۱۔ کیا انسان ذاتی طور پر جلد باز ہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
۲۔ جلد بازی۔ ایک مصیبت:سعادت کا بالکل سیدھا راستہ

زیر بحث آیت میں تو انسان کو جلد باز کہا گیا ہے لیکن کسی آیات بھی ہیں جن میں انسان کو ”ظلوم‘،” جھول“، ”کفور“، سرکش، کم ظرف اور مغرور وغیرہ کہا گیا ہے ۔
ان تعبیروں سے بعضی اوقات یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ظرف یہ کہا گیا ہے اور دوسری طرف انسان کے پاک فطرت اور الٰہی روح کے حامل ہونے کا ذکر ہے ۔ ان دونوں کو کس طرح ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟
دوسری لفظوں میں اسلامی تصور کائنات کے مطابق انسان ایک عالی مرتبہ موجود ہے خلیفة اللهاور زمین میں الله کی نمائندگی کے لایق ہے ۔ انسان فرشتوں کا استاد اور ان سے برتر ہے ۔ یہ بات مذکورہ مذمت آمیز تعبیرات سے کیونکہ ہم آہنگ ہے؟
اس سوال کا جواب ایک ہی جملے میں دیا جاسکتا ہے کہ انسان کا یہ تمام تر مقام، اہمیت اور قیمت سے مشروط ہے اور وہ شرط ہے” ہادیاں الٰہی کے زیر نظر تربیت“۔ اس صورت کے علاوہ انسان خود رو گھاس پھونس کی طرح پرورش پاتا ہے اور خواہشات و شہوات میں غوطے کھاتا رہتا ہے اور اپنی عظیم صلاحتیں کھو دیتا ہے اور اس میں منفی پہلو آشکار ہو جاتے ہیں ۔
اس بنا پر۔ اگر مذکورہ شرط پوری ہوجائے تو وہ تمام مثبت صفات جو قرآن حکیم میں انسان کے بارے میں آئی ہیں وہ صورت پذیر ہو جائیں گی اور اگر یہ شرط پوری نہ ہوئی تو مذکورہ منفی صفات نمایان ہوجائیں گی۔ اسی لیے سورہ معارج کی آیہ ۱۹ تا ۲۳ میں ہے:
<إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ ھَلُوعًا، إِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوعًا، وَإِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوعًا، إِلاَّ الْمُصَلِّینَ، الَّذِینَ ھُمْ عَلیٰ صَلَاتِھِمْ دَائِمُونَ
انسان بہت کم ظرف پیدا ہوا ہے ۔ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بے تاب ہو جاتا ہے اور جب اسے کوئی اچھائی میسر آتی ہے تو بخل کرتا ہے سوائے ان نمازگزاروں کے کہ جو ہمیشہ اس طرز عمل پر باقی رہتے ہیں ۔
اس سلسلے میں مزید تفصیل تفسیر نمونہ کی آٹھویں جلد میں سورہٴ یونس کی آیت ۱۲ کے ذیل میں بیان کی جاچکی ہے ۔

 

۲۔ جلد بازی۔ ایک مصیبت:سعادت کا بالکل سیدھا راستہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma