حضرت ابراهیم (ع) کی هجرت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
رسالت کا آخری مرحلہ عملی مقابلے کا آغاز

ہجرت

 

آخر کار نمرود کی ظالم حکومت کی مشیزی کو اس بات کا احساس ہوا کہ یہ جوان آہستہ آہستہ حکومت کے لئے خطرے کا مرکز بنتا جا رہا ہے ۔ انہوں نے سوچا کہ اس کی زبان گویا ، فکر توانااور منطق رسا کہیں پسے ہوئے محروم عوام کی بیداری اور آگاہی کا باعث نہ بن جائے کہیں لوگ استعمار کی زنجیر توڑ کی ان کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں لہذا حکومت نے فیصلہ کر لیا کہ بت پرستوں کے جاہلانہ تعصب کا سہارا لے کر ابراہیم کو راستے سے ہٹا دیا جائے ۔ انہیں ایک خاص انداز اور حالات پیدا کر کے لوگوں کے سامنے آگ کے دریا میں پھینکنے کا فیصلہ کر لیا گیا ۔ سورہ انبیا میں اس واقعہ کی تفصیل آئیں گی ۔یہ آگ در حقیقت لوگوں کی جہالت اور حکمران نظام کے ظلم کے ایندھن سے جلائی گئی تھی ۔ حکومت اس طرح اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے آسودہ فکر کرنا چاہتی تھی ۔
لیکن جب آگ حکم خدا سے خاموش ہو گئی اور ابراہیم اس سے صحیح و سالم نکل آئے تو نمرود کے نظام حکومت میں لرزہ پیدا ہو گیا ۔ اب ابراہیم ایک اور حیثیت سے سامنے آئے ۔ وہ ایک عام تفرقہ پرواز انسان نہ تھے کہ جسے وہ قتل کرنا چاہتے تھے ۔ وہ تو ایک خدائی رہبر تھے وہ ایک ایسے بہادر ہیرو تھے جو تن تنہا خالی ہاتھ طاقتور ظالم حکمرانوں پر حملہ کر سکتے تھے ۔ لہذا عوام کا خون چوسنے والے نمرود اس کے درباریوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پوری قوت سے ابراہیم کا مقابلہ کریں گے اور جب تک انہیں ختم نہ کر لیں آرام سے نہیں بیٹھیں گے ۔
دوسری طرف ابراہیم یہاں اپنا کردار ادا کر چکے تھے ۔ آمادہ دل لوگ ان پر ایمان لا چکے تھے ۔ انہوں نے مناسب سمجھا کہ موٴمنین اور اپنے حامیوں کو ساتھ لے کر بابل سے نکل جائیں اور اپنی دعوت حق کو دور دور تک پھیلانے کے لئے شام ، فلسطین اور فرعون کی سر زمین مصر کی طرف روانہ ہوں ۔ آپ نے ان علاقوں میں حقیقت توحید کی تبلیغ کی اور بہت سے لوگ خدائے واحد پر ایمان لائے ۔

رسالت کا آخری مرحلہ عملی مقابلے کا آغاز
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma