دوزخیوں کی کچھ تو صیف

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره مریم / آیه 71 -72 شان نزو ل

درخیوں کی کچھ تو صیف

:
گزشتہ آیات میں قیامت اور بہشت و دوزق کے بارے میں بحث ہوئی تھی ۔زیربحث آیات بھی اسی بارے میں گفتگو کرتی ہیں ۔
پہلی آیت میں قیامت کاانکار کرنے والوں کی گفتگو کو اس طرح سے بیان کیاگیاہے : انسان کہتا ہے کہ کیا مرنے کے بعد آئند ہ زمانے میں قبر سے زندہو کر باہر نکلوں گا (و یقول الانسان ء اذامامت لسوف اخرج حیا ) ۔
البتہ یہ استفہام انکار ی ہے یعنی ایسی بات ممکن نہیں ہے لیکن ”انسان “ کے ساتھ تعبیر (خصوصا الف اور لام کہ جو جنس کے طورپر آتے ہیں ) جبکہ مناسب یہ تھا کہ اس کی بجائے بجائے ”کافر “ کہاجاتا یہ بات شاید اس وجہ سے ہو کہ ابتداء میں یہ سوال کم و بیش ہر انسان کی طبیعت میں مخفی ہوتا ہے اور ( موت کے بعد زندہ ہونے )کو سنتے ہی فورا استفہامی علامت اس کے ذین میں ابھر آتی ہے ؟
بلافاصلہ اسی لب و لہجے اور اسی تعبیر کے ساتھ اسے جواب دیاگیاہے : کیاانسان اس حقیقت کویاد نہیں کرتاکہ ہم نے اس سے پہلے اسے (اس حال میں) پیدا کیا تھا جبکہ وہ مطلقا کوئی چیز ہی نہیں تھا (اولایذکر الااناخلقناہ من قبل و لم یک شیئا ) ۔
یہاں بھی ” الانسان “ کی تعبیر ممکن ہے ، اس نکتے کی طرف اشارہ ہوکہ انسان کواس خداداد استعداد اور ہوش و حواس کے ساتھ ایسے سوال کے جواب میں خاموش ہوکر نہیں بیٹھناچاہیئے ، بلکہ اسے چاہیئے کہ وہ اپنی خلقت کویاد کرکے خوداس کاجواب دے ، ورنہ اس نے اپنی ”انسانیت “ کی حقیقت کو استعمال نہیں کیا ۔
یہ آیات بھی معادسے مربوط بہت سی دوسری آیات کی طرح معادجسمانی کو ثابت کررہی ہیں ورنہ اگر یہ بناہوتی کہ صرف روح باقی ہے اور جسم کادوبارہ زندہ کرکے اٹھایاجان مطلوب نہ ہوتا تو پھر نہ اس سوال کاکوئی موقع تھانہ اس جواب کا ۔
بہرحال قرآن نے معاد کو ثابت کرنے کے لیے جو دلیل اس مقام پردی ہے ،یہی دلیل قرآن میں دوسرے مواقع پر بھی بیانہ ہوئی ہے ،ان میں سے ایک سورئی یٰسین میں ہے :
اولم یر الاانسان اناخلقناہ من نطفة فاذاھوخصیم مبین و ضرب لنا مثلاونسی خلقہ قال من یحی العظام وھی رمیم قل یحییھاالذی الشاء ھااول مرة وھو بکل خلق علیم
کیاانسان یہ نہیں سوچتا کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیداکیا ہے پھر یہ نطفہ اپنے دفاع میں بولنے والے انسان کی شکل میں بدل گیا لیکن اس انسان نے ا س حالت کے باوجود ہمارے لیے ایک مثال پیش کی اور پنی پیدائش کوبالکل ہی بھول گیاہے،اس نے کہاکہ : ان بو سیدہ ہڈیوں کو کون دوبارہ زندہ کرے گا تم کہہ دوکہ انہیںوہی خدازند ہ کرے گا جس نے انہیں پہلی مرتبہ پیداکیا تھا اور وہ اپنی تمام مخلوق قات کاعلم رکھتا ہے ۔ (یٰس۷۷ تا ۷۹ ) (۱) ۔
بعض مفسرین نے اس مقام پر ایک سوال اٹھایاہے کہ اگر یہ دلیل درست ہو کہ جس شخص نے کوئی کا م انجام دیا ہو وہ اسی جیسااور کام بھی کرنے کی قدرت رکھتا ہے تو پھر ہم کچھ کاموں کو انجام دینے کے بعد انہی جیسے کامو ں کو دوبارہ کرنے پرقادر کیو ں نہیں ہوتے ؟
مثلاہم بعض اوقات بہت عمدہ شعرکہہ لیتے ہیں یابہت خوش لکھ لیتے ہیں لیکن بعد میں بہت کوشش کے باوجود ویسا کام نہیں کرسکتے “ ۔
اس سوال پرہمارا جواب یہ ہے کہ صحیح ہے کہ ہم اپنے اعما ل اپنے ارادہ و اختیار سے انجام دیتے ہیں لیکن بعض اوقات غیراختیار ی امور کاایک سلسلہ ہمارے بعض افعال کی خصوصیات پراثر انداز ہوتا ہے کبھی ہمارے ہاتھوں کی غیرمحسوس لرزش حروف کیدقیق شکل پر اثر انداز ہوئی ہے ۔علاوہ ازیں ہماری قدرت و استعداد ہمیشہ ایک جیسی نہیں ہوتی ۔کبھی ایسے عوامل پیداہوجاتے ہیں کہ جو ہمارے تمام اندرونی قویٰ کو اکٹھا کردیتے ہیں جس سے ہم ایک شاہکار پیدا کرسکتے ہیں لیکن بعض اوقات عومل محرکہ کمزور ہوتے ہیں اور ہمارے تمام قوی مجتمع نہیں ہو پاتے اوراسی بناپر دوسری مرتبہ کیاہواکام پہلی مرتبہ کیے ہوئے کا جتنااچھانہیں ہوتا ۔
لیکن وہ خداجس کی قدرت کی کوئی حد نہیں ہے اس کے لیے اس قسم کے مسئا ئیل پید انہیں ہوتے وہ جو کام بھی انجام دے بالکل اسی جیسا بے کم دکاست دوبارہ سرانجام دے سکتا ہے ۔
بعد والی آیت میں منکر ین معاد اور بے ایما ن گنہگار وں کو انتہا ئی یقینی انداز میں تہدید کرتے ہوئے فرمایا گیا فرمایا گیا ہے : تیرے پرور دگار کی قسم ہم سب کو ان شیاطین کے ساتھ کہ جو انہیں وسوسہ میں ڈالتے تھے ،سب کو محشور کریں گے ( فو ربک لنحشر نھم والشیاطین ) ۔
پھر ہم ان سب کو جہنم کے گرد گھٹنو ں کے بل حاضر کریں گے : ۔ ثم لنحضر نھم حو ل جھنم جثیا ) ۔
یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بے ایمان اور گنہگا ر لوگوں کی داد گاہ جہنم کے نزدیک ہے ۔
” جثیا “ کی تعبیر (اس بات کی طرف توجہ کرتے ہو ئے کہ ’ ’ جثی “جاتی کی جمع ، اس شخص کے معنی میں ہے کہ جو گھٹنو ں کے بل بیٹھا ہو ) شاید یہ ان کے ضعیف و ناتوانی اور ذلت و خواری کی طرف اشارہ ہو ۔گویاان میں سے یہ قدرت نہیں ہے کہ وہ پاؤ پر کھڑ ے ہو سکیں ۔البتہ اس لفظ کے اور معنی بھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض انے ” جثی “ کو ” گروہ گروہ“ کے معنی میں تفسیر کیا ہے اور بعض نے نبوہ اور ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے مثلامٹی اور پتھر کے معنی میں،لیکن پہلی تفسیرزیادہ مناسب اور زیادہ مشہور ہے ۔
اس داد گا ہ عدل میںچونکہ اولیت کا لحاظ رکھاجائے گا ، لہذا بعد والی آیت میں فرمایاگیا ہے: ہم سب سے پہلے ان لوگوں کو گرفت میں لیں گے جو سب سے زیادہ سرکش اور سب سے بڑ ھ کر باغی ہیں ۔” ہم ہر گروہ اور جماعت میں سے ایسے افراد کو کہ جو خدائے رحمن کے سامنے سب سے زیادہ سر کش ہوں گے علیحدہ کر لیں گے “ ثم کننذعن کل شیعة ای ایھم اشد علی الرحمن عتیا “ (۲) ۔
وہی بے شرم لوگ کہ جنہونے خدائی رحمن کی نعمتوں تک کوبھلادیا اور اپنے ولی نعمت کے مقابلے میں گستاخی ، نافرمانی اورطغیان وسرکشی پراتر آئے ۔ہاں : ہاں ! یہی لوگ سب سے زیاد ہ جہنم کے سزاوار ہیں ۔
پھر اسی معنی کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے : ہم ان لوگوں سے کہ جو جہنم کی آگ میں جلنے کے لیے اول نمبر پر ہیں ، ا چھی طرح آگا ہ ہیں ۔( ثم لنحن اعلم بالذین ھم اولیٰ بھاصلیا ) ۔
ہم انہیں انتہائی وقت کے ساتھ چھانٹ کر نکال لیں گے اوراس میں کسی قسم کی غلطی یا اشتباہ نہیں ہوگا ۔
” صلی“ مصدر ہے کہ جوآگ روشن کرنے کے معنی میں بھی آیا ہے اور اس چیز کے معنی میں بھی جسے آگ میں جلاتے ہیں ۔


۱۔ہم اس دلیل کے سلسلے میں تفسیرنمونہ کی چھٹی جلد میں ۔ (اردو ترجمہ)” معاد کی مختصر ترین دلیل “ کے حوالے سے بحث کرچکے ہیں (اور اسی طرح تفسیر نمونہ بارہویں جلد کے ۔(اردوترجمہ ) سے آگے بھی ۔
۲۔لفظ ” شیعة “ اصل لغت میں اس گروہ کے معنی میں ہے کہ جو کسی کی انجام دہی میں ایک دوسر ے کے ساتھ دن کریں اور مذکورہ بالاآیت میں اس تعبیر کاانتخا ب ممکن ہے کہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ یہ بے ایمان اور گمراہ لوگ طغیان و سرکشی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیاکرتے تھے ہم اور پہلے اسی گروہ کاحساب لیں گے کہ جو سب سے زیادہ سرکش تھے ۔
سوره مریم / آیه 71 -72 شان نزو ل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma