جنت کی توصیف

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره مریم / آیه 64 - 65 سوره مریم / آیه 61 - 63

جنت کی توصیف :


ان آیات میں سے جنت اور جنتوں کی تعریف و توصیف کی گئی ہے جس کا بیان آیات گزشتہ میں آیاہے ۔
پہلے بہشت مرعوب کی اس طرح توصیف کی گئی ہے ،ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں کہ جن کاخدائے رحمن نے پنے بندوں سے وعدہ کیا ہے اور نہوں نے انہیں دیکھا نہیں ہے ، (لیکن ان پر ایمان رکھتے ہیں ) ( جنات عدن التی وعد الرحمن عبادہ بالغیب ) ۔ خداکاوعدہ حتمی طورپر پورا ہوکررہے گا (انہ کان وعدہ ماتبیا) ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ گزشتہ آیات میں توبہ ایمان اور عمل صالح کے بار ے میں گفتگو تھی اوراس کے بعد بہشت کاوعدہ مفرد ” جنت “ کی صورت میں آیاتھا لیکن یہاں جمع ” جنات “ کی صورت میں ہے کیونکہ ” جنت “ ور حقیقت بہت زیادہ پر نعمت متعدد باغات اور کا مرکب ہے جو صالح مومنین کے لیے ہے ۔
” عدن “ کے ساتھ ان کی توصیف جوہمیشگی اورجا ودا نی کے معنی میں ہے ،اس امرکی دلیل ہے کہ ” جنت ‘ ‘اس جہان کے باغات اور نعمتوں کی طرح نہیں ہے کہ جو زائل ہونے والی ہو کیونکہ جو چیز انسان کواس جہان کی عظیم نعمتوں کے بارے میں پریشا ن کرتی ہے ، یہ ہے کہ یہ سب آخر کار زوال پذید ہیں لیکن ” جنت “ کی نعمتوں کے بارے میں یہ پریشان نہیں ہے (۱) ۔
” عباد ہ “ کالفظ خداکے مومن بندوں کے معنی میں ہے اور ” بالغیب “ کی تعبیرجواس کے بعد ہے اس کامعنی یہ ہے کہ وہ ان کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ان پرایمان رکھتے ہیں ۔سورہ فجر کی آیہ ۳۰ میں بیا ن ہواہے :
فادخلی فی عبادی ودخلی جنتی
میرے بندوں میں داخل ہوجااور میری جنت میںوارد ہو ۔
”بالغیب “ کے معنی میںیہ احتمال بھی ہے کہ جنت کی نعمتیں ایسی ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھااور انہ کسی کان نے سنا ۔یہاتک کہ کسی انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آئیں ۔اس کی نعمتیں کامل طورپر ہماری حس وادراک سے غالب ہیں ۔وہ ایک ایسا جہان ہے جو ا س جہان سے برتر ، وسیع تر اور بالاتر ہے اس کاہم صرف روحانی آنکھ کے ساتھ دورسے دھندلاساتصور کرسکتے ہیں ۔
اس کے بعد بہشت کی عظیم نعمتوں میں سے ایک اور نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : وہ وہاں کوئی لغواور بہیودہ بات ہرگز نہیں سنیں گے ( لایسمعون فیھا لغو ا) ۔نہ کوئی جھوت ، نہ گالی گلوچ ، تہمت، نہ زبان کے زخم ، نہ کوئی تمسخراور مذاق اڑانے کی بات، یہاں تک کہ کوئی بیہودہ نہیں ہوگی ۔
صرف ایک چیز جو وہاں ہمیشہ کان میں آتی رہے گی وہ سلام (الاسلاما ) ۔
سلام : اپنے وسیع معنی میں جو اہل بہشت کی روح ،فکر ،کردار اور گفتار کی سلامتی پر دلالت کرتا ہے ۔
ایساسلام کہ جس نے اس ماحول کوایک بہشت بنادیا ہے اورہرقسم کی اذیت وتکلیف اس سے ختم کردی ہے ۔
ایساسلام جو امن و سلامتی کے ماحول کا ایک نمونہ اور صفاو صمیمیت ، پاکیزگی و تقویٰ ، صلح و آتشی اور آرام وسکوکے ماحول کی ایک نشانی ہے ۔
قرآ ن کی دوسری آیات میں بھی یہی حقیقت مختلف تعبیر وں کے ساتھ بیان ہوئی ہے ۔سورہ زمرکی آیہ۸۳میں ہے ۔
” و قال لھم خزنتھا سلام علیکم طبتم فادخلوھا خٰلدین “
جنت کے خزینہ دارجنت میں داخل ہوتے وقت ان سے کہیں گے : آپ پرسلام ہو ، ہمیشہ خوش و خرم رہیں ،پاک و پاکیزہ رہیں ،آئیے تشریف لائیے ، جنت میں داخل ہوجائیے ، اور ہمیشہ ہمیشہ اسی میں قیام فرمائیے ۔
ادخلوھابسلام ذالک یوم الخلود
سلام و سلامتی کے ساتھ اس میں داخل ہوجاؤ ۔آج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کادن ہے ۔
نہ صرف فرشتہ ان پر اور وہ خود ایک دوسرے پر درودو سلام بھیجیں گے بلکہ خدابھی ان پردرودو سلام بھیجے گا ۔جیساکہ سورہ یٰسین کی آیہ ۵۷ میں ان پر سلام بھیج سرہا ہے :
سلام قولامن رب رحیم
تم پرسلام ہو یہ مہر بان پروردگار کی طرف سے تم بہشتیوں پر سلام ہے ۔
کیا سلام و سلامتی سے معموراس ماحول سے بڑ ھ کر باصفااور ازیبا تر اور بھی کوئی ماحول ہے ؟
اس نعمت کے بعد ایک اورنعمت کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیاہے : ہرصبح وشا م ان کی روزی بہشت میں ان کے لیے حاضرہے ۔(واھم رزقھم فیھابکرة وعشیتا ) ۔
اس جملے سے دوسوال پیداہوتے ہیں :
پہلاسوال یہ ہے کہ کیا جنت میںصبح وشامہوتی ہے ؟
اس سوال کے جواب اسلامی روایات میں اس طرح آیاہے :
اگر چہ بہشت میں ہمیشہ نور اور روشنی ہوتی ہے لیکن بہشتی اس کے نوراور سائے کے کم وزیادہ ہونے سے رات اور دن کی تشخٰیص کریں گے ۔
دوسرا سوال :یہ ہے کہ آیات قرآن سے صاف ظاہر ہے کہ اہل بہشت جس نعمت اور جس روزی کی خوہش کریں گے ہمیشہ اور ہر وقت اسے حاصل کرسیکیں گے ۔ یہ کونسارزق ہوگا جو صرف صبح وشام انہیں ملے گا ؟
اس سوال کاجواب ایک لطیف حدیث سے کہ جو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے ،معلوم کیا جاسکتا ہے ، جس میں آپ فرماتے ہیں :
و تعطیھم طرف الھدایامن اللہ لمواقیت الصلوٰة التی کانو ایصلون فیھاالدینا ۔
خداوند تعالیٰ کی طرف سے ایسے عمدہ تحفے اور ہدیے انہیں ان اوقات میں دیے جائیں گے جن اوقات میں وہ دنیامیں نماز پڑ ھاکرتے تھے (۲) ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممتاز ہدیے جن کی ماہیت و حقیقت کو قیاس اور اندازسے بھی بیان نہیں کیاجاسکتاہے ،ایسی قیمتی نعمتیں ہوں گی جو جنت کی عام نعمتوں کے علاوہ صبح شام انہیں بطورہدیہدی جائیں گی ۔
کیا مذکورہ بالاآیت کی تعبیراور مذکورہ بالاحدیث اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ اہل بہشت کی زندگی ایک ہی طرزپر نہیں ہوگی بلکہ ہر روز اور ہرصبح وشام نئی نئی نعمتیں اور تازہ تازہ لطف ان کے شامل حال جائیں گا ؟
اور کیااس بات کایہ مفہوم نہیں ہے کہ وہاں انسان کاارتقاجاری رہے گا ۔اور چہ وہ وہاں کوئی بیاعمل بجالائے گا لیکن اپنے عقائد واعمال کاجواب مرکب اس نے جہان میں بنایاہے اس کے ذریعے اپنی ارتقا کی منزلیں طے کرتارہے گا ۔
جنت اوراس کی مادی روحانی نعمتوں کی اجمالی تعریف و توصیف کے بعد اہل جنت کاایک مختصر سے جملے میں تعارف کرواتے ہوئے قرآن کہتا ہے : یہ وہی جنت ہے کہ جو ہم اپنے پر وردگار بندوں کو میراث کے طور پر دیں گے ( تلک الجنة التی نورث من عبادنامن کانا تقیا) ۔
گویااتنی نعمتوں سے بھری جنت کے دروازے کی کلید ” تقویٰ“ کے سوااور کچھ نہیں ہے ۔
اگر چہ ”عبادنا“ (ہمارے بندوں ) کی تعبیر میں ایمان و تقویٰ کی طرف خود ایک اجمالی اشارہ موجود ہے لیکن یہ ایسی جگہ نہیں ہے کہ جہاں اجمالی اشارہ کو کافی سمجھ لیا جائے ، بلکہ یہاں صراحت کے ساتھ یہ حقیقت بیان ہونی چاہیئے کہ جنت صرف پرہزگاروں کی جگہ ہے ۔
یہاں پر لفظ ”ارث ‘ ‘ (میراث ) کے ساتھ ہمیں سابقاپڑ تاہے جو عام طورپرایسے مال کے لیے بولاجاتاہے جو کسی سے اس کی موت کے بعد کسی دوسرے تک پہنچاہے ، حالانکہ جنت کسی کی ملکیت نہیں ہے اور ظاہری طور پر کسی کو کچھ پہنچنے کی کوئی بات نہیں ہے ۔
اس سوال کاجوب دو طریقے سے دیاجاسلتا ہے :
۱۔ ” ارث “ لغت میں ” تملیک “ کے معنی میں آیاہے اور مرنے والے کے مال کے اس کے پسماندگان کی طرف منتقل ہونے پر منحصرنہیں ہے
۲۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
مامن احد الاولہ منزل فیالجنة ومنزل فی النارفاماالکافرفیرث المئومن منزلہ من النار و الموئمن یرث الکافرمنزلہ من الجنة :
”ہر شخص کابلااستثناایک مکان جنت میں ہوتاہے اور ایک مکان جہنم میں ہوتاہے ، کافر تو جہنم میں مومنوں کے مکان کے مالک بن جائیں گے اور مومن کافروں کے مکان کے وارث ہوجائیں گے (۳) ۔
اس نکتے کاذکر بھی ضروری ہے کہ ” وارثت “ جس معنی میں حدیث میں آیاہے وہ نسبی تعلق کی بناء پر نہیں ہے بلکہ عقائد و عمل تقویٰ کے زیر
اثر ہے ۔
بعض مفسرین نے مذکورہ بالاآیات کی جو شا ن نزول بیان کی ہے اس سے بھی اسی معنی کی تصیدق ہوتی ہے کہ مشرکین میں سے ایک شخص نے جس کانام ”عاص بن وائل “ تھا اپنے مزدورکی اجرت ( جو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان تھا ) نہ دی اور طعنہ کے طورپر کہا : اگر وہ باتیں جو محمّد کہتاہے حق ہیں تو ہم ہرشخص سے زیادہ جنت کی نعمتوں کے حقدار ہیںوہاں اس مزدور کی مزدوری پوری اداکردیں گے تو مذکورہ بالاآیت نازل ہوئی اور کیا : ”یہ حقیقی بندوں کے لیے مخصوص ہے “

۔
۱۔ ” عدن ‘ ‘ لغت کے لحاظ سے اقامت کے معنی میں ہے اور یہاں یہ مفہوم رکھتاہے کہ اس کے ساکن ہمیشہ اس میں مقیم رہیں گے ۔
۲۔ تفسیر روح المعانی ، ج ۱۶ ، ص ۱۰۳۔
۳۔نوراثقلین ، جلد ۲ ص ۳۱ اس سلسلہ میں تفسیرنمونہ کی چھٹی جلد میں ص ۱۵۸( اردوترجمہ ) پر بحث کرچکے ہیں ۔
سوره مریم / آیه 64 - 65 سوره مریم / آیه 61 - 63
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma