۲۔ اخلاص کی جزا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۳۔ متین وپاکیزہ کلامنفس سے جہاد:

جیسا کہ مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں اشارہ کیاجا چکا ہے کہ قرآن مجید اس خطرناک گرداب کہ جو زوجہ  مصر نے پیدا کردیا، سے یوسف (علیه السلام) کی نجات کی نسبت خداکی طرف دیتا ہے اور کہتا ہے:
ہم نے ”سوء“ اور ”فحشاء“ کو یوسف سے دُور کردیا ۔
لیکن ۔ بعد کا جملہ کہ جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا، کی طرف توجہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان بحرانی لمحات میں خدا اپنے مخلص بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا اور ان کے لئے اپنی معنوی امداد سے دریغ نہیں کرتا بلکہ اپنے غیبی الطاف وامداد سے کہ جن کی تعریف وتوصیف کسی طرح بھی ممکن نہیں اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے اور یہ درحقیقت ایسی جزا ہے کہ جو خدائے بزرگ وبرتر ایسے بندوں کو عطا فرماتا ہے ۔ یہ در اصل پاکیزگی، تقویٰ اور اخلاص کی جزاء ہے ۔
ضمنی طور پر اس نکتے کی یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں حضرت یوسف (علیه السلام) کا ذکر ”مُخلَص“ (بروزن”مطلق“ )بصورتِ اسمِ مفعول ہوا ہے یعنی ”خالص کیا ہوا“ نہ کہ بصورتِ ”مُخلِص“ (بروزن”مُحسِن“) اسمِ فاعل کی شکل میں جس کا معنی ہے ”خالص کرنے والا“۔
غور وخوض سے معلوم ہوتا ہے کہ ”مُخلِص“(لام کے نیچے زیر کی صورت میں)زیادہ تر ایسے مواقع پر استعمال ہوتا ہے کہ جہاںانسان تکامل و ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں ہو اور ابھی خود سازی کے عمل سے گزررہا ہو، جیساکہ قرآنِ حکیم میں ہے:
فَإِذَا رَکِبُوا فِی الْفُلْکِ دَعَوْا اللهَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّین
جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں خدا کو خلوص سے پکارتے ہیں ۔(عنکبوت:۶۵)
اسی طرح ایک اور آیت میں ہے:
وما امروا الا لیعبداللّٰہ مخلصین لہ الدین۔
انہیں حکم نہیں دیا گیا مگر یہ کہ خدا کی خلوص کے ساتھ پرستش کریں ۔(بینة: ۵)
لیکن” مُخلَص“ (لام پر زبر کی صورت میں) اعلیٰ مرحلے کے لئے بولا جاتا ہے کہ جو ایک مدت تک جہادِ بالنفس سے حاصل ہوتا ہے وہی مرحلہ کہ جب شیطان انسان میں اپنے وسوسے پیدا کرنے سے مایوس ہوجاتا ہے، در حقیقت اس مرحلے میں خدا کی طرف سے بیمہ ہوجاتا ہے ۔
ارشاد الٰہی ہے:
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاٴُغْوِیَنَّھُمْ اٴَجْمَعِینَ، إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْھُمَ الْمُخْلَصِین۔
شیطان نے کہا: تیری عزت کی قسم! ان سب کو گمراہ کروں گا مگر تیرے مخلص بندوں کو(۸۲۔۸۳)۔
یوسف (علیه السلام) اس مرحلہ پر پہنچے ہوئے تھے کہ اس بحرانی حالت میں انہوں نے پہاڑ کی طرح استقامت دکھائی اور کوشش کرنا چاہیئے کہ انسان اس مرحلے تک پہنچ جائے ۔

 

۳۔ متین وپاکیزہ کلامنفس سے جہاد:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma