تقلید کا فلسفہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
خواتین کے احکام
تکلیف اور مکلف اصول دین اور فروع دین

تقلید کا فلسفہ
شاید بعض لوگ اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ آج ہمارے زمانہ میں انسان نے تمام علوم میں بہت زیادہ ترقی کرلی ہے اور نئے وسائل کو حاصل کرلیا ہے یعنی زمانہ نے اس قدر ترقی کی ہے کہ اس زمانہ کو ” تحقیق، جستجو اور علم و دانش کا“ لقب دیا جاسکتا ہے ، ان تمام وسائل کے بعد کیا آج کے زمانہ میں بھی تقلید کی ضرورت ہے؟
کیا تقلید کے معنی محققین پر تحقیق کے دروازے بند کردینا نہیں ہیں؟
کیا آنکھوں اور کانوںکو بند کرکے دوسروں کی پیروی کرنا، قرآن کریم کی آیات سے سازگارہے ؟جس میں انسان کو فکر اور تحقیق کی دعوت دی گئی ہے ۔
اس سوال کے جواب کی وضاحت کیلئے تقلید کی اقسام کو بیان کرنا ضروری ہے:
دوسروں کی تقلید اور پیروی کی چار حالتیں ہیں:
الف : جاہل کا عالم کی تقلید کرنا: یعنی جو شخص کچھ نہیں جانتا وہ اس فن کے ماہرین کی پیروی کرے ، جیسے ڈاکٹری کے مسائل سے ناواقف افراد کو ماہر ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے ۔
ب : ایک عالم کا دوسرے عالم کی تقلید کرنا: یعنی اہل فن کا ایک دوسرے کی طرف مراجعہ کرنااوربعض علماء کا بعض علماء کی پیروی کرنا ۔
ج : عالم کا جاہل کی تقلید کرنا: یعنی ایک عالم اور باخبر انسان اپنے علم کو چھوڑ دے اور اپنی آنکھوں اورکانوں کوبند کرکے جاہل کی پیروی کرے ۔
د : ایک جاہل دوسرے جاہل کی تقلید کرے : یعنی کچھ نادان اورجاہل دوسرے جاہل اور نادان گروہ کی تقلید کریں ۔
یہ بات واضح ہے کہ ان چاروں قسموں میں سے صرف پہلی قسم منطقی ، عاقلانہ اور جائز ہے اور صرف تحقیق اور علم و دانش کے زمانہ میں اس سے بے نیاز نہیں ہیں بلکہ علوم کے وسعت کی وجہ سے انسان کو روز برور اس کا احساس زیادہ ہوتا ہے ، البتہ تقلید کی دوسری تینوں قسمیں نہ منطقی ہیں اور نہ اسلام اس کو قبول کرتا ہے ، لہذا احکام کی تقلید میں پہلی قسم مراد ہے (۱) ۔
مسأله ۱ : کوئی بھی مسلمان اصول دین میں تقلید نہیں کرسکتا،بلکہ اصول دین کو ”اپنی حسب حیثیت“ دلیل سے جاننا چاہئے اور اس پر یقین رکھنا چاہئے ۔
مسأله ۲ : احکام دین میں اکثر لوگوں کا وظیفہ تقلید ہے کیونکہ بہت کم ایسے علماء ہیں جو تمام احکام میں مجتہد ہیں ۔




۱۔ پیام قرآن، ج۱، ص ۳۴۶۔

تکلیف اور مکلف اصول دین اور فروع دین
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma