موسٰی (علیه السلام) کے جچے تلے تقاضے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 13
۱۔ انقلاب کی رہبری کے شرائطسوره طه / آیه 24 - 36

موسٰی (علیه السلام) کے جچے تلے تقاضے :


اب حضر ت موسٰی (علیه السلام) مرتبہ نبوت پر فائز ہوچکے ہیں اور انہونے اہم معجزات حاصل کرلیے ہیں ، لیکن اس کے بعد ان کے نام فرمان رسالت صادر ہوتاہے ،ایسی رسالت کہ جو بہت ہی عظیم اور سنگین ہے ، ایسی رسالت جو علاقے کے طاقتور ترین اور خطرناک ترین لوگوں کوفرمان الہٰی پہنچانے سے شرو ع ہوتی ہے ۔اللہ فراماتا ہے : فرعون کی طرف جاکہ وہ سرکش ہو گیاہے (ازھب الی فرعون انہ طغٰی ) ۔
ہاں ایک فاسد اور خراب شدہ ماحول کی اصلاح اور ہرجہت سے ایک انقلاب بر پا کرنے کے لیے فساد کے سرغنوں اور کفرکے سربراہوں سے کام شروع کرناچاہیئے،ایسے لوگو ں سے کہ جو معاشرے کے تما م لوگوں میں اثرو رسوخ رکھتے ہیں اور وہ خود یاان کے افکار و نظر یات ان کے اعوان و انصار ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ،ایسے لوگ کہ جنہوں نے تمام تبلیغی ، نشریاتی اقتصاد ی اور سیاسی اداروں کو اپنے قبضہ میں لیاہواہے اگر ان کی اصلاح ہوجائے یااصلاح نہ ہونے کی صورت میں وہ جڑ سے اکھاڑ پھنیکے جائیں تو معاشرے کی نجات کی امیدکی جاسکتی ہے ، ورنہ جس قسم کی بھی اصلاح ہوگی ،وہ وقتی ، سطحی اور ناپائیدار ہوگی ۔
یہ بات خاص طورپر قابل توجہ ہے کہ : فرعون سے شروع کرنے کے لازم ہونے کی دلیل ، ایک ایک مختصر جملہ ” انہ طغٰی “ (اس نے طغیان کیاہے ) میں بیا ن ہوئی ہے کہ اس کلمہ ” طغیان “میں سب کچھ جمع ہے ،ہاں طغیان و سرکشی بھی اور زندگی کے تمام شعبوں میں حد سے تجاوز بھی ،اور اسی بناپر اس قسم کے افراد کو ” طاغوت کیاجاتاہے کہ جواسی مادہ سے لیاگیاہے ۔
موسٰی (علیه السلام) ۔ اس قسم کی سنگین ماموریت پرنہ صرف گھبرائے نہیں ، بلکہ معمولی سی تخفیف کے لیے بھی خدا سے درخواسے کی اور کھلے دل سے اس کااستقبال کیا  زیادہ سے زیادہ اس ماموریت کے سلسلے میں کامیابی کے وسا ئل خداکی خداسے درخوست کی ۔
اور چونکہ کامیابی کاپہلاذریعہ عظیم روح ، فکربلند اور عقل تواناہے ، اور دوسرے لفظوں مین سینہ کی کشادگی و شرح صدر ہے لہذا : عرض کیامیرے پروردگار ! میراسینہ کشادہ کردے (وقال رب ّ اشرح لی صدری ) ۔
ہاں ! ایک رہبرانقلاب کاسب سے اولین سرمایہ ، کشادہ دلی ، فراواں حوصلہ ، استقامت و بردباری اور مشکلات کے بوجھ کو اٹھاناہے ، اس بناپر امیرالمومنین علی علیہ اسلام سے ایک حدیث میں منقول ہے :
اٰ لة الریاسة سعة الصدر
سنیہ کی کشادگی رہبری و قیادت کاوسیلہ ہے (۱) ۔
(شرح صدر اور اس کے مفہوم کے بارے میں ہم اس تفسیر کی جلد ۵ میں سورہ انعام کی آیہ ۲۵ کے ذیل میں بھی بحث کرچکے ہیں ) ۔
اور چونکہ اس راستہ میں بے شمار مشکلات ہیں، جو خدا کے لطف و کرم کے بغیر حل نہیں ہوتیں ، لہذا خداسے دوسرا سوال یہ کیاکہ میرے کاموں کو مجھ پر آسا ن کردے اور مشکلات کو راستے سے ہٹا دے ۔آپ نے عرض کیا: کہ میرے کام کو آسان کردے“ (ویسرلی امر ی ) ۔
اس کے بعد جناب موسٰی (علیه السلام) نے زیادہ سے زیادہ قوّت بیان کاتقاضاکیا ۔کہنے لگے ،میری زبان کی گرہ کھول دے ۔(واحلل عقدة من لسانی ) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ شرح صدر کاہونابہت اہم بات ہے ،لیکن یہ سر مایہ اسی صورت میں کام دے سکتاہے ، جب اس کو ظاہرکرنے کی قدرت بھی کامل طورپرموجود ہو ۔اسی بناء پر جناب موسٰی (علیه السلام) نے شرح صدر اور کادٹو ں کے دور ہونے کی درخواستوں کے بعد یہ تقاضا کیاکہ خدا ان کی زبان کی گرہ کھول دے او ر خصوصیت کے ساتھ اس کی علّت یہ بیان کی : تاکہ وہ میری باتوں کوسمجھیں (یفقھواقولی ) ۔
یہ جملہ حقیقت میں پہلی آیت کی تفسیر کررہا ہے اور اس سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ زبان کی گرہ کے کھلنے سے مراد یہ نہ تھی کہ موسٰی(علیه السلام) کی زبان میں بچپنے میں جل جانے کی وجہ سے کوئی لکنت آگئی تھی ۔جیسا کہ بعض مفسرین نے ابن عباس سے نقل کیالہے ۔بلکہ اس سے گفتگومیں ایسی رکاوٹ ہے جو سننے والے کے لیے سمجھنے میں مانع ہوتی ہے ،یعنی میں ایسی فصیح و بلیغ اور ذہن میں بیٹھ جانے والی گفتگوکروں کہ ہرسننے والامیرا مصداق اچھی طرح سے سمجھ لے ۔
سورہ قصص کی آیہ ۳۴ اس تفسیر کی شاہد ہے :
واخی ھارون ھوافصح منی لسانا
میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے ۔
یہ بات خاص طورپرقابل توجہ ہے ،کہ ”افصح “ ”فصیح “ کے ماد ہ سے دراصل کسی چیز کے ذائد باتوں سے پاک ہونے کے معنی میں ہے بعد میں اسی گفتگو ،کے لیے استعمال ہونے لگا جو فہمید ہ ،رسا، منہ بولتی اور ہرغیر ضروری چیز سے پاک ہو ۔
بہر حال ایک کامیاب رہبرو رہنماوہ ہوتاہے کہ جو سعی ء فکراورقدرت روح کے علاوہ ایسی فصیح و بلیغ گفتگوکرسکے کہ جوہرقسم کے ابہام اور نارسائی سے پاک ہو ۔
نیز اس بارسنگین کے لیے ۔یعنی رسالت الٰہی ،رہبری بشراور طاغوتوں اور جابروں کے ساتھ مقابلے کے لیے یارومددگار کی ضرورت ہے اور یہ کام تنہاسرانجام سیا ممکن نہیں ہے لہذا حضرت موسٰی (علیه السلام) نے پروردگار سے جوچوتھی درخوسے کی وہ یہ تھی :خداوندا ! میرے لیے میرے خاندان میں سے ایک وزیر اور مدد گار قراردے ( واجعل لی وزیرامن اھلی ) ۔
” وزیر “ ” وزر “ کے ماد ہ سے دراصل سنگین بوجھ کے معنی میں ہے اور چونکہ وزیر نظام مملکت میں بہت بوجھ اٹھاتاہیں لہذا یہ لفظ ان کے لیے بولاجانے لگا ہے  نیز لفظ ”وزیر “ کامعاون اور یارو مدد گارپر بھی اطلاق ہوتاہے ۔
النتہ یہ بات کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) تقاضا کررہے ہیں کہ یہ وزیران ہی کے خاندان میں سے ہو ،اس کی دلیل واضح ہے چونکہ اس کے بارے میں معرفت اور شناخت بھی زیادہ ہوگی اوراس کی ہمدردیاں بھی دوسرں کے نسبت زیادہ ہوں گی کتنی اچھی بات ہے کہ انسان کسی ایسے کے شخص کو اپناشریک ِ کاربنائے کہ جوروحانی اورجسمانی رشتوں کے حوالے سے اس سے مربوط ہو ۔
اس کے بعد خصوصی طورپر اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کیا: یہ ذمّہ داری میرے بھائی ہارون کے سپرد کردے (ھارون اخی ) ۔
ہارون (علیه السلام) بعض مفسرین کے قو ل کے مطابق حضر ت موسٰی (علیه السلام) کے پڑے بھائی اور ان سے تین سال بڑے تھے بلند قامت فصیح البیان او ر اعلیٰ علمی قابلیت کے مالک تھے انہونے حضرت موسٰی (علیه السلام) کی وفات سے تین سال پہلے رحلت فرمائی (۲) ۔
وہ پیغمبرمرسل تھے جیسا کہ سورئہ مومیون کے آیہ ۴۵ میں بیان ہوا ہے :
ثم ارسلنا موسٰی واخاہ ھارون باٰیاتناوسلطان مبین
اور وہ نور اور باطنی روشنی کے بھی حامل تھے ،اور حق وباطل میں خوب تمیز بھی رکھتے تھے جیساکہ سورئہ انبیا ء کی آیہ ۴۸ میں بیان ہواہے :
ولقد اٰتینا موسٰی و ھارون الفرقان وضیاء
آخری بات یہ ہے کہ وہ ایک ایسے پیغمبر تھے جنہیںخدانے اپنی رحمت سے موسٰی کو بخشاتھا :
ووھبنالہ من رحمتنا اخاہ ھارون نبیا(مریم ۔۵۳) ۔
وہ اس بھاری ذمّہ داری کی انجام دہی میں اپنے بھائی موسٰی کے دوش بدوش مصروف کار رہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ موسٰی ن اس امدھیری رات میں،اس وادیء مقدّس کے اندر ،جب خداسے فرمان ِ رسالت ملنے کے وقت یہ تقاضاکیا ، تووہ اس وقت دس سال سے بھی زیادہ اپنے وطن سے دورگزار کرآرہے تھے،لیکن اصولی طور پر اس عرصہ میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ ا ن کارابطہ کامل طور پرمنقطع نہ ہوا اسی لیے اس صراحت اور وضاحت کے ساتھ ا ن کے بارے بات کررہے ہیں ، اور خدا کی درگا ہ سے اس عظیم ہشن میں اس کی شرکت کے لیے تقاضا کررہے ہیں ۔
اس کے بعد جناب موسٰی (علیه السلام) ہارو ن (علیه السلام) کو وزارت و معاونت پرمتقین کرن کے لیے اپنے مقصد کو اس طرح بیان کرتے ہیں : خداوندا ! میری پشت اس کے ذریعے مضبوظ کردے ۔(اشدد بہ ازری ) ۔
”ازد “ دراصل ” ازار “ کے مادہ سے لباس کے معنی میں لیاگیاہے ،خاص طورپر ا س لباس کوکہاجاتاہے جس کے بند کی کمرمیں گرہ لگائی جاتی ہے ۔اسی سبب سے کھبی یہ لفظ ”کمر “ پریا”قوت “ و ” قدرت “ کے معنی میں بھی آیاہے ۔
اس مقصد کی تکمیل کے لیے یہ تقاضاکرتے ہیں: اسے میرے کام کورو بہ عمل لانے میں بھی شرکت کرے  البتہ حضرت ہارون ہرحال میں تمام پروگراموں میں جناب موسٰی (علیه السلام) کے پیروتھے اور موسٰی (علیه السلام) ا ن کے امام اورپیشواکی حیثت رکھتے تھے ۔
آخر میں اپنی تمام دوخوستوں کانتیجہ اس طر ح بیان کرتے ہیں : تاکہ ہم تیربہت تسبیح کریں( کی نسبحک کثیر ا)اور تجھے بہت بہت یاد کریں (ونذکرک کثیر ا) ۔
کیونکہ توہمیشہ ہی ہمارے حالات سے آگاہ ہے (انک کنت بنابصیرا) ۔
توہماری ضروریات و حاجات کو اچھی طرح جانتاہے اوراس راستے کی مشکلات سے ہرکسی کی نسبت زیادہ آگاہ ہے ہم تجھ سے یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے فرمان کی اطاعت کی قدرت عطافرمادے اور ہمارے فرئض ، ذمّہ داریوں،اور فرائض کے انجام دینے کے لیے ہمیں توفیق اور کامیابی عطافرما ۔
چونکہ جناب موسٰی (علیه السلام) کاپنے مخلصانہ تقاضوں میں سوائے زیادہ کامل ترخدمت کے اور پرکچھ مقصد نہیں تھا لہذا خدانے ان کے تقاضوں کو اسی وقت قبول کیا : ”اس نے کہا : اے موسٰی (علیه السلام) ! تمہاری تمام دوخوستیں قبول ہیں “ (قا ل قد اوتیت سوء لک یاموسٰی ) ۔
حقیقت میں ان حسّاس اور تقدیرساز لمحات میںچونکہ موسٰی (علیه السلام) پہلی مرتبہ خدائے عظیم کی بساط ِ مہمانی پرقدم رکھ رہے تھے ،لہذا جس جس چیز کی انہیںضرورت تھی ان کاخداسے اکھٹا ہی تقاضا کرلیا، اور اس نے بھی مہمان کاانتہائی احترماکیا، اور اس کی تمام درخوستوں اور تقاضوں کوایک مختصر سے جملے میں حیات بخشی نداکے ساتھ قبول کرلیا، اور اس میں کسی قسم کی قید وشرط عائد کی اورموسٰی (علیه السلام) کانام مکرر لاکر ،ہرقسم کے ابہا م کودورکرتے ہوئے اس کی تکمیل کردی ، یہ بات کس قدرشوق انگیز اور افتخار آفرین ہے کہ بندے کانام مولاکی زنان پربارہاآئے ۔

 

 


۱۔نہج البلاغہ کلمات قصار حکمت ۱۷۶ ۔
۲۔ مجمع البیان ، زیرآیت کے ذیل میں ۔
۱۔ انقلاب کی رہبری کے شرائطسوره طه / آیه 24 - 36
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma