چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
تفسیرزنا کا فلسفہ حرمت

۱۔ کم فروشی کا نقصان:

پہلا نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہیے یہ ہے کہ قرآن مجید میں بارہا کم فروشی، وزن میں کمی اور دھوکا بازی کے خاتمے پر زور دیا گیا ہے ۔ ایک مقام پر یہ مسئلہ وسیع عالمِ ہستی کے نظامِ خلقت کے ہم پّلہ رکھا گیا ہے:
<وَالسَّمَاءَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ، اٴَلاَّ تَطْغَوْا فِی الْمِیزَان۔
خدانے آسمان بلند کیا اور ہر چیز میں میزان اور حساب و کتاب رکھا تا کہ تم وزن اور حساب و کتاب میں سرکشی نہ کرو۔ (رحمٰن۔۷و۸) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ناپ تول پورا رکھنا کوئی کم اہم مسئلہ نہیں بلکہ اصل عدالت اور اس آفرینش کے نظم و ضبط کا حصّہ ہے جو پورے عالم ہستی پر حکم فرما ہے ۔
ایک اور مقام پر شدید اور دھمکی آمیز لہجے میں ارشاد فرما یا گیا ہے:
<وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ، الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُون، وَإِذَا کَالُوھُمْ اٴَوْ وَزَنُوھُمْ یُخْسِرُون، اٴَلَایَظُنُّ اٴُولَئِکَ اٴَنَّھُمْ مَبْعُوثُونَ، لِیَوْمٍ عَظِیمٍ
وائے اور ہلاکت ہے کم فروشی کرنے والوں کے لیے کہ جو خرید تے وقت اپنا حق پورا پورا لیتے ہیں اور بیچتے وقت کم وزن میں کمی کرتے ہیں کیا وہ یہ گمان نہیں کرتے کہ قیامت کے عظیم دن عدل الٰہی کی بارگاہ میں مبعوث ہوں گے ۔ (مطففین۔۱۔۵)
یہاں تک کہ قرآن مجید میں بعض انبیاء کے حالات میں ہے کہ ان کے شدید مبارزہ کا رُخ شرک کے بعد کم فروشی کی طرف تھا مگر ان کی ظالم قوم نے پرواہ نہ کی اور خدا کے شدید عذاب میں گرفتار ہو کر نابود ہوگئی۔
(تفسیر نمونہ جلد ۶ دیکھیے ۔سورہ اعراف کی آیہ ۸۵ کے ذیل میں ، مدین میں حضرت شعیب(ص) کی تبلیغ کے ضمن میں تفصیلات ذکر کی گئی ہیں) ۔
اصولی طور پر حق و عدالت، نظم و ضبط اور حساب و کتاب ہر چیز میں لاور ہر جگہ بنیادی اور حیاتی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ روح ہے جو تمام عالم ہستی پر حکم فرما ہے ۔ لہٰذا اس بنیادی مسئلے سے کسی بھی قسم کا انحراف خطرناک اور بد انجام ہوگا خصوصاً کم فروشی اعتماد و اطمینان کا سرمایہ ختم کردیتی ہے کہ جو مبادلات کا اہم رکن ہے ۔ یہ کام اقتصادی نظام کو درہم برہم کردیتا ہے ۔
بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں اس اصول کو اپنا نے میں غیر مسلم بعض فرض شناسی مسلمانوں سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کی منڈیوں میں اسی وزن کے مطابق اجناس پہنچائیں جو ان پر لکھا ہوا ہے تا کہ دوسروں کا اعتماد حاصل کر سکیں ۔
جی ہاں! وہ جانتے ہیں کہ انسان اہل دنیا بھی ہو تا اس راستہ یہی ہے کہ معاملہ میں خیانت نہ کرے ۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ حقوق کے اعتبار سے کم فروش خریداروں کے مقروض ہیں ۔ لہٰذا ان کی توبہ یہ حقوق ادا کیے بغیر نہیں ہوسکتی جو انہوں نے غصب کیے ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر وہ ان حقوق کے مالکوں کو نہیں پہچانتے تب بھی انہیں چاہئے کہ ان کے برابر ”ردّ مظالم“ کے طور پر اصلی مالکوں کی طرف سے سے فقراٴ اور مساکین کودیں ۔
۲۔ کم تولنے کے مفہوم کی وسعت:
بعض اوقات کم فروشی کا مفہوم وسعت اختیار کر جاتا ہے اور اس میں عمومیت آجاتی ہے ۔ اس طرح سے کہ ہر قسم کی کوتاہی اور فرائض کی انجام دہی میں کمی اس کے مفہوم میں شامل ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا وہ کارگیر جو اپنے کام میں کچھ کمی چھوڑ دیتا ہے ، وہ استاد جو ٹھیک طرح سے درس نہیں دیتا، وہ مزدور جو بر وقت کام پر حاضر نہیں ہوتا اور دل جمعی سے کام نہیں کرتا ۔ اس حکم کے مخاطب ہیں اور اس کی خلاف ورزی کے نتائج کے حصہّ دار ہیں ۔
البتہ زیرِ بحث آیت کے الفاظ براہِ راست اس عمومیت کے لیے نہیں ہیں بلکہ مفہوم کی یہ وسعت عقلی ہے لیکن سورہ رحمن میں جو تعبیر آئی ہے وہ اس عمومیت اور وسعت کی طرف اشارہ کرتی ہے:
<وَالسَّمَاءَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ، اٴَلاَّ تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ
۳۔”قسطاس “ کا مفہوم:
قاف کے نیچے زیر اور پیش کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے (”بروزن ”مقیاس“ اور کبھی بر وزنِ ”قُرآن“) اس کا معنی ہے ترازو ۔بعض اسے رومی زبان کا لفظ سمجھتے ہیں اور بعض عربی کا ۔بعض اوقات کہا جاتاہے کہ اصل میں یہ دو لفظوں کا مرکب ہے ”قسط“ بمعنی عدل انصاف اور ”طاس“ بمعنی ترازوکا پلڑا ۔بعض کہتے ہیں کہ ”قسطاس“بڑے ترازو کو اور ”میزان“ چھو ٹے ترازو کو کہتے ہیں ۔ (1)
بہر حال ”قسطاس“ سے مراد متقسیم اور صحیح سالم ترازو ہے جو بے کم وکاست عادلانہ وزن کرے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام اس لفظ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
ھو الذی لہ لسان
ترازو وہ میزان ہے جس کی زبان (دوپلڑوں کا توان بتانے والی سوئی )ہو۔ (2)
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جو ترازو اس سوئی کے بغیر ہوتے ہیں وہ دو پلڑوں کی حرکات اور توازن کو پوری طرح واضح نہیں کرتے لیکن اگر ترازو میں یہ معیاری سوئی ہوتو پلڑوں کی تھوڑی سی حرکت بھی اس سے ظاہر ہوجائے گی اور عدالت پوری طرح ملحوظ رکھی جاسکے گی ۔

 

۳۶ وَلَاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اٴُوْلٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا
۳۷ وَلَاتَمْشِ فِی الْاٴَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاٴَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا
۳۸ کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہُ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوھًا
۳۹ ذٰلِکَ مِمَّا اٴَوْحیٰ إِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَةِ وَلَاتَجْعَلْ مَعَ اللهِ إِلَھًا آخَرَ فَتُلْقَی فِی جَھَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا
۴۰ اٴَفَاٴَصْفَاکُمْ رَبُّکُمْ بِالْبَنِینَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِکَةِ إِنَاثًا إِنَّکُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِیمًا

ترجمہ

۳۶۔ اس کہ پیروی نہ کر جس کا تجھے علم نہ ہو کیونکہ کان ،آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا ۔
۳۷۔ زمین پر تکبّر سے نہ چل ،تو زمین کو چیر نہیں سکتا اور تیرے قد کی لمبائی ہر گز پہاڑوں تک نہیں پہنچ سکتی ۔
۳۸۔ ان سب کے گناہ تیرے پروردگار کہ ہاں لائقِ نفرت قرار پائے ہیں ۔
۳۹۔ یہ احکام ان حکمتوں میں سے ہیں جو تجھے تیرے پروردگار نے وحی کے ذریعے دی ہیں اور اللہ کے ساتھ ہر گز کسی کو معبود قرار نہ دے کہ تو جہنم میں جاگرے گا اس حالت میں کہ درگاہ خدا سے ملامت شدہ اور راندہ ہو گا ۔
۴۰۔ کیا خدانے بیٹے تم سے مخصوص کردیئے ہیں اور خود ملائکہ میں سے بیٹیاں لے لی ہیں ۔تم بہت بڑی (اور اتنہائی غلط) بات کہتے ہو ۔



1۔ تفسیر المیزان، تفسیر فخر الدین رازی وتفسیر مجمع البیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔
2۔ تفسیر صافی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔
 
تفسیرزنا کا فلسفہ حرمت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma