حوزہ علمیہ کے امور کی اصلاح

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
کامیابی کا راز
تحریر و تقریرمجلس خبرگان میں مذہب کا دفاع

حوزہ علمیہ کے امور کی اصلاح

حوزہ علمیہ میں تمام امتیازات کے باوجود کچھ چیزوں کی شروع ہی سے کمی ہے ، میری آرزو تھی کہ حوزہ علمیہ میں امتحان ہوں (اس زمانہ میں طلاب کے درمیان امتحان رائج نہیں تھے) اورجو لوگ زیادہ محنت کرتے ہیں ان کی پہچان ہو اور ان کی ہمت افزائی کی جائے ۔
علمائی لباس پہننے کے لئے کوئی قانون ہونا چاہئے ،اس مقدس لباس سے بغیر شرایط و قانون کے استفادہ نہیں کرنا چاہئے، خدانخواستہ اگر کوئی غلط کام انجام پائے تو علماء اور مراجع کی طرف سے اس مسئلہ کی تحقیق کی جائے ۔
درسی کتابوں کی اصلاح ہو اور بہت سے اہم اسلامی دروس جو حوزہ علمیہ میں کم رنگ ہیں جیسے عقاید، تفسیر قرآن کریم اور حدیث سے مربوط بحثوں کی طرف زیادہ توجہ دی جائے ۔
تبلیغ کے سلسلہ میں پڑھے لکھے اور دوسری زبانوں سے آشنا افراد کو ایران اور دوسرے ممالک میں روانہ کیا جائے ۔جہاں تک ممکن ہے طلاب کی تمام مشکلات کو حل کیا جائے ۔
آیت اللہ العظمی بروجردی (رحمة اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد بہت سی تبدیلیاں ہوئیں ، فقہ و اصول کے علاوہ دوسری کتابوں کی اصلاح، فقہ و اصول سے اضافی مباحث کو حذف ، جدید مسائل ،مختلف انحرافی اور جعلی مذاہب کی طرف توجہ زیادہ دی گئی اور روزبروز اس کی طرف توجہ بڑھتی گئی ، یہاں تک کہ انقلاب شروع ہوگیا اور خدا کے فضل و کرم سے انقلاب کامیاب بھی ہوگیا ۔ امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) ان پروگراموں کو اہمیت دیتے تھے لہذا آپ نے ”شوارئے عالی مدیریت“ کی بنیاد ڈالنے کی تجویز پیش کی اور اس کی تشکیل کی تاکید بھی کی ۔ تین افراد نے امام خمینی کی طرف سے ،تین افراد نے آیت اللہ العظمی گلپایگانی اور تین افراد نے جامعہ مدرسین کی طرف سے اس ذمہ داری کو قبول کرلیا اورکافی عرصہ تک اس کی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش میں لگے رہے اور خدا کے فضل و کرم سے ان کو اس میں کامیابی حاصل ہوئی ۔
جب ان افراد کا کام ختم ہوگیااور ان کی خدمت کاوقت بھی ختم ہوگیا تو جامعہ مدرسین نے پیش کش کی کہ میںاس ذمہ داری کو قبول کروں ۔ اور چونکہ میں حوزہ علمیہ میں تبدیلی کا خواہاں تھا اور یہ میری دیرینہ آرزو بھی تھی ،میں نے دیکھا کہ دوسرے دوست بھی اس ذمہ داری کومیرے قبول کرنے کی شرط پر قبول کریں گے ،لہذا میں نے قبول کرلیا ، اسی وقت جب میں شک و تردید کی حالت میں تھا کہ اس ذمہ داری کوقبول کروں یا قبول نہ کروں ، میں نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے حر م میں قرآن کریم سے استخارہ کیاجس میں یہ آیت نکلی : ”فلما جاوزا قال لفتاہ آتنا غدائنا لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا“۔ ”پھر جب (دونوں مجمع البحرین)وہاں سے آگے بڑھ گئے تو (موسٰی نے) اپنے جوان صالح سے کہا کہ اب ہمارا کھانا لاؤ کہ ہم نے اس سفر میں بہت تکان برداشت کی ہے“(۱)۔ میں سمجھ گیا کہ کام بہت مشکل ہے اور ایسی راہ ہے جو ظلمات سے آب حیات کی طرف جارتی ہے ! بہر حال اسے میں نے قبول کرلیا ،دوسرے اورتیسرے دورہ میں شورای مدیریت کی سر پرستی کو اپنے ذمہ لے لیا اور خدا کاشکر بہت سے کام انجام پائے ۔
اس دوران جو کام میں نے انجام دئے وہ یہ ہیں :حوزہ علمیہ کے شورائے عالی کے آئین کو تنظیم کرکے آیت اللہ العظمی گلپایگانی اور آیت اللہ العظمی اراکی کی خدمت میں پیش کیا انہوں نے اس پر دستخط کئے اور تاکید کی کہ تمام بزرگان اس کی تائید کریں اور اس کو عدالت میں درج کیا جائے تاکہ حقوقی ا ور قانونی اعتبار سے کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے حوزہ علمیہ کے سلسلہ میںمرحوم آیت اللہ العظمی گلپایگانی کی عمر کے آخری ایام میں ملاقات کی، آپ حوزہ علمیہ کے مستقبل کی بات کرتے ہوئے رونے لگے اور حوزہ علمیہ کے استقلال کو محفوظ رکھنے کی بہت
زیادہ تاکید کی(وہی تاکید جس کی تمام بزرگوں نے سفارش کی ہے ، امام خمینی اور مقام معظم رہبری بھی اس موضوع کی بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں)میں نے عرض کیا کہ آپ مطمئن رہیں ،ہم آپ کے فرزند ہیں اور کوشش کریں گے کہ حوزہ علمیہ کا یہ استقلال باقی رہے اور الحمدللہ آج کوئی بھی اس استقلال کا مخالف نہیں ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ یہ پروگرام ایسے ہی محفوظ رہے گا ۔

 


۱۔ سورہ کہف آیت ۶۲ ۔
تحریر و تقریرمجلس خبرگان میں مذہب کا دفاع
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma