کس طرح خدا کو بتوں کا شریک بناتے ہو؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
تفسیر چند اہم نکات

ان آیات میں قرآن پھر توحید کی بحث کی جانب لوٹتا ہے اور ان لوگوں کو اس واضح دلیل سے خطاب کرتا ہے : کیا وہ کہ جو تمام عالم ہستی میں ہر چیز کا محافظ اور جس نے سب کو اپنی تدبیر کے زیر پردہ قرار دیا ہے اور تمام لوگوں کے اعمال سے باخبر ہے اس کی طرح ہے کہ جس میں ان صفات میں سے کوئی بھی نہیں(اٴَفَمَنْ ھوقَائِمٌ عَلَی کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ ) ۔۱
در حقیقت مندرجہ بالا جملہ وضاحت سے کہتا ہے کہ خدا نے تمام چیزوں کا اس طرح سے احاطہ کر رکھا ہے کہ گویا وہ سب کے سروں پر کھڑا ہے ، جو کچھ انجام دیتا ہے وہ اسے دیکھتا ہے ، جانتا ہے ، اس کا حساب و کتاب رکھتا ہے ، اس کی جزا و سزا دیتا ہے اور تصرف و تدبیر کرتا ہے ۔ اس بناء پر لفظ” قائم “ایک وسیع رکھتا ہے کہ جس میں یہ تمام امور شامل ہیں اگر چہ بعض مفسرین نے ان میں ایک پہلو لے لیا ہے ۔
اس کے بعد گزشتہ بحث کی تکمیل اور آئندہ بحث کی تمہید کے طور پر فرمایا گیا ہے : انہوں نے خدا کے شریک قرار دئیے ہیں (وَجَعَلُوا لِلَّہِ شُرَکَاءَ) ۔
فوراً ہی انہیں چند طریقوں سے جواب دیا گیا :
پہلا یہ کہ :فرمایا : ان شریکوں کے نام لو (قُلْ سَمُّوھُم) ۔
نام لینے سے یاتو یہ امر مراد ہے کہ ان کی وقعت اور قدر و قیمت اتنی بھی نہیں کہ ان کانام و نشان بھی ہو یعنی تم چند بے نام و نشان اور بے وقعت موجودات کا قادر و متعال پر ور دگار کے کس طرح ہم پلہ قرار دیتے ہو؟
یا مراد یہ ہے کہ ان کی صفات بیان کرو تاکہ ہم دیکھیں کہ کیا وہ عبودیت کے لائق ہیں ؟ اللہ کے بارے میں ہم کہتے ہیں وہ خالق ، راقز زندگی بخشنے والا، عالم ، قادراور بزرگ و بر تر ہے تو کیا تم یہ صفات بتوں کے لئے استعمال کرسکتے ہویا اس کے بر عکس اگر ان کا ذکر کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ ، پتھر، لکڑی کے بے حس و حرکت بت جو عقل و شعور سے عاری ہیں اور اپنے عبادت کرنے والوں کے محتاج ہیں ۔ مختصر یہ کہ ہر چیز سے عاری بت تو پھر ان دونوں کو کس طرح ایک جیسا قراردیا جاسکتا ہے ۔ کیا اب تک انہوں نے کسی کو کوئی نقصان پہنچا یا ہے یا کسی کو کوئی فائدہ پہنچا یا ہے، یا کسی کو مشکل حل کی ہے یا کسی کام میں مدد کی ہے ؟ تو ان حالات میں کونسی عقل اجازت دیتی ہے کہ انہیں خدا کا ہم پلہ قرار دیا جائے کہ جو تمام برکات و نعمات ، سودو زیان اور جزا و سزا کا مالک ہے ۔
البتہ کوئی مانع نہیں کہ یہ تمام معانی ”سموھم “ ( ان کے نام لو) جملے میں جمع ہوں ۔
دوسرا یہ کہ اس قسم کا کوئی شریک کیسے ہوسکتا ہے جب کہ وہ خداجو تمہارے خیال میں ان کا شریک ہے ان کے وجود کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں رکھتا ھب کہ اس کا علم تمام جہان پرمحیط ہے ۔” کیا اسے اس چیز کی خبر دیتے ہوجس کے وجود کو وہ زمین میں نہیں جانتا“
( اٴَمْ تُنَبِّئُونَہُ بِمَا لاَیَعْلَمُ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔
یہ تعبیر در حقیقت مد مقابل کے بے ہودہ اور فضول گفتگو ختم کرنے کے لئے بہترین راستہ ہے ۔ یہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص آپ سے کہتا ہے کہ کل رات فلاں شخص تمہارے گھر میںمہمان تھا اور آپ ا سکے جواب میں کہتے ہیں کہ تم مجھے ایسے مہمان کی خبر دیتے ہو جس کی مجھے اطلاع نہیں ہے یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص میرامہمان ہو اور میں ا س سے بے خبر ہوں او رتم اس سے آگاہ ہو۔
تیسرا یہ کہ دراصل خود تم بھی دل میں ایسی چیز کا ایمان نہیں رکھتے ” صر ف ایک کھوکھلی ظاہری بات کا سہارا لئے ہوئے ہ وکہ جس میں کوئی حقیقی مفہوم موجود نہیں ہے “ (اٴَمْ بِظَاہِرٍ مِنْ الْقَوْلِ ) ۔
اسی بناء پر یہ مشرکین جب زندگی کی کسی سخت گھائی میں جو ہر طرف سے بند ہو کر پھنس جاتے ہیں تو ” اللہ “ کی طرف رجوع کرتے ہیں کیونکہ وہ دلی طور پر جانتے ہیں کہ بتوں سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ خدا ان کی حالت سورہ عنکبوت کی آی۶۵ میں بیان فرماتا ہے جب کہ وہ کسی کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور سخت طوفان میں گھر جاتے ہیں تو صرف خدا کا رخ کرتے ہیں ۔
چوتھا یہ کہ مشرکین صحیح شعور نہیں رکھتے اور چونکہ ہوا و ہوس اورا ندھی تقلید میں گرفتار ہیں لہٰذا عقل مندانہ اور صحیح فیصلہ نہیں کرپاتے ۔ اسی بناء پر گرماہ ہی میں آن پڑے ہیں ۔ ” پیغمبر اور مومنین کے خلاف ان کی سازشوں کو اور ان کے جھوٹ ، تہمتوں اور بہتانوں کو ( ان کی اندرونی ناپاکی کی بناء پر)مزین کردیا گیا ہے “یہاں تک کہ انہوں نے ان بے وقعت او ربے نام و نشان موجودات کو خدا کا شریک جان لیا ہے ( بل زُیِّنَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مَکْرُھُمْ وَصُدُّوا عَنْ السَّبِیلِ )اور جس شخص کو خدا قرار دے اس کی ہدایت کسی کے بس نہیں ہے (وَمَنْ یُضْلِلْ اللهُ فَمَا لَہُ مِنْ ھَادٍ ) ۔
ہم نے بار ہا کہا ہے کہ یہ گمراہی جبری معنی میں نہیں ہے او رنہ یہ بغیر کسی شرطاور بنیاد کے من پسند کا مسئلہ ہے بلکہ خدا کی طرف سے گمراہی خود انسان کے غلط کاموں کے عکس العمل کے معنی میں ہے یہ اس کے اپنے اعمال کا ردّ عمل ہے کہ جو اسے گمراہیوں کی طرف کھینچ لے جاتا ہے ۔ چونکہ ایسے اعمال میں خدا نے یہ خاصیت پیدا کی ہے لہٰذا اس کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے ۔
زیر نظر آخری آیت میں دنیا و آخرت میں ان کی دردناک سزاوٴں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ان ن میں فطرتاً شکست و ناکامی، سیاہ روزی اور ذلت و رسوائی شامل ہیں ۔ فرمایا گیا ہے : ان کے لئے دنیا زندگی میں بھی سزا ہے اور آخرت کی سزا زیادہ سخت اور شدید تر ہے ( لَھُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ اٴَشَقُّ ) ۔ کیونکہ وہ سزا دائمی بھی ہے ، جسمانی اور روحانی بھی اور اس میں طرح طرح کا عذاب شامل ہے اور اگر وہ یہ گمان کریں کہ اس سے بچ نکلنے کے لئے ان کے پاس کوئی راستہ یا وسیلہ ہے تو وہ سخت غلط فہی میں مبتلا ہیں کیونکہ ” خدا کے مقابلے میں انہیں کوئی چیز نہیں بچا سکتی “(وَمَا لَھُمْ مِنْ اللهِ مِنْ وَاقٍ) ۔

 

۳۵۔ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْھَارُ اٴُکُلُھَا دَائِمٌ وَظِلُّھَا تِلْکَ عُقْبَی الَّذِینَ اتَّقَوا وَعُقْبَی الْکَافِرِینَ النَّارُ۔

ترجمہ

۳۵۔وہ جنت کہ جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کے سائے ہمیشہ کے لئے ہیں ۔ یہ انجام ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے پر ہیز گاری اختیار کی ہے اور کافروں کا انجام آگ ہے ۔

 


۱۔درحقیقت مندرجہ بالا جملہ مبتداء پر مشتمل ہے اور اس کی خبر محذوف ہے ، تقدیر میں اس طرح تھا :افمن ھو قائم علی کل نفس بما کسبت کمن لیس کذٰلک یعنی  کیا وہ کہ جو اس صفت ک احامل ہے اس جیسا کہ جو اس سے عاری ہے ۔
 
تفسیر چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma