تحریر و تقریر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
کامیابی کا راز
شکوفایی قلمحوزہ علمیہ کے امور کی اصلاح

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تحریر و تقریر کا فن خدا وند عالم کی طرف سے سب کو برابر نہیں ملا ہے، لیکن پھر بھی ہر انسان ان دونوں الہی عطیوں میں سے کچھ نہ کچھ کا مالک ضرور ہے ، اگر چہ تحریر و تقریر کو اہم ہنر میں شمار کیا جانا چاہئے لیکن میرے عقیدہ کے لحاظ سے یہ دونوں فن شاعری کی طرح نہیں ہیں کہ بعض کو اس کا ذوق ہوتا ہے اور بعض لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں بلکہ ان دونوں فنوںسے ہر انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے اپنے دل اور ضمیر کی بات کہہ سکتا اور اس سے دفاع کرسکتا ہے ، اگر چہ بعض اس میں قوی ہیں اور بعض ضعیف ہیں ۔
تحریر کے تجربے
یہاں پر ضروری سمجھتا ہوں کہ جوان نسل کے لئے تحریر کے سلسلہ میںاپنے تجربوں کو چند نکات میں بیان کروں :

۱۔ تمام کاموں میں نظم و ضبط

ََََََََََََََمیرا عقیدہ ہے کہ نہ صرف درس و بحث اور تحقیق میں بلکہ کھانے، سونے جاگنے اور خلاصہ یہ کہ تمام کاموں میں نظم و ضبط ہونا چاہئے اور یہی نظم اس بات کا سبب بنتا ہے کہ ہم اپنے قیمتی وقت سے بہتر سے بہتر فائدہ اٹھا سکیں اگر نظم و ضبط نہ ہو تو ہم اپنے اہم کاموں کو انجام نہیں دے سکتے ، اہم تالیفات کرنابغیر نظم و ضبط کے غیر ممکن ہے ۔

۲۔ مل کر کام کرنا

میری زندگی کا دوسرا تجربہ یہ ہے کہ میرے اوپر واضح طور پر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ تمام جگہوں میں ایک ساتھ مل کر کام کرنا خصوصا علمی اور تحریری کاموں میں انفرادی طور سے کام کرنے سے بہتر ہے ، اور اگر انسان کے مشاور اس کے اپنے شاگرد ہوںتو کتنا اچھا ہے جو کتابیں میں نے اہل قلم کی جماعت یعنی ان کے مشوروں سے لکھی ہیں وہ بہت جلدی لکھی گئیںاور بہت اچھی، مرغوب اور مطلوب ثابت ہوئی ہیں ۔
میں اپنے تمام لکھنے والے عزیزوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تالیف اور تصنیف کے سلسلہ میں جہاں تک ہوسکے ایک ساتھ بیٹھ کر کام کرنے کو انفرادی طور سے کام کرنے پر ترجیح دیں ۔
تفسیر نمونہ اور پیام قرآن کی ترقی، مطلوبیت اور مرغوبیت کی وجہ یہی ہے کہ اس میںعلماء کی ایک جماعت نے مل کرکام کیاہے ۔ عقاید کے سلسلہ میں جو میں نے کتابیں لکھی ہیں ان کو پہلے میں نے تدریس کیا تھا اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھی سب گروہی کام کا نتیجہ ہیں ۔
اگر کاموں کو سب مل کر انجام دیں تو بہت جلد ترقی نصیب ہوتی ہے ۔ یہ کام خطا اور اشتباہ سے بھی زیادہ محفوظ ہے ، البتہ گروہی کام کرنے میںکچھ شرائط ہیںجن پرجہاں تک ہوسکتا ہے پروردگار کے لطف سے عمل کرتا ہوں اور دوسروں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ ان امور میںانسان کو دوسروں کے نظریوں کا احترام کرنا چاہئے ۔ اگر ان کاموں میں اتحاد اور یکجہتی پائی جائے تو گروہی کام جاری رہتا ہے ، لیکن اگر میں صرف اپنی فکر کو مقدم رکھوں اور سو فیصد اپنی فکر کو صحیح اور دوسروں کی فکر کو غلط سمجھوں ، دوسروں کے نظریوں کا احترام نہ کروں ، اپنی فکر کے مخالف عقاید کو برداشت نہ کروں، در گذر و چشم پوشی نہ کروں تو کام آگے نہیں بڑھے گا ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ لوگوں میں مثبت اور منفی نکات پائے جاتے ہیں ، جن میںکوئی ایک بھی منفی نقطہ نہ پایا جائے وہ صرف معصومین (علیہم السلام) کی ذوات مقدسہ ہیں ،جس شخص میں بھی مثبت اور قوی نظریات پائے جاتے ہیں ہم ان کو جمع کرتے ہیں اور جن افراد میں اچھے صفات زیادہ پائے جاتے ہیں ان کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کے منفی پہلوؤں کو برداشت کرتے ہیں ۔

۳۔ دوسروں کے قلمی آثار کی تحقیق

ہائی اسکول اور کالج تک میں بھی قلم اٹھانے میں ماہر نہیں تھا اور جو انشاء لکھتا تھا وہ دوسروں کے مضامین سے زیادہ اچھا نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس استعداد کے اجاگر کرنے کی راہیں ہموار نہیں ہوئی تھیں ۔میرا تجربہ ہے کہ لکھنے کے فنون میں مہارت حاصل کرنے کیلئے اچھے لکھنے والوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے ، میں نے بہت دنوں تک یہی کام کیا ، جو کتابیں اپنی نوعیت میں اچھی تھیں، اور کئی مرتبہ چھپ بھی چکی تھیں اور سب کی زبانوں پر انہی کتابوں کا نام تھا لہذا میں ان کتابوں کا مطالعہ کرتا اور ہر جملہ پر رک کر سوچتا تھا اور ان کے تجربوں کو جمع کرتا تھا ۔
۴۔ اساتید کی راہنمائی سے استفادہ
البتہ دوسرا تجربہ یہ بھی ہے کہ کام اگر استاد کے زیر نظر ہو تو بہت جلدی آگے بڑھتا ہے اگرچہ لکھنے میں میرا کوئی استاد نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے دوسرے لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں (اگر چہ وہ بھی اپنی نوعیت میں ایک استاد سے کم نہیں ہے)سے استفادہ کرتا تھا ، لیکن جو لوگ ہمارے ساتھ جلسوں میںحاضر ہوتے تھے اور لکھنے کے فن کو منظم طور سے سیکھ رہے تھے وہ لوگ بہت تیزی کے ساتھ پروان چڑھے اور ان کے اچھے کام بھی سامنے آئے ۔

۵۔ لکھتے وقت مخاطب کو معین کرنا

اگر ہم چاہتے ہیں کہ لکھنے کے کاموں میں کامیاب ہوں تو کتاب یامقالہ میں اپنے اصلی مخاطبین کو پہلے سے معین کریںکہ ہم اس کتاب یا مقالہ کو کن افراد کے لئے لکھ رہے ہیں ،گویا یہ مخاطبین ہمیشہ ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ،ان کو دیکھیں اور ان کے لئے لکھیں ، اگر کتاب لکھتے وقت اپنے مخاطبین کو فراموش کردیںیا جان بوجھ کر مخاطبین کو بدل دیں تو اس کتاب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔

۶۔ نیاز اور ضرورتوں پر عمیق نظر

میرا دوسرا تجربہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تالیف یا تصنیف کامیاب ہو تو ہمیں لوگوں کی مشکلات اور پریشانیوں یاان کے فکری عقاید پر عمیق نظر رکھنا چاہئے ۔ اگر اس راہ میں قدم اٹھائیں اور ہماری تحریریں ان کی مشکلات ، پریشانیاں اور ان کے حل کو منعکس کرسکیں تو ہم بہت جلدکامیاب ہوسکتے ہیں اور اس طرح ہماری تحریریں ہمیشہ باقی رہیںگی ۔

۷۔ اپنے اعتقادات کو لکھنا

اس عمر میں دوسرا تجربہ جو میں نے حاصل کیا وہ یہ ہے کہ جن چیزوں پر خود مجھے اعتقاد نہیں ہے یا جو چیزیں خود میرے لے حل نہیں ہوئی ہیں ، انہیں نہ لکھوں، انسان جس چیز پر اعتقاد رکھتا ہے اس کا اپنے تمام وجود کے ساتھ دفاع کرتا ہے ، جو چیز خود اپنے لئے حل ہوجاتی ہے اس کو بہت اچھی طرح بیان کیا جاسکتا ہے اور ایسی تحریریں بہت ہی خلوص سے بھر پوراور عمیق ہوںگی ۔ اس تجربہ کی بنیاد پر میری نصیحت یہ ہے کہ آپ جس چیز کو خود حل نہ کرسکیں اوراس پر اعتقاد بھی نہ ہو اسے نہ لکھیں ۔

۸۔ سادہ لکھنا

لکھنے والوں کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ کبھی کبھی لمبے مقدمات لکھنے میںگرفتار ہوجاتے ہیںجس کے نتیجہ میں قاری کے لئے اصلی مسئلہ گم ہوجاتا ہے ۔ اضافی مقدمات ،غیر ضروری فروعات کو حذف کرنا چاہئے ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم اور کتاب لکھنے کے سلسلہ میں چھوٹا سا مقدمہ لکھ کر اصل بحث میں وارد ہوجانا چاہئے ۔ البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ بعض جگہوں پر بعض تمہدیں ضروری ہوتی ہیں لیکن طولانی اور فرعی تمہیدوں کی وجہ سے قاری تھک جاتا ہے ۔
مخاطبین اور عوام کی زبان میں لکھنے کی کوشش کرنا چاہئے ،تحریر میں مصنوعی پیچ وخم، پیچیدہ اور مغلق نکات اور نامفہوم جملوں سے پرہیز کرنا چاہئے اور وہ چیزیں جو تحریر کو سادگی اور روانی سے خارج کردیتی ہیںوہ نوشتہ جات کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں ۔ ا لبتہ یہاں پر سلیقہ فرق کرتے ہیں ، بعض کہتے ہیں کہ اگر سادہ لکھیں تو لوگ خیال کرتے ہیں کہ مطالب کی سطح بہت نیچی ہے ، لہذا بہتر ہے کہ پیچیدہ اور نامفہوم عبارت لکھیں تاکہ لوگ کہیں ان مطالب کی سطح بہت اونچی اور عمیق ہے ، یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے!

ایک بڑے گناہ کا اعتراف!

یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی کہ ایک شخص نے کسی کو نصیحت کی تھی کہ تمہاری تقریر کا ایک تہائی حصہ کوئی نہ سمجھے تاکہ وہ کہیں کہ بہت ہی علمی زبان میں تقریر کرتا ہے ۔ لکھتے وقت بھی بعض لوگوں کا یہی عقیدہ ہے ، لیکن میرا عقیدہ یہ ہے کہ اس بات کو دفن کردینا چاہئے جس میں ذاتی مفاد کی خاطربعض ہدف فدا ہوجاتے ہیں ۔
البتہ سادہ لکھنے اور سادہ تقریر کرنے میں ممکن ہے کہ بعض لوگ کہیں کہ ان کی باتیں بہت زیادہ سادہ ہیں یا ان کی تحریریں بہت نیچی سطح کی ہیں، لیکن تجربوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مخلص لوگوں نے اس طرح کی تحریروں اور تقریروں کا بہت زیادہ استقبال کیا ہے ۔
میں نے اپنی پوری عمر میں کبھی بھی اس نصیحت کوکبھی قبول نہیں کیا کہ پیچیدہ اور نارسا تحریریں لکھوں یا تدریس کروں، کیونکہ سادہ کہنے کے بہت زیادہ مثبت آثار پائے جاتے ہیں ،چاہے کوئی کچھ بھی کہے ۔
اس کے علاوہ نیت میں اسے ایک قسم کا تصنع شرک سمجھتا ہوں کہ ہم لوگوں کی مصلحتوں کو اپنے وہمی عناویں پر فدا کردیں ۔ سادہ اور روان لکھنا کوئی عیب نہیں ہے ۔اگر میرے پاس وقت ہوتا تومیں حوزہ علمیہ کی بعض کتابوں کو جن میں بہت زیادہ علمی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں ، ان کے مضامین کو تبدیل کئے بغیر سادہ زبان میں لکھتا ،تاکہ یہ بات ثابت ہوجاتی کہ سخت اور پیچیدہ بحثوں کو آسان زبان میں لکھا جاسکتا ہے ۔ بہرحال اگر سادہ اور روان لکھنا یا بولنا گناہ اور عیب ہے تو میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھ میں یہ گناہ اور عیب پایا جاتا ہے ۔
لیکن تجربوں سے مجھ پر ثابت ہوگیا ہے کہ اس راہ میں کامیابی ہے اور اسی راہ میں اخلاص اور الہی ثواب بھی ہے ۔
اسی وجہ سے میں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی کو اس مسئلہ میں وسوسوں کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور اگر سادہ و روان لکھنے یا بولنے کی قوت پائی جاتی ہے تو اس کو ایک الہی تحفہ اور غنیمت سمجھیں ۔

۹۔ قلم کی لغزشوں میں خدا پر توکل کرنا

میرا عقیدہ ہے کہ لکھنے والا چاہے جس قدر بھی ماہر اور عالم ہو، لغزشوں اور خطاؤں سے محفوظ نہیں ہے، لہذا اپنے آپ کو خدا کے حولہ کردے، کیونکہ کبھی کبھی ایسی لغزشیں سامنے آتی ہیں جن کی تلافی ممکن نہیں ہے اور میں ”واما بنعمة ربک فحدث“ (۱)کے عنوان سے اس بزرگ الہی نعمت کو بیان کرتا ہوں کہ کبھی میرے قلم سے کاغذ پر کچھ ایسے مطالب بھی بیان ہوئے ہیں کہ جو غلط اور اشتباہ تھے یا جن کو بہت بڑی غلطی شمار کیا گیا اور کبھی کبھی تو وہ مطالب چھپنے کے لئے پریس میں بھی چلے گئے لیکن میں جلدی ہی متوجہ ہوگیا اور ان مطالب کو پریس سے واپس منگوالیا ۔
اصولی طور پربغیر کسی اہم غلطی اور لغزش کے تقریبا ۱۴۰ جلد کتابیں لکھنا خدا کی مددکے بغیر ممکن نہیں ہے ، میں بہت سے افراد کو دیکھتا ہوں جو چھوٹا سا کتابچہ لکھتے ہیں اوراس میں بہت فاش غلطیاں ہوتی ہیں ،بہر حال جس نے کبھی کوئی کتاب نہ لکھی ہوشاید وہ ان باتوں کو دقیق طور پر درک نہ کرسکے ، میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کیا اورآئندہ میں بھی اس طرح کی لغزشوں سے محفوظ رہنے کے لئے خود کو خدا کے حوالہ کرتا ہوں (الہی لا تکلنی الی نفسی طرفة عین ابدا

۱۰۔ ہدف کی راہ میں سعی و کوشش

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم تفسیرنمونہ لکھ رہے تھے تو چوبیس گھنٹے میںجو اضافی وقت ہمیں ملتا تھا اس کو بھی تفسیر لکھنے میں خرچ کردیتے تھے  جلاوطنی کے مقام پر ہم تفسیر نمونہ لکھ رہے تھے کیونکہ اس کام کیلئے ہمارے پاس وقت بہت زیادہ تھا ، دس آدمی جو میرا ساتھ دے رہے تھے ان میں سے دو دو کرکے جلاوطنی کی جگہ آتے تھے اگر چہ وہاں جانے میں سیاسی اور غیر سیاسی مشکلیں بھی تھیں بہر حال ہم پھر بھی آتے تھے اور اپنا کام انجام دیتے تھے ۔
کبھی کبھی سفر کی حالت میں ٹرین اور جہاز میں بھی میں کتاب لکھتا تھا ، بسوں میںبیٹھ کر لکھنے میں مشکل ہوتی ہے تو وہاں پر میں فکر سے کام لیتا اور اہم باتوں کو لکھ لیتا، سفروں کے درمیان میں نے بہت سے اشعار کہے اور بہت سے مطالب کو لکھا ۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ تمام بڑے لکھنے والے(مولفین و مصنفین)بہت زیادہ کام کرتے تھے ۔
الحمدللہ میں کام کرنے سے تھکتا نہیں تھا اور اب بھی جب کہ میری عمر اسی سال سے زیادہ ہے شاید بہت سے دن چودہ گھنٹے کام کرتا ہوں اور چونکہ یہ کام میرا پسندیدہ کام ہے اس لئے مجھے اس کام میں خوشی و نشاط حاصل ہوتی ہے تھکان نہیں ۔
اگر میں یہ بات کہوں تو آپ تعجب کریں گے کہ کبھی کبھی میں کام میں اتنا غرق ہوجاتا ہوں کہ پانی پینے کا بھی وقت نہیں ملتا جب بہت زیادہ پیاس لگتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ کام کے دوران میں پانی بھی نہیں پی سکا ۔ ممکن ہے کہ یہ باتیں کچھ لوگوں کے لئے تعجب آور ہوں لیکن جن لوگوں نے یہ چیزیں نزدیک سے دیکھی ہیں ان کے لئے کوئی تعجب کی بات نہیں میرے نزدیکی اور گھر کے افراد نے اس بات کا احساس کیا ہے ۔
اس نکتہ کو بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمیشہ میری کوشش رہتی کہ بیت المال سے کم استفادہ کروں، اسی وجہ سے میری سابقہ زندگی کا اکثر حصہ ماہ محرم و صفر اور رمضان المبارک میں تبلیغ پر جانے سے بسر ہوتا تھا اور ایک حصہ حوزہ علمیہ کے شہریہ کے ذریعہ گزرتا تھا ، لیکن بعد میںجب میری تالیفات کا کام اپنے عروج پر پہنچ گیا تو کتابوں کا حق التالیف میری زندکی کے لئے کافی تھا ،اس وقت میں مراجع کرام کے شہریہ سے بھی استفادہ نہیں کرتا تھا ، آج بھی میری زندگی کتابوں کے حق التالیف سے بسر ہوتی ہے ۔

 


۱۔ سورہ ضحی، آیت ۱۱۔
 
شکوفایی قلمحوزہ علمیہ کے امور کی اصلاح
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma