”شجرہ طیبہ“اور” شجرہ خبیثہ“

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
۱۔ کیا آخرت سے مراد قبر ہے ؟ سوره ابراهیم / آیه 24- 27

”شجرہ طیبہ“اور” شجرہ خبیثہ“

یہاں حق و باطل، ایمان وکفر او رطیب و خبیث کو ایک نہایت عمیق اور پر معنی مثال کے ذریعے مجسم کرکے بیان کیا گیا ہے ۔ یہ آیات اس سلسلے کی گزشتہ آیات کی بحث کو مکمل کرتی ہیں ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : کیا تو نے دیکھا نہیں کہ خد انے کس طرح پاکیزہ کلام کے لئے مثال دی ہے اور اسے طیب و پاکیزہ در خت سے تشبیہ دی ہے ( اٴَلَمْ تَرَی کَیْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ ) ۔
پھر اس شجرہ طیبہ یعنی پاکیزہ و با بر کت درخت کی خصوصیات بیان کی گئی ہے اور مختصر عبارت میں ا س کے تمام پہلووٴں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
اس سے پہلے کہ ہم قرآن میں موجود اس شجرہ کی خصوصیات کا مطالعہ کریں “ ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ ”کلمہ طیبہ“ سے مراد کیا ہے ۔
بعض مفسرین نے اس کو کلمہ ٴ توحید او رجملہ ” لاالہ الا اللہ “سے تفسیر کی ہے جب کہ بعض دوسرے اسے اوامر و فرمین الٰہی کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔بعض اسے ایمان سمجھتے ہیں کہ جو لاالہ الااللہ کامعنی و مفہوم ہے ۔ بعض دوسروں سے اس کی ” موٴمن “‘ سے تفسیر کی ہے اور بعض نے اس کا مفہوم اصلاحی و تربیتی روش او رلائحہ عمل بیان کیا ہے ۔۱
لیکن  ”کلمہٴ طیبہ“ کے مفہوم و معنی کی وسعت کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس میں یہ تمام تفاسیر شامل ہیں کیونکہ لفظ ”کلمہ “ کے وسیع معنی میں تمام موجودات شامل ہیں ۔ اسی بناء پر مخلوقات کو ”کلمة اللہ “ کہا جاتا ہے ۔ ۲
نیز ”طیب“ ہر قسم کی پاک و پاکیزہ چیز کو کہتے ہیں ۔
نتیجہٴ کلام یہ ہے کہ اس مثال کے مفہوم میں ہر پاک سنت ، حکم ، پروگرام ، روش ، عمل ، انسان شامل ہے ۔ مختصر یہ کہ ہر پاک و با برکت موجود کلمہ طیبہ ہے اور یہ سب ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہیں کہ جس کی یہ خصوصیات ہیں :
۱۔ وہ موجودہ کہ جو نشو و نما کا حامل ہے نہ کہ بے روح ، جامد اور بے حرکت ہے ۔ بڑھنے او پھلنے پھولنے والاہے ۔ دوسروں کی اور اپنی پرورش و اصلاح کرنے والا ہے ۔ لفظ” شجرہ “اس حقیقت کو بیان کرتا ہے ۔
۲۔یہ درخت پاک و طیب ہے لیکن کس لحاظ سے ، اس سلسلے میں کسی خاص پہلو کی نشاندہی نہیں کی گئی ۔ لہٰذا ا س کامفہوم یہ ہے کہ یہ ہر پہلو سے پاکیزہ ہے ۔ اس کا پھل پاکیزہ ہے ، اس کے شگوفے اور پھول پاکیزہ ہیں ، اس کا سایہ پاکیزہ ہے اور اسے خارج ہونے والی گیس پاکیزہ ہے ۔
۳۔ یہ درخت ایک منظم نظام کا حامل ہے ۔ اس کی جڑ اور اس کی شاخوں میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری ہے ۔اصولی طور پر اس میں جڑ اور شاخ ک اوجود اس میں موجود منظم نظام کی دلیل ہے ۔
۴۔ اس کی جڑ اور ریشہ ثابت ومستحکم ہے ۔ اس طرح سے کہ طوفان اور تند و تیز آندھیاں اسے اس کی جگہ اکھاڑ نہیں سکتیں ۔ اس میں ایسی توانائی ہے کہاس کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی شاخیں سورج کی کرنوں کے نیچے اور آزاد ہوا میںمحفوظ ہیں کیونکہ جو شاخ جتنی اونچی ہو اسے اتنی ہی قوی تر جڑ کی ضرورت ہے (اٴَصْلُھَا ثَابِتٌ ) ۔
۵۔ اس شجرہ کی شاخیں کسی پست اور محدود ماحول میں نہیں ہیں بلکہ وہ آسمان کی بلندیوں میں ہیں ۔ یہ شاخیں ہو اکا سینہ چیز کی بلندی پر جاپہنچیں ہیں ۔ جیا ہاں ”اس کی شاخیں آسمان میں ہیں “ (وَفَرْعُھَا فِی السَّمَاءِ ) ۔
واضح ہے کہ شاخیں جس قدر بلند ہو ںگی ، زمین کے گرد وغبار سے اتنی ہی دور ہو ں گی اور ان کے پھل اتنے ہی زیادہ پاکیزہوں گے اور ایسی شاخیں سورج کی کرنوں اور پاکیزہ ہوا سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گی اور ان کا اثر طیب پھلوں پر بہتر بہتر ہو گا ۔ 3
۶۔ یہ شجرہ طیبہ  پھلوں سے لدا ہوا ہے ۔ یہ ان درختوں کی مانند نہیں کہ جو بے ثمر ہوتے ہیں ” یہ درخت اپنا پھل دیتا ہے “( تُؤْتِی اٴُکُلَھَا ) ۔
۷۔ اور ایہ ایسا درخت ہے جو ایک دو فصلوں میں پھل نہیں دیتا بلکہ ہر موسم میں اس پر پھل لدے ہوتے ہیں تو جب بھی اس کی جانب ہاتھ بڑھا ئے محروم نہیں لوٹے گا (کُلَّ حِینٍ ) ۔
۸۔ اس کا یہ پھل کسی پروگرام کے بغیر نہیں بلکہ قوانین فطرت کے مطابق سنتِ الہٰی کے تحت اور ” اپنے پر وردگار کے اذن سے “ ہے اور سب کے لئے عام ہے (بِإِذْنِ رَبِّھَا ) ۔
اس ”شجرہ طیبہ “ کی یہ خصوصیات آپ کے سامنے ہیں اب غور کیجئے کہ یہ بر کات کس درخت کو حاصل ہیں ۔ یقینا یہ خوبیاں او ربر کتیں کلمہٴ توحید اور اس کے معنی میں موجود ہیں ، ایک موحد اور صاحب معرفت انسان کو حاصل ہیں اور ایک اصلاحی اور پاکیزہ لائحہٴ عمل میں موجود ہیں او ریہ سب مفاہیم محکم و ثابت جڑوں کے حامل ہیں ، سب میں ایسی فراواں شاخیں ہیں جو آسمان سے باتیں کرنے والی ہیں اورمادی آلوگیوں او ر کثافتوں سے دور ہیں ۔ سب ثمر آور ، نور افشاں اور فیض بخش ہیں ۔
جو شخص جو وقت بھی ان کے پا س آئے اور ہاتھ ان کے شاخسارِ وجود کی طرف پھیلائے ان کے لذیزو معطر اور قوت بخش پھلوں سے اپنا دامن ِ مراد بھر لے گا ۔ حوادث کی تیز آندھیاں اور سخت طوفان انہیں ان کی جگہ سے ہٹا نہیں سکتے اور ان کا افق فکر چھوٹی سی دنیا میں محدود نہیں ہے وہ زمان و مکان کے حجاب چاک کرکے ابدیت کی طرف آگے بڑھتے ہیں ۔
ان کا پروگرام ہوا و ہوس کے تابع نہیں بلکہ سب کے سب اذن پر ور دگار سے ا س کے فرمان کے مطابق آگے بڑھے اور حرکت کرتے ہیں او ریہی ان کے ثمر بخش ہونے کا سرچشمہ ہے ۔
پر وردگار کے ان کلمات ِ طیبہ  عظیم و با ایمان جوانمردوں  کی زندگی برکت کا باعث ہے او ران کی موت ہے او ران کی موت حرکت کا سبب ہے ا، ان کے آثار ، ان کے کلمات ، ان کی باتیں ، ان کے شاگرد ، ان کی کتابیں ،ان کی پرافتخار تاریخ حتی کہ ان کی خاموش قبریں سب کی سب الہام بخش ، سر چشمہ ہدایت ، انسان ساز اور تربیت کنندہ ہیں ۔
جی ہاں ! خدا اس طرح سے لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے کہ شاید وہ سمجھ جائیں ” (وَیَضْرِبُ اللهُ الْاٴَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُونَ ) ۔
یہاں مفسرین کے درمیان ایک سوال پیدا ہوا او روہ یہ ہے کی کوئی درخت مذکورہ بالاصفات کا وجودِخارجی رکھتا ہے کہ جس سے کلمہٴ طیبہ کو تشبیہ دی گئی ہے ایسا درخت موجود ہے او روہ کھجور کا درخت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مجبوراً” کل حین “کی تفسیر ” چھ ماہ ، بیان کی ہے ۔
لیکن کسی وجہ سے بھی ضروری نہیں کہ ہم اس قسم کے درخت کے وجود پر اصرار کریں بلکہ مختلف زبانوں میں ایسی بہت تشبیہیں موجود ہیں جو بالکل وجودِ خاجی نہیں رکھیں مثلاًہم کہتے ہیں کہ قرآن ایسے آفتاب کی مانند ہے جو کبھی غروب نہیں ہوتا ( حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ آفتاب ہمیشہ غروب کرتا ہے ) یا کہاجاتا ہے کہ میرا ہجر ایسی رات کی طرح ہے جو ختم ہونے کو نہیں آتی( حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر شب ختم ہو جاتی ہے ) ۔
بہر حال تشبیہ کا مقصد چونکہ حقائق کو مجسم کر نا ہے اور عقلی مسائل کو محسوس کے قالب میں ڈھالنا ہے لہٰذا ایسی تشبیہات میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ پوری طرح دلنشیں ،موٴثر اور جاذب ہیں ۔
اس کے باوجود دنیا میں ایسے درخت موجود ہیں جن کی شاخوں پر سے سارا سال پھل ختم نہیں ہوتے یہاں تک کہ ہم نے خودگرم علاقوں میں بعض ایسے درخت دیکھے ہیں کہ ان پر پھل بھی موجود تھا اور تازہ پھول بھی اُگے ہوئے تھے اور نئے پھل کے آثار بھی موجود تھے جب کہ موسم سر دیوں کاتھا ۔
مسائل سمجھنے اور افہام و تفہیم کا بہترین طریقہ چونکہ موازنہ کرنا ہے لہٰذا شجرہ طیبہ کے ذکر کے بعد بلا فاصلہ اگلی آیت میں فرمایا گیاہے : رہی مثال کلمہٴ خبیثہ کی ، تو وہ خبیث ، ناپاک اور بے ریشہ درخت کی مانند ہے کہ جو زمین سے اکھڑچکا ہے اور طوفان آتے ہیں تو روزانہ کسی اور کونے میں جاگر تا ہے اور اسے قرار و ثبات میسر نہیں (وَمَثَلُ کَلِمَةٍ خَبِیثَةٍ کَشَجَرَةٍ خَبِیثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاٴَرْضِ مَا لَھَا مِنْ قَرَارٍ ) ۔
”کلمہٴ خبیثہ“ وہی کفر و شرک کا کلمہ ہے ، گھٹیا ، قبیح او ربری گفتار ہے ، گمراہ کن اور غلط پروگرام ہے او رناپاک و آلودہ انسان ہیں خلاصہ یہ کہ ہرخبیث اورناپاک چیز کلمہ خبیثہ ہے ۔
واضح ہے کہ ہر ناکارہ او رقبیح و منحوس درخت کہ جس کی جریں اکھڑ گئی ہوں اس میں نہ نشو و نما ہوگی ، نہ ترقی و تکامل ، نہ پھل پھول ، نہ سایہ و منظراو رنہ ثبات و قراردہ تو ایک لکڑی جو سوائے جلانے اور آگ لگانے کے کسی کام کی نہیں بلکہ راستے کی رکاوٹ ہے ۔ ایسا درخت کبھی گزند پہنچا تا اور مجروح کرتا ہے ی الگوں کے لئے تکلیف و آزار کا باعث بنتا ہے ۔
یہ بات قابل ِ توجہ ہے کہ شجرہ طیبہ کی تعریف میں قرآن تفصیل سے بات کرتا ہے لیکن جب شجرہ خبیثہ کے ذکر کا موقع آتا ہے ۔ تو ایک مختصر سا جملہ کہہ کر گزر جاتا ہے ۔ صرف اتنا کہتا ہے ۔
اجتثت من فوق الارض مالھا من قرار
یہ زمین سے اکھڑا ہوا ہے اور اسے ثبات و قرار نہیں ہے ۔
کیونکہ جس وقت یہ ثابت ہو گیا کہ یہ درخت جڑ کے بغیر ہے تو پھر شاخ و بر گ اور پھل پھول کے ذکر کے ذکر کی ضرورت نہیں رہتی ۔ علاوہ ایں یہ ایک طرح کی لطافت ِ بیان ہے کہ انسان محبوب کا ذکر کوتا ہے تو اس کی تمام خصوصیات بیان کرتاہے لیکن جب”مبغوض“ کے ذکر کا موقع آتا ہے تو بس ایک نفرت انگیز جملہ کہہ کے آگے بڑ جاتا ہے ۔
یہاں پھر ہم دیکھتے ہیں کہ مفسرین اس درخت کے متعلق کہ جو مشبہ بہ کے طور پر آیا ہے کے بارے میں سوال اٹھا تے ہیں کہ یہ کونسا درخت ہے ۔
بعض نے اسے ”حنظل“سمجھا ہے کہ جس کا پھل بہت تلخ اور برا ہوتا ہے
بعض نے اسے ”کشوت“ (بروزن” سقوط“)کہا ہے ۔ یہ ایک پیچیدہ ساپودا ہے ، جو بیابانوں میں خاردار بوٹوں سے لپٹ کر اوپر چلا جاتا ہے ۔ نہ ا س کی جڑ ہوتی ہے نہ پتے ( توجہ رہے کہ ” شجر“لغت میں درخت کو بھی کہا جاتا ہے اور پودے کو بھی ) ۔
لیکن جیسا کہ ہم نے ”شجرہ طیبہ “ کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر تشبیہ میں ” مشبہ بہ“ ان تمام صفات کے ساتھ وجود خارجی رکھتا ہو بلکہ یہاں مقصد کلمہٴ شرک ، انحرافی طرز عمل اور خبیث لوگوں کی حقیقی چہرہ کو مجسم طور پر پیش کرنا ہے اور بتانا ہے کہ وہ ان درختوں کی طرح ہیں جن کی ہر چیز خبیث او ناپاک ہے اور ان کا ثمر سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ راستے میں مزاحم ہوتے ہیں اور درد سر کا باعث بنتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ایسے ناپاک درخت کم نہیں کہ جو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گئے ہوں اور بیابان میں طوفان اور تیز آندھی کی زد پر ہوں ۔
مذکورہ بالاآیت میں دو ناطق مثالوں کے ذریعے ایمان و کفر ، مومن و کافر اور کلی طور پر ہ رپاک و ناپاک وجود کو مجسم شکل میں ذکر کیا گیا ہے لہٰذ آخری زیر نظر آیت میں نتیجہ کار اور ان کا انجام آخر ذکر کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : ایمان لانے والوں کو خدا ان کی ثابت و پائدار گفتار و اعتقاد کے سبب ثابت قدم رکھتا ہے ، اس جہاں میں بھی اور اس جہاں میں بھی (یُثَبِّتُ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ ) ۔
کیونکہ ا ن کا ایمان سطحی اور متزلزل نہیں ہوتا نہ ان کی شخصیت کھوکھلی اور متلون ہوتی ہے بلکہ وہ ایک شجرہ طیبہ ہیں کہ جس کی جڑیں ثابت و پائدہیں اور جس کی شاخیں آسمان کی طرح بلندہیں اور چونکہ کوئی شخص لطف ِ خدا سے بےنیاز نہیں ، دوسرے لفظوں میں ہر نعمت بالآخر اس کی ذات ِ پاک کی طرف لوٹتی ہے لہٰذا یہ سچے ثابت قدم مومنین لطفِ خد اکے بھروسہ ہر حادثے کے مقابلے میں پہاڑ کی طرح استقامت دکھاتے ہیں ۔ لغزش کہ جس سے زندگی میں بچا نہیں جاسکتا ان کے راستے میں آتی ہے تو خدا ن کی حفاظت کرتا ہے ۔ شیاطین ہر طرف سے انہیں وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس دنیا کی زرق برق چیزوں کے ذریعے انہیں پھسلانے کی سعی کرتے ہیں مگر ان کا خدا انہیں محفوظ رکھتا ہے ۔ جہنمی طاقتیں اور سنگدل ظالم انہیں طرح طرح کی دھمکیوں کے ذریعے جھکانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انہیں اثبات ِ قدم عطا کرتا ہے کیونکہ ان کی جڑ اور بنیاد ثابت و مستحکم ہوتی ہے ۔
یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ یہ خدائی حفاظت وثبا ت ان کی ساری زندگی پر محیط ہے ۔ اس جہاں کی زندگی پر بھی اور اس جہاں کی زندگی پر بھی ۔ یہاں وہ ایمان و پاکیزگی پر باقی رہتے ہیں اور ان کا دامن آلودگیوں کے عار و ننگ سے پاک ہوتا ہے اور وہاں وہ خدا تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے ۔
پھر ان کے مقابل افراد کے بارے میں فرمایا گیاہے : اور خدا ظالموں کوگمراہ کرتا ہے اور خدا جو کچھ چاہتا ہے انجام دیتا ہے (وَیُضِلُّ اللهُ الظَّالِمِینَ وَیَفْعَلُ اللهُ مَا یَشَاءُ) ۔
ہم نے بارہا کہا ہے کہ جہاں جہاں بھی ہدایت و ضلالت کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے اس کے لئے پہلے انسان خود قدم اٹھا تا ہے ۔ خدا کا کام تو تاثیر پیدا کرتا ہے جو اس نے ہر عمل میں کی ہے نیز خدا کاکام نعمتیں عطا کرنا اور انہیں سلب کرتا ہے اور ایسا وہ اہلیت اور عدم اہلیت کی بناء پر کرتا ہے (غور کیجئے گا ) ۔
یضل اللہ “ کے بعد ” ظالمین “ کی تعبیر اس امر کے لئے بہترین قرینہ ہے یعنی جب تک کوئی شخص ظلم و ستم سے آلودہ نہ ہو اس سے نعمت ہدایت سلب نہیں ہو گی لیکن جب کوئی ظلم و ستم سے آلودہ ہوجاتاتو گناہ کی تاریکی ا س کے وجود پر چھا جاتی ہے او رہدایت الہٰی کا نور ا س کے دل سے نکل جاتا ہے او ریہ بالکل ارادہ و اختیار کی آزادی ہے ۔ ایسا شخص اگر فور ی طور پر اپنی سمت درست کرلے تو نجات کا راستہ اس کے سامنے کھلا ہوا ہے لیکن گناہ میں مستحکم ہو جانے کے بعد پلٹنا بہت ہی مشکل ہے ۔

 

 


۱۔مجمع البیان ، قرطبی، فی ظلال اور تفسیر کبیر از فخر رازی کی طرف رجوع کریں ۔
۲۔ لفظ ”کلمہ “ اور اس کے مفہوم کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد ۵ میں سورہ انعام کی آیہ ۱۱۵ کے ذیل میں ہم بحث کر چکے ہیں ( دیکھئے ص۳۳۱ اردو ترجمہ ) ۔
3۔ ایسی تاثیر خصوصاً ایک درخت کے پھلوں پر خوب واضح ہے ۔ وہ کہ جو درخت کی اوپرکی شاخوں پرلگنے والے پھلوں کی کی نسبت بہتر اور خوب پکے ہوئے ہوتے ہیں اور زیادہ عمدہ ہوتے ہیں ۔
4۔تفسیر نور الثقلین جلد ۲ صفحہ ۵۴۰ و ۵۴۱۔
۱۔ کیا آخرت سے مراد قبر ہے ؟ سوره ابراهیم / آیه 24- 27
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma