اہم اسلامی احکام کا سلسلہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
ماں باپ کا انتہائی احترام چند اہم نکات

توحید اور ماں باپ سے حسن سلوک
زیرِ نظرِ آیات اسلامی احکام کے ایک سلسلے کا آغاز ہیں یہ سلسلہ توحید اور ایمان سے شروع ہوتا ہے توحید تمام مثبت اور اصلاحی کاموں کے اسباب کا خمیر ہے ۔توحید سے احکام کے بارے میں گفتگو شروع کرکے ان آیات کا گزشتہ آیات سے تعلق باقی رکھا گیا ہے کیونکہ گزشتہ آیات میں ایمان، کوشش اور دار آخرت کا ارادہ رکھنے کے بارے میں گفتگو تھی۔
نیز یہ اس امر کی بھی تاکید ہے کہ قرآن صاف ترین اور بہترین راستہ کہ طرف دعوت دینے والا ہے ۔
توحید کے ذکر سے بعد شروع کرتے ہوئے قران کہتا ہے:”الله“ خدائے یگانہ کے ساتھ کوئی معبود قرار نہ دے(لَاتَجْعَلْ مَعَ اللهِ إِلَھًا آخَرَ) ۔
قرآن یہ نہیں کہتا کہ خدا کے ساتھ دوسرے معبود کی پرستش نہ کرو بلکہ کہتا ہے کہ اس کے ساتھ کسی اور کو معبود قرار نہ دو۔ یہ بات زیادہ وسیع مفہوم رکھتی ہے ۔ یعنی عقیدے میں، عمل میں، دعامیں اور پرستش میں ۔ کسی حالت میں بھی الله کے ساتھ کسی اور کہ معبود قرار نہ دو۔ اس کے بعد شرک کا ہلاکت انگیز نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:اگر تم اس کے لیے شریک کے قائل ہوگئے تو مذمت اور رسوائی میں ڈوب جاوٴ گے(فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَخْذُولً) ۔
لفظ ”قعود“(بیٹھ جانا) یہاں ضعف و ناتوامی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عربی ادب میں لفظ ضعف کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً
”قعد بہ الضعف عن القتال“
ناتوانی کی وجہ سے دشمن سے جنگ کرنے سے بیٹھ گیا ۔
مذکورہ بالا جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک انسان میں تین بہت برے اثر مرتب کرتا ہے ۔
(۱)شرک ضعف وناتوانی اور ذلت و زبوں حالی کاسبب ہے جبکہ قیام، حرکت اور سر فرازی کا عمل ہے ۔
(۲)شرک مذمت و سرزنش کا سبب ہے کیونکہ یہ ایک واضح انحرافی راستہ ہے، منطقِ عقل کا انکار ہے نعمتِ پروردگار کا واضح کفران ہے ۔ جو شخص ایسا انحراف اختیار کرے وہ قابلِ مذمت ہے ۔
(۳)شرک مشرک کو اس کے بنائے معبودوں کے پاس چھوڑ دیا ہے اور خدا اس کی مدد سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے ۔ بناوٹی معبود بھی چونکہ کسی کہ مدد کرنے کے قابل نہیں اور خدا بھی ان افراد کی مدد ترک کردیتا ہے تو وہ”مخذول“ یعنی بے یار و مددگار ہوکر رہ جاتے ہیں ۔
قرآن کی دوسری آیات میں بھی یہی مفہوم کسی اور شکل میں بیان کیا گیا ہے ۔ سورہ عنکبوت کی آیہ ۴۱ میں ہے:
<مَثَلُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللهِ اٴَوْلِیَاءَ کَمَثَلِ الْعَنکَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَیْتًا وَإِنَّ اٴَوْھَنَ الْبُیُوتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوتِ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ
غیر خدا کو اپنا معبود بنانے والوں کی مثال مکڑی کی سی ہے جس نے کمزور اور بے بنیاد گھر کو اپنا سہارا بنا رکھا ہے اور کمزور ترین گھر مکڑی کا ہے ۔
توحید کے بعد اس پر تاکید کے ساتھ انبیاء کی انسانی تعلیمات میں سے ایک انتہائی بنیادی تعلیم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:” تیرے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو “(وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)
”قضاء“ ”امر“ کی نسبت زیادہ تاکید کا مفہوم رکھتا ہے اور قطعی و محکم فرمان کا معنی دیتا ہے ۔ یہ لفظ اس مسئلے میں پہلی تاکید ہے ۔
توحید۔ کہ جو اسلام کی عظیم ترین بنیاد ہے، ماں باپ سے نیکی کرنے کو اس کے ساتھ قرار دینا اس اسلامی حکم کی اہمیت کے لیے دوسری تاکید ہے ۔
لفظ ”احسان“ یہاں مطلق ہے ۔ اس میں ہر قسم کی نیکی کا مفہوم مضمر ہے ۔ یہ اس معاملے پر تیسری تاکید ہے ۔ اسی طرح لفظ ”والذین“ کا اطلاق مسلمان اور کافر دونوں پر ہوا ہے ۔ یہ اس مسئلے پر چوتھی تاکید ہے ۔
لفظ ”احساناً“یہاں نکرہ صورت میں ہے جو ایسے مواقع پر بیان عظمت کے لیے آتا ہے ۔ یہ پانچویں تاکید ہے(۱) ۔
بعض کا نظریہ ہے کہ ”احسان“ عام طورپر ”الیٰ“ کے ساتھ متعدی ہوتا ہے ”احسن الیہ“ (اس سے احسان کیا“ اور کبھی ”باء“ کے ذریعہ متعدی ہوتا ہے ۔ یہ تعبیر شاید دیکھ بھال کرنے کا معنی دینے کے لئے ہو، یعنی ذاتی طور پر بغیر کسی واسطے کے ماں باپ سے حُسنِ سلوک اور احترام ومحبت کا مظاہرہ کرو، یہ اس مسئلے کے لئے چھٹی تاکید ہے ۔
اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ حکم عمومی عموماً امر اثباتی کے لیے ہوتا ہے حالانکہ یہاں نفی پر ہے (تیرے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کرو) ہوسکتا ہے یہ اس بناء پر ہو کہ لفظ ”قضیٰ“ سے سمجھے جاتا ہے کہ دوسرا جملہ اثباتی شکل میں مقدر ہے اور معنی کے لحاظ سے اس طرح ہے :
تیرے پروردگار نے تاکیدی حکم دیا ہے کہ اس کی پرستش کر و، اس کہ غیر کی نہ کرو ۔
یایہ کہ نفی اور اثبات پر مشتمل یہ جملہ ”اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ“ایک اثباتی جملے کی حیثیت رکھتا ہے یعنی پروردگار کے لیے عبادت منحصر ہے کا اثبات ۔
اس کہ بعد ماں باپ سے حسن سلوک کا ایک واضح مصداق بیان کیا گیا ہے : جب ان دونوں میں سے ایک یادونوں تیرے پاس بڑھاپے تک پہنچ جائیں اور شکستہ سِن ہوجائیں (اس طرح سے انہیں تیری طرف سے مستقل دیکھ بھال کی احتیاج ہو ) توان کے لیے کسی طرح سے محبت میں دریغ نہ کرنا اور ان کی تھوڑی سی بھی اہانت نہ کرنا یہاں تک کہ خفیف ساغیر موٴد بانہ لفظ ”اُف“تک منہ سے نہ نکالنا (إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اٴَحَدُھُمَا اٴَوْ کِلَاھُمَا فَلَاتَقُلْ لَھُمَا اٴُفٍّ) ۔ (۱)
انہیں جھڑک نہ دینا اور ان کے سامنے بلند آواز نہ بولنا (وَلَاتَنْھَرْھُمَا) ۔بلکہ سنجیدہ ‘لطیف کریمانہ شریفانہ انداز سے کلام کرنا (وَقُلْ لَھُمَا قَوْلًا کَرِیمًا) ۔
اور تنہائی عجر وانکساری سے ان کے سامنے پہلو جھکا ئے رکھنا (وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ) ۔اور کہو : پروردگار ا اپنی رحمت ان کے شامل حال کر جس طرح کہ انہوں نے بچپن میں پرورش کی ہے (وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا) ۔
یعض دوسروں کے بقول ”ان“ شرطیہ اور ”ما“ زائدہ سے مرکب ہے جو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ لفظ شرط اس فعل پر آسکے جو نون تاکید سے موٴکد ہے ۔ (المیزان)


۱۔ ”إِمَّا یَبْلُغَنَّ“ میں ”إِمَّا“بعض کے بقول ”ان“ شرطیہ اور ”ما“ شرطیہ کا مرکب ہے جو کہ تاکید کے لئے یکے بعد دیگرے آئے ہیں ۔ (تفسیر فخر الدین رازی)

 

ماں باپ کا انتہائی احترام چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma