۶۔ تمہارا دوسروں کے رنگ میں رنگ جانا ذلت ہے!

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
کامیابی کا راز
۷۔ اصلی گمشدہ کی تلاش!۵۔ ہر روز نیا قدم اٹھانا چاہیے

عزیزو! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے، انسان اسلامی یا غیر اسلامی ملک میں کبھی کچھ آزاد خیال اور لاپرواہ قسموں کے لوگوں کے درمیان پھنس جاتا ہے، جو اس کو اپنے رنگ میں رنگ لینا چاہتے ہیں،اس موقع پر شیطانی وسوسہ اپنا کام شروع کرتا ہے، اور ان کے رنگ میں رنگ جانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا ، اوروہ لوگ اس کے لئے بے بنیاداور بے ہودہ عذر پیش کرتے ہیں ۔
انہیں حالات میں ہر اسنان کے اخلاقی رشد کا معیار، شخصیت کا استقلال اور ایمان کی شکوفائی ظاہر ہوتی ہے ، جو لوگ اس طرح خس و خاشاک کی طرح اپنے آپ کو موجوں کے حوالہ کردیتے ہیں، وہ فحشاء فساد کے سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں، اور گناہ آلود لوگوں کے رنگ میں رنگے جانے کو عزت خیال کرتے ہیںیہ بہت ہی بے وقعت انسان ہیں جنہوں نے انسانیت کے جو ہر کو چھوڑ کر اس کے چھلکے پر قناعت کرلی ہے ۔
لیکن اے میرے عزیز ! تم ایسا ہرگز مت کرنا ،ہمیشہ اپنی قیمت اپنے بلند اقدار کو اس طرح کے ماحول میں ظاہر کرو ، ایمان ، تقوی اور اپنی شخصیت کے استقلال کی طاقت کو نمایاں کرو ، اور اپنے آپ سے یہ کہتے رہو : ” تیرا دوسروں کے رنگ میں رنگ جانا ذلت ہے“!!
انبیا ، اولیاء اور ان کے پیروکار وں نے اپنے زمانے میں غالبا اسی قسم کی مشکل کا سامنا کیاہے،لیکن ان کے صبر واستقلال نے نہ صرف ان کو دوسروں کے رنگ میں رنگ جانے سے بچایا بلکہ انہوں اپنے ارد گرد پورے ماحول کو بدل ڈالا ، اور ان کو اپنے رنگ میں رنگ لیا!۔
برے لوگوں کے رنگ میں رنگ جانا پست ہمت اور بے ارادہ لوگوں کا کام ہے،لیکن صبر و استقلال کے ساتھ دوسروں کو اپنے ماحول میںبدلنا ، تحول پیدا کرنااور مثبت انقلاب پیدا کرناقدر ت مند بہادر مومنوں کا کام ہے ۔
پہلی قسم کے لوگوں کا کام اندھی تقلید کرنا ہے ، اور قرآن مجید کی زبان میں ان کا شعار یہ ہے: ” انا وجدنا آبائنا علی امة و انا علی آثارھم مقتدون“ (1) جبکہ دوسرے دستے کا طریقہ کار غور و فکر اور مناسب چیز کا انتخاب ہے، جنکا شعار یہ ہے ” لا تجد قوما یومنون باللہ والیوم الآخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ ولوکانوا آبائھم او ابنائھم او عشیرتھم اولئک کتب فی قلوبھم الایمان و ایدھم بروح منہ“ (2) ۔
آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کررہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرنے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرہ اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں - اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی خاص روح کے ذریعہ تائید کی ہے ۔
یقینا روح القدس ایسے ہی لوگوں کی مدد کے لئے آتا ہے، اللہ کے فرشتے ان کی حفاظت کرتے ہیں،ان کو روحانی طور پر تقویت پہنچاتے ہیں،اور ان کو ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں ۔
ہاں اے عزیزو ! اگر تم اس قسم کے حالات سے دوچار ہو جاؤ تو اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردو، اس کی پاکیزہ ذات پربھروسہ کرو، خبیثوں کی کثرت سے وحشت زدہ نہ ہو ،اور اس امتحان کوکامیابی کے ساتھ مکمل کرو، تاکہ اس کی برکتوں سے بہرہ مند ہو جاؤ، اور ہمیشہ یہ کہتے رہو ”قل لا یستوی الخبیث و الطیب ولو اعجبک کثرة الخبیث فاتقوا اللہ یا اولی الالباب لعلکم تفلحون “: نجس اور پاکیزہ ایک جیسے نہیں ہیں ، چاہے نجاست کی کثرت تم کو تعجب ہی میں کیوں نہ ڈال دے ، اے صاحبان عقل تقوی الھی اختیار کرو، تاکہ کامیاب ہو جاؤ(3
میرے جوانوں! اللہ کا یہ امتحان خصوصا ہمارے زمانے میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔جو لوگ اس امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں وہ فرشتوں کے پروں پر سوار ہوکر آسمان کی بلندیوں پر مقام قرب تک پہنچ سکتے ہیں ۔

 


1۔ سورہ زخرف ، آیت ۲۳۔
2۔ سورہ مجادلہ ، آیت ۲۲۔
3۔ سورہ مائدہ ، آیت ۱۰۰۔
۷۔ اصلی گمشدہ کی تلاش!۵۔ ہر روز نیا قدم اٹھانا چاہیے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma