۴۔ شکر نعمت اور کفران ِ نعمت کا نتیجہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
شکر نعمت کے بارے میں چند اہم نکات ۔ سب سے بڑی نعمت آزادی ہے

۴۔ شکر نعمت اور کفران ِ نعمت کا نتیجہ : اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ نعمتوں پر ہمارے تشکر کا محتاج نہیں اور اگر وہ شکر گزاری کا حکم دیتا ہے تو وہ بھی ہم پر ایک اور نعمت کا موجب ہے اور ایک اعلیٰ درجے کا تربیتی انداز ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ شکر کی حقیقت کیا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اس کا نعمت کی زیادتی سے کیا تعلق ہے او رکس طرح وہ خود ایک عامل ِ تربیت ہو سکتا ہے ۔
شکر کا مطلب یہ نہیں کہ صرف زبانی شکر کیا جائے یا”الحمد للہ “ وغیرہ کہا جائے بلکہ شکر کے تین مراحل ہیں :
پہلا مرحلہ یہ ہے کہ سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ نعمت عطا کرنے والا کون ہے ۔یہ توجہ ، ایمان اور آگاہی شکر کا پہلا ستون ہے ۔
دوسرا مرحلہ اس سے بھی بالاتر ہے اور وہ عمل کا مرحلہ ہے یعنی عملی شکر یہ ہے یعنی ہم پوری طرح سے غور کریں کہ ہر نعمت ہمیں کس مقصد کے لئے دی گئی ہے اور اسے ہم اس کے اپنے مقام پر صرف کریں اور اگر ایسا نہ کیا توپھر ہم نے کفر ان نعمت کیا ۔ جیسا کہ بزرگوں نے فرمایاہے :
الشکر صرف العبد جمیع ما انعمہ اللہ تعالیٰ فیماخلق لاجلہ
شکر یہ ہے کہ بندہ ہر نعمت کو ا س کے مصرف ہی میں صرف کرے ۔
واقعاً خدا نے ہمیں آنکھیں دی ہیں ، اس نے ہمیں دیکھنے اور سننے کی نعمت کیوں بخشی ہے ۔ کیا اس کے علاوہ کوئی مقصد تھا کہ ہم جہاں میںا سکی عظمت کو دیکھیں ، راہ حیات کو پہچانیں اور ان وسائل کے ذریعے تکامل و ارتقاء کی طرف قدم بڑھائیں اور ، ادراک ، حق کریں ، حمایت ِ حق کریں ، اس کا د فاع کریں اور باطل کے خلاف جنگ کریں ۔ اگر خد اکی ان عظیم نعمتوں کو ہم نے ان کے راستے میں صر ف کیا تو ان کا عملی شکر ہے اور اگر یہ نعمتیں طغیان ، خود پرستی ، غرور، غفلت اور خدا سے دوری کا ذریعہ بن گئیں تو یہ عین کفران ہے ۔
امام صاد ق علیہ السلام فرماتے ہیں :
ادنی الشکر روٴیة النعمة من اللہ من غیر علة یتعلق القب بھا دون اللہ ، و الرضا بما اعطاہ ، وان لا تعصیہ بنعمة و تخالفہ بشیء من امرہ و نھیہ بسبب من نعمتہ
کمترین شکریہ ہے کہ تو نعمت کو خدا کی طر ف سے سمجھے بغیر اس کے کہ تیرا اس نعمت میں مشغول رہے اور تو خد اکو بھول جائے اور ( شکر ) اس کی عطا پر راضی ہونا ہے او ر یہ کہ تو اس کی نعمت کو اس کی نافرمانی کا ذریعہ نہ بنائے اور اس کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کے باوجود تو ا س کے اوامر و نواہی کو روندنہ ڈالے ۔4
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ طاقت ، علم ، قوتِ فکر و نظر ، معاشرتی حیثیت ، مال و ثروت اور تند رستی و سلامتی میں سے ہ رایک کے شکرکا راستہ کیا ہے اور کفران کی راہ کونسی ہے ۔
تفسیر نور الثقلین میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث بھی اس تفسیر کے لئے ایک واضح دلیل ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے فرمایا :
شکر نعمة اجتناب المحارم
شکرانِ نعمت گناہوں سے بچنے کا نام ہے ۔ 5
یہیں سے شکر اور نعمت میں اضافے کے درمیان تعلق واضح ہو جاتا ہے کیونکہ جب بھی انسانوں نے نعمت الٰہی کو بالکل مقاصد ِنعمت کے تحت صرف کیاتو انہوں نے عملی طور پر ثابت کردیا کہ وہ اہل ہیں اور یہ اہل بیت سے زیادہ سے زیادہ فیض اور فزون تر نعمت کا سبب بنی ۔
اصولی طور پر شکر دو طرح کا ہے :
۱۔ شکر تکوینی اور
۲۔ شکر ِ تشریعی
شکر تکوینی یہ ہے کہ ایک موجود خود کو حاصل نعمات کو اپنے رشد و نمو کے لئے استعمال کرے ۔ مثلاً باغیاں دیکھتا ہے کہ باغ کے فلاں حصے میں درخت خوب پھل پھول رہے ہیں اور ان کی جتنی زیادہ خدمت کی جائے اتنے ہی زیادہ شگوفے پھوٹتے ہیں ۔ یہی امر سبب بنتا ہے کہ باغبان باغ کے درختوںکے اس حصے کی خدمت پر زیادہ تو جہ دیتا ہے اور اپنے کارکنوں کو ان کی نگہبانی کی نصیحت کرتا ہے کیونکہ درکت زبانِ حال سے پکار رہے ہوتے ہیں کہ اے باغبان ! ہم اس بات کے اہل ہیں کہ تو اپنی نعمت و احسان ہم پر زیادہ کرے ۔
وہ بھی اس پکار کا مثبت جوا دیتا ہے ۔
بسوزند چوب درختان بی بر سزا خود ہمین است مر،بی بری را
بے ثمر درختوں کی لکڑیاں جلیں کیونکہ بے ثمری کی ہی سزا ہے ۔
جہانِ شکر کی بھی یہی حالت ہے ۔فرق یہ ہے کہ درخت میں خود اختیاری نہیں ہے اور وہ فقط تکوینی قوانین کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں لیکن انسان اپنے ارادہ و اختیار کی طاقت سے اور تشریعی تعلیم و تربیت سے استفادہ کرتے ہوئے اس راہ پر استفادہ کرتے ہوئے اس راہ پر آگاہی سے قدم رکھ سکتے ہیں ۔
لہٰذا وہ شخص کہ جو طاقت کی نعمت کو ظلم و سر کشی کا وسیلہ بنایا ہے گویا زبان حال سے پکاررہا ہوتا ہے کہ خدا وند ! میں اس نعمت کے لائق نہیں اور جو شخص اپنی صلاحیت کو حق و عدالت کی راہ میں کام میں لاتا ہے وہ گویا زبانِ حال سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ پر وردگار ا: میں اس لائق ہوں ، لہٰذا اضافہ فرما ۔
یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ جس وقت ہم شکر الہٰی بجالاتے ہیں ، چاہے وہ فکر و نظر سے ہو ، چاہے زبان سے اور چاہے عمل سے ، شکر کی یہ توانائی خود ہر مرحلے میں ایک نئی نعمت ہے اور اس طرح سے شکر کرنا ہمیں اس کی نئی نعمتوں کا مر ہون منت قرار دیتا ہے اور یوں یہ ہر گز ہمارے بس میں نہیں کہ ا س کے شکر کا حق ادا کر سکیں ۔ جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام کی پندر مناجاتوں میںسے مناجات ِ شاکرین میں ہے :
کیف لی بتحصیل الشکر و شکرکی ایاک یفتقر الیٰ شکر ، فکلمات قلت لک الحمد و جب علی لذلک ان اقول لک الحمد
میں تیرے شکر کا حق کیسے اداکرسکتا ہوں کہ جب یہ شکر ایک اور شکر کا محتاج ہے اور جبمیں ” لک الحمد“ کہتا ہوں تو مجھ پر لازم ہے کہ اس شکر گزاری کی توفیق پر کہوں:” لک الحمد“
لہٰذا انسان کے لئے مرحلہ شکر کا افضل ترین مقام یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی نعمتوں پر شکر سے عاجزی کا اظہار کرے جیسا کہ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
فیمااوحی اللہ عز وجل الیٰ موسیٰ اشکر نی حق شکر ی فقال یا رب و کیف اشکرک حق شکرک و لیس من شکر اشکرک بہ الا و انت انعمت بہ علی قال یاموسی الان شکر تنی حین علمت ان ذٰلک منی ۔
خدا نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرا حق شکر ادا کرو تو انہوں نے عرض کیا : پر وردگارا میں تیرا حق ِ شکر کس طرح ادا کروں جب کہ میں جب بھی تیرا شکر بجا لاتا ہوں تو یہ توفیق بھی خود میرے لئے ایک نعمت ہوگی ۔
اللہ نے فرمایا : اب تونے میرا حق شکر ادا کیا جب کہ تونے جانا کہ حتی یہ توفیق بھی میری طرف سے ہے ۔ 6
بندہ ہمان نہ کہ زتقصیر خویش عذر بہ درگاہ خدا آورد
ورنہ سزا وار خد اوند یش کس نتواندکہ بجا آورد
اچھا بندہ وہی ہے کہ جو اپنی کوتاہیو ں کا عذر بار گاہ الٰہی میں پیش کردے ورنہ اس کی خداندی کاحق کوئی بجا نہیں لاسکتا ہے ۔

 

 


1۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۶۔
2۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۶۔
3۔۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۶۔
4۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۷۱۰۔
5۔نور الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۹۔
6۔ اصول کافی جلد ۴ ص ۸۰ ( باب الشکر ) ۔
شکر نعمت کے بارے میں چند اہم نکات ۔ سب سے بڑی نعمت آزادی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma