نعمتوں کے باوجود کفران کیوں؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره اسراء آیت 70- 72چند اہم نکات

اس سے قبل توحید کے بارے میں شرک کے خلاف بحث ہوچکی ہے ۔ زیرِ نظر آیات بھی اس بحث کا تسلسل ہیں ۔ ان آیات میں اس موضوع پر دو حوالے سے بحث کی گئی ہے ۔ ایک استدلال و برہان کے حوالے سے اور دوسرے وجدان و ضمیر کے حوالے سے ۔
پہلا توحیدِ استدلالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: تمہارا پروردگار وہ ہے کہ جو دریا میں کشتی کو حرکت عطا کرتا ہے، ایک مسلسل اور دائمی حرکت ( رَبُّکُمْ الَّذِی یُزْجِی لَکُمْ الْفُلْکَ فِی الْبَحْر) ۔
واضح ہے کہ دریا یا سمندر میں کشتیوں کے چلنے کے لیے بہت سے باہم پیوستہ نظام موجود ہیں ۔ ایک طرف پانی کو مرکب کی طرح پیدا کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف بعض چیزوں کا مخصوص وزن پانی سے بہت ہلکا ہے، اس طرح سے کہ وہ پانی کے اوپر رہ سکیں یا پھر انہیں ایسی شکل میں بنایا جاسکتا ہے کہ عملی طور پر ان کا وزن پانی سے کم ہوجائے بلکہ یہاں تک کہ بھاری بوجھ اور بہت سے انسانوں کو اٹھا سکیں ۔ تیسری طرف کشتی کو حرکت دینے والی قوت کی ضرورت ہے ۔ پُرانے زمانے میں یہ ضرورت منظم ہوا ئیں پورا کرتی تھیں ۔ یہ ہوائیں سمندروں پر ایک خاص نظم کے ساتھ چلتی ہیں ۔ ملاح ان سے آشنائی حاصل کرکے ان کے ذریعے بادبانی کشتیوں کو چلاتے ہیں راہوں کو پہنچاننے کے لیے سورج اور ستاروں سے مدد لیتے تھے اور آج کے دور میں قطب نما اور نقشوں سے ۔
بہر حال اگر یہ چاروں امور باہم مربوط نہ ہوتے اور کشتیوں کو چلانے کے لیے آپس میں ہم آہنگ نہ ہوتے تو انسان نقل و حمل کے اس انتہائی اہم وسیلے سے محروم ہوتا ۔
آپ جانتے ہیں کہ کشتیاں ہمیشہ سے انسان کے لیے نقل و حمل اور آمد و رفت کا ایک انتہائی اہم وسیلہ رہی ہیں ۔ آج تو ایسے ایسے بحری جہاز ہیں جو اپنے آپ میں ایک چھوٹے سے شہر کے برابر ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: اور یہ سب کچھ اس لیے ہے تاکہ تم فضل خدا سے بہرہ مند ہو (لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِہ) ۔اپنی آمد و رفت کے لیے، مالِ تجارت کی نقل و حمل کے لیے اور دین و دنیا میں تمہاری مدد کیلئے ”کیونکہ پروردگار تم پر مہذبان ہے“(ِ إِنَّہُ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا) ۔
نظام خلقت کے ایک چھوٹے سے گوشے کے حوالے سے یہ توحید استدلالی کے بارے میں بات تھی۔ اس میں خالق کے علم، قدرت اور حکمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اب بات کا رخ استدلال فطری کی طرف مڑتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: کہیں بھول نہ جانا کہ ”جب کبھی تم کسی دریا یا سمندر میں ہوتے ہو اور تمہیں پریشانیاں اور مشکلات آگھیرتی ہیں (اور تم وحشت ناک طوفانی لہروں میں گھِر جاتے ہو)“ تو وہ تمام معبود تمہیں بھول جاتے ہیں جنہیں تم خدا کے علاوہ پکارتے ہو اور وہی ایک تمہارا سہارا رہ جاتا ہے ( وَإِذَا مَسَّکُمْ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلاَّ إِیَّاہُ) ۔ اور ایسے میں انہیں کھوہی جانا چاہیے کیونکہ طوفانی حوادث میں جب تقلید و تعصب کے پردے فطرتِ انسانی کے چہرے سے ہٹتے ہیں تو نور فطرت چمکنے لگتا ہے، وہی نور فطرت کہ جو نورِ توحید، نورِ خدا پرستی اور نور یگانہ پرستی ہے ۔ جی ہاں! ایسے لمحات میں تمام تصوراتی و خیالی معبود کہ جنہیں انسانی تو ہم نے وجود بخشا ہوتا ہے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں، اس طرح سے جیسے تیز دھوپ میں برف پانی ہوجاتی ہے ۔
یہ ایک عمومی قانون ہے کہ جس کا تقریباً ہر شخص نے تجربہ کیا ہے کہ مصائب و آلام کی شدت میں جب جان پر بن جاتی ہے، اس وقت تمام ظاہری اسباب بیکار ہوجاتے ہیں اور مادی امداد و ناتوان ہوجاتی ہے ۔ ایسے میں انسان علم و قدرت کے عظیم مبداء کو یاد کرتا ہے کہ جو سخت ترین مشکلات کو حل کرنے پر قادر ہے ۔
ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ اس مبداء کا نام کیا رکھتے ہیں ۔ ہم اتنا جانتے ہیں کہ امید کا ایک دریچہ دل کی طرف کھل جاتا ہے اور ایک لطیف و طاقتور نور دل کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے ۔ انسانی روح و قلب کے اندر خداشناسی کا یہ ایک بہت ہی نزدیک راستہ ہے ۔ (۱)
اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے:لیکن تم ایسے مرد و فراموش ہوکہ ”ادھر دست قدرت الٰہی تمہیں ساحل تک پہنچاتا ہے اور ادھر تم اس سے منہ پھیر لیتے ہو اور انسان در اصل ہے ہی کفران کرنے والا ( فَلَمَّا نَجَّاکُمْ إِلَی الْبَرِّ اٴَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْإِنْسَانُ کَفُورًا) ۔
ایک بار پھر غرور ، غفلت، اندھی تقلید اور تعصب کے پردے اس نور الٰہی کو چھپا دیتے ہیں اور گناہ و نافرمانی کا غبار اور مادی زندگی کی سرگرمیاں اس کا تابناک چہرہ پنہان کردیتی ہیں ۔
لیکن کیا تمہارا خیال ہے کہ خدا خشکی اور صحرا میں تمہیں عذاب شدید میں مبتلا نہیں کرسکتا ”کیا تم اس سے مامون ہوکہ اس کے حکم سے زمین پھٹ جائے اور تم اس میں دھنس جاؤ‘ ‘( اٴَفَاٴَمِنتُمْ اٴَنْ یَخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ) ۔ اور کیا تم اس سے مامون ہوکہ تم پر پتھروں کی بارش ہو اور تم پتھروں کے نیچے دفن ہوجاؤ(جبکہ یہ ایسا عذاب ہے کہ جو غرقاب ہونے سے کئی گنا سخت تر ہے)اور پھر تمہیں کوئی محافظ و نگہبان بھی نہ ملے
( اٴَوْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَاتَجِدُوا لَکُمْ وَکِیلًا) ۔
صحرا نور د اس بات سے خاص طور پر آشنا تھے کہ کبھی کبھی بیابان میں ایسے طوفان آتے ہیں کہ ریت اور سنگریزوں کے انبار اٹھائے ہوتے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے نئے ٹیلے بن جاتے ہیں اور بعض اوقات تو اونٹوں کی قطار کی قطار ان کے نیچے دفن ہوجاتی ہے ۔ قرآن کی اس دھمکی کو یہ بیابان نورد زیادہ سمجھ سکتے تھے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: اے بھول جانے والو! کیا تمہارا خیال ہے یہ تمہرا آخری بحری سفر تھا ”کیا اس سے مامون ہوکہ تمہیں تمہاری ضرورتیں پھر سمندر میں نہ لے جائےں اور وہاں خدا تباہ کن تیز ہواؤں کو حکم دے کہ تمہیں تمہارے کفر اور کفران نعمت کے باعث غرق کردیں اور اس وقت پھر یہ عالم ہوگا کہ کوئی تمہارے خون کا مطالعہ کرنے والا نہ ہوگا، کوئی نہ ہوگا جو کہے کہ ایسا کیوں ہوا“ ( اٴَمْ اٴَمِنتُمْ اٴَنْ یُعِیدَکُمْ فِیہِ تَارَةً اٴُخْریٰ فَیُرْسِلَ عَلَیْکُمْ قَاصِفًا مِنَ الرِّیحِ فَیُغْرِقَکُمْ بِمَا کَفَرْتُمْ ثُمَّ لَاتَجِدُوا لَکُمْ عَلَیْنَا بِہِ تَبِیعً-) ۔

چند اہم نکات

۱۔ کم ظرف انسان:
بہت سے لوگ یہ کرتے ہیں کہ مشکلات میں تو خدا کو یاد کرتے ہیں لیکن راحت و آرام میں اسے بھول جاتے ہیں ۔ یہ لوگ حقائق زندگی پر توجہ نہیں دیتے لہٰذا انہیں بھول جانے کی راحت و آرام میں اسے بھول جاتے ہیں ۔ یہ لوگ حقائق زندگی پر توجہ نہیں دیتے لہٰذا انہیں بھول جانے کی عادت پڑچکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ان کی توجہ خدا اور حقائق زندگی کی طرف ہو تو یہ ان کی ایک استثنائی حالت ہوگی کہ جس کے لیے انتہائی شدید عوامل کی ضرورت ہے ۔ جب تک ان عوامل کے تحت کوئی غیر معمولی صورت حال باقی رہے گی انہیں خدایا درہے گا لیکن جو نہی وہ گھڑی ٹلے گی یہ لوگ اپنی انحرافی طبیعت کی طرف پلٹ آئیں گے اور اللہ کو بھول جائیں گے ۔ خلاصہ یہ کہ ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو سنگین و روح فرسا مشکلات میں اللہ کی باعظمت بارگاہ میں سر نہ جھکائیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس اضطراری بیداری اور توجہ کی کوئی قیمت نہیں ۔ صاحبانِ ایمان اور سچے مسلمان وہ ہیں جو راحت و مشکل میں، سلامتی و بیماری میں ، خوشحالی و قحط میں، اقتدار و زندان میں ۔ غرض ہر حالت میں اس کی یاد میں رہتے ہیں اور اصولی طور پر حالات کی تبدیلی ان پر ہرگز کوئی اثر نہیں کرتی۔ ان کی روح اس قدر عظیم ہے کہ سب کچھ ان کے اندر سما جاتا ہے جیسے حضرت علی علیہ السلام کی مثال ہے ۔ ان کی عبادت، ان کا زہد اور ان کی دردمندوں کی خبر گیری تخت و اقتدار پر بھی ایسی ہی تھی جیسی گوشہ تنہائی میں تھی، جیسا کہ آپ خود پرہیزگاروں کی صفات کے بارے میں فرماتے ہیں:
”نزلت انفسہم منہم فی البلاء کالتی نزلت فی الرخاء“
خوشی اور غمی میں ان کی ایک سی حالت رہتی ہے ۔ (2)
مختصر یہ کہ ایمان ، توجہ الی اللہ، توسل، عبادت، توبہ اور اللہ کے حضور سر تسلیم خم کی تبھی کوئی قدر و قیمت ہے جب یہ دائمی اور پائداری ہوں ۔ باقی رہا موسمی تو بہ اور موسمی عبادتیں کہ جو اضطراری حالت میں انجام دی جائیں یا اس حالت میںئکہ جب ذاتی مفادات کا تقاضا ہو تو یہ سب بے فائدہ یا انتہائی کم قیمت ہیں ۔آیاتِ قرآنی میں ایسے لوگوں کی بارہا مذمت کی گئی ہے ۔
۲۔ خدا کی حدود حکومت سے فراز ممکن نہیں:
بعض لوگ۔ مثلاً زمانہ جاہلیت کے بت پرست۔ صرف اس وت خدا کی طرف رُخ کرتے تھے جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہھے ۔ مثلاً کبھی وسط سمندر میں طوفان میں گھر جانے پر یا کسی خطرناک گھاٹی پر یا کسی شدید بیماری میں، حالانکہ اگر صحیح طرح سے سوچا جائے تو ہر حالت میں ہر جگہ انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے ۔
دریا ہو یا صحرا، سلامتی ہو یا بیماری، ہلاکت کے گھڑے کا سامنا ہو یا کوئی اور موقع۔ درحقیقت سب برابر ہیں ۔ ہوسکتا ہے زلزلے کا ایک مختصر سا جھٹکا ہمارے خانہ امن و امان کو وحشت ناک ویرانے میں تبدیل کر دے ۔ خون کا ایک چھوٹا سا ذرہ ہمارے دل کی شہ رگ کو بند کرسکتا ہے ۔ دل یا دماغ کے ایک ثانیے کے سکتے کی وجہ سے موت آسکتی ہے ۔ ان امور کی طرف توجہ کی جائے تو واضح ہوگا کہ خدا سے غفلت اور اس کی پاک ذات کو فراموش کردینا کس قدر جاہلانہ ہے ۔
وہ لوگ کہ جو اس مفروضے کے حامی ہیں کہ مذہب کی بنیاد خوف ہے، ہوسکتا ہے اس بات کو دستاویز کے طور پر پیش کریں کہ مختلف طبیعی عوامل کا خوف انسان کو خدا کے تصور کی طرف لے جاتا ہے اور ایسے خیالات کو تقویت پہنچاتا ہے ۔

قرآنی آیات نے ایسے اوہام کا جواب دیا ہے کیونکہ قرآن نے خداشناسی کی بنیاد کبھی اس مسئلے پر نہیں رکھی بلکہ اس کی بنیاد نظام خلقت کے مطالعے اور اس مطالعے کے ذریعے اس کی پاک ذات تک پہنچنے کو قرار دیا ہے ۔ یہاں تک کہ زیر بحث آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ توحید فطری سے پہلے ایمان استدلالی کے بارے میں بات کی گئی ہے اور در حقیقت ان حوادث کو خدایا دلانے والے شمار کیا گیا ہے نہ کہ اس کی شناحت و معرفت کا موجب کیونکہ حق طلب افراد کے لیے اس کی شناخت و معرفت طریقِ استدلال سے بھی واضح ہے اور راہِ فطرت سے بھی واضح ہے اور راہِ فطرت سے بھی آشکار ہے ۔
۳۔ چند الفاظ کا مفہوم:
”یزجی“جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ”ازجاء“ کے مادہ سے کسی چیز کو مسلسل حرکت دینے کے معنی میں ہے ۔
”حاصب“ایسی ہوا کو کہتے ہیں کہ جو سنگریزوں کو اپنے ہمراہ اٹھالائے اور ان کے ٹیلے بنادے ۔ یہ لفظ در اصل ”حصباء“ سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے ”سنگریزہ“۔
”قاصف“ توڑنے والے کے معنی میں ہے ۔ یہاں ایسی شدید آندھی کی طرف اشارہ ہے کہ جو ہر چیز کو درہم برہم کرکے رکھ دے ۔
”تبیع“”‘تابع‘ کے معنی میں ہے ۔ یہاں ایسے شخص کی طرف اشارہ ہے کہ خون یا خونبہا کا مطالبہ لے کر اٹھ کھڑا ہو اور اس کا پیچھا کرے ۔

 

۷۰ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلیٰ کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا
۷۱ یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ اٴُنَاسٍ بِإِمَامِھِمْ فَمَنْ اٴُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ فَاٴُوْلٰئِکَ یَقْرَئُونَ کِتَابَھُمْ وَلَایُظْلَمُونَ فَتِیلًا
۷۲ وَمَنْ کَانَ فِی ھٰذِہِ اٴَعْمَی فَھُوَ فِی الْآخِرَةِ اٴَعْمَی وَاٴَضَلُّ سَبِیلًا

ترجمہ

۷۰۔ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور خشکی و دریا میں انہیں سواریاں عطا کیں، طرح طرح کے پاکیزہ رزق میں سے انہیں روزی دی اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت عطا کی۔
۷۱۔ وہ دن یاد کرو کہ جب ہر گروہ کو ہم اس کے امام کے ساتھ پکاریں گے ۔ پس جس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں ہوگا وہ اسے (بڑی مسرت سے)بڑھیں گے اور ان پر رائی برابر بھی ظلم نہیں ہوگا ۔
۷۲ ۔ لیکن وہ لوگ جو اس دنیا میں (چہرہٴ حق کو دیکھ کر بھی) اندھے بنے رہے وہ وہاں بھی اندھے رہیں گے بلکہ گمراہ تر۔

 


۱۔ توحید فطری کی تفصیل ”آفریدگار جہاں“میں مطالعہ کیجئے ۔ نیز سورہ نحل کی آیہ ۱۴ کی تفسیر میں بھی ہم اس مسئلے کی طرف اشارہ کرچکے ہیں ۔
2۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۳-
 
سوره اسراء آیت 70- 72چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma