالمِ آفرینش کے اس عجوبہ کی حقیقت معلوم کریں ۔
روح کی ساخت مادہ کی ساخت سے مختلف ہے، وہ اصول جو اس پر حاکم ہیں وہ حاکم اصولوں اور طبیعیاتی اور کیمیائی خواص سے مختلف ہیں لہٰذا پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ وآلہ وسلّم کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک مختصر اور پر معنی جملہ کہیں کہ:روح عالمِ امر میں سے ہے،یعنی اس کی خلقت اسرار آمیز ہے ۔
اس کے بعد اس بناء پر کہ انہیں اس جواب کا تعجب نہ ہو مزید فرمایا کہ تمہارا علم بہت ہی کم ہے، لہٰذا کونسے تعجب کی بات ہے کہ تم روح کے اسرار نہ جان سکو اگرچہ وہ ہر چیز کی نسبت تم سے زیادہ قریب ہے ۔
دس روایات کے حوالے سے :
تفسیر عیاشی میں امام باقر (علیه السلام) اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (علیه السلام) نے آیہ ” وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الرُّوح“ کی تفسیر کے سلسلے میں فرمایا:
انما الروح خلق من خلقہ، لہ بصر وقوة وتایید، یجعلہ فی قلوب الرسل والموٴمنین۔
روح مخلوقاتِ خدا میں سے اور یہ بینائی قوت رکھتی ہے، خدا اسے انبیاء اور مومنین کے دلوں میں قرار دیتا ہے ۔(2)
ایک اور حدیث انہیں دو بزرگوار ائمہ میں سے ایک سے منقول ہے، اس میں ہے:
ھی من الملکوت من القدرة ۔
روح عالمِ ملکوت اور خدا کی قدرت میں سے ہے ۔(3)

شیعہ اور سنی کتب کی متعدد روایات میں ہے کہ مشرکینِ قریش نے یہ سوال علماء اہلِ کتاب سے حاصل کیا، وہ اس کے ذریعے رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو آزمانا چاہتے تھے، ان سے کہا گیا تھا کہ اگر (محمد)نے روح کے بارے میں تمہیں بہت کچھ بتا دیا تو یہ اس کی عدمِ صداقت کی دلیل ہوگا، جب کہ آپ نے ایک مختصر اور پر معنی جواب دے کر انہیں حیران کردیا ۔
لیکن کچھ اور روایات جو طرقِ اہل بیت (علیه السلام) سے ہم تک پہنچی ہے ان میں روح کو ایک ایسی مخلوق بتایا گیا ہے کہ جو جبرئیل اور میکائیل سے افضل ہے اور جو انبیاء اور ائمہ کے ساتھ ہوتی ہے اور انہیں ان کے کام میں انحراف سے بازرکھتی ہے ۔(4)
آیت کی تفسیر کے بارے میں جو کچھ ہم نے کہا ہے یہ روایات نہ فقط اس کے منافی نہیں ہیں بلکہ اس سے ہم ٓاہنگ ہیں کیونکہ انسانی روح کے مختلف درجے اور مراتب ہیں، انبیاء اور ائمہ کے مرتبہ غیر معمولی اور بہت بلندہے اور گناہ و خطا سے معصوم ہونا جس کے آثار میں سے ہے، نیز بہت زیادہ علم و آگاہی بھی اس کے آثار میں سے ہے اور مسلم ہے کہ روح کا یہ مرتبہ تمام فرشتوں سے افضل ہوگا یہاں تک کہ جبرئیل اور میکائیل سے بھی۔ (غور کیجئے گا)

 

 



۱۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہاں روح کی اضافت خدا کی طرف اظہارِ عظمت کے لئے ہے اور مراد یہ ہے کہ خدا نے انسانوں کو ایک عظیم اور الٰہی مقدس روح بخشی ہے ۔
2و3۔ نورالثقلین، ج۳،ص ۲۱۶
4۔ تفسیر نورالثقلین، ج۳،ص ۲۱۵
روح کی اصالت واستقلال سوره اسراء / آیه 85
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma