چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
دنیا پرست تباہ کار اہل شعور کا طرز عمل جنت کے آٹھ دروازے

۱۔ صرف”صبر“کا ذکر کیوں ہوا ہے ؟ ” سلام علیکم بماصرتھم “ کے جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتے اہل جنت یوں سے کہیں گے :”تم پر تمہارے صبر و استقامت کی وجہ سے سلام ہو “ حالانکہ مندرجہ بالاآیت میں ان کے آٹھ قسم کے اچھے کاموں اور اہم طرز ہائے عمل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اس جملے میں آٹھ امور میں سے صرف”صبر “ کی نشاندہی ہی کی گئی ہے ۔
اس امر کی وجہ حضرت علی  کے ایک زندہ اور پر مغز بیان سے سمجھی جاتی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :
ان الصبر من الایمان کالراس من الجسد ولاخیر فی جسد لاراٴس معہ ولافی ایمان لاصبر معہ۔
صبر کی ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کی جسم سے ہے۔بدن سے کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا اور ایمان بی صبر کے بغیر کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔1
درحقیقت تمام انفرادی اور اجتماعی اصلاحی پروگراموں کا سہارا صبر و شکیبائی اور استقامت ہے ۔ اگر یہ نہ ہو تو ان میں سے کچھ بھی انجام نہیں پاسکتا کیونکہ ہر مثبت کام کی راہ میں مشکلات او ر رکاوٹیں ہوتی ہیں کہ جن پر صبر و استقامت کی قوت کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی نہ ایفائے عہد صبر و استقامت کے بغیر ممکن ہے ،نہ خدا رشتوں کی حفاظت اس کے بغیر ممکن ہو سکتی ہے ،نہ اسکے بغیر خدا اور عدالت ِ قیامت کاخوف ہوتا ہے ، نہ اس کے بنا قیام نماز ممکن ہے ،نہ خدائی نعمتوں میں سے اس کے بغیر کرچ ہوتا ہے او رنہ ہی اس کے بغیر حسنات کے ذریعے خطاوٴں کی تلافی ہو سکتی ہے ۔
۲۔جنت کے دروازے : آیات قرآن سے بھی اور روایات سے بھی یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ جنت کے دروازے ہیں لیکن یہ متعدد دروازے اس بناء پرنہیں ہیں کہ جنت میں داخل ہونے والوں کی تعداد اس قدر ہے کہ اگر وہ ایک ہی دروازے سے داخل ہونا چاہیں تو زحمت ہوگی، نہ ہی اس کی وجہ وجہ یہ ہے کہ طبقات میں اختلاف ہے او ر جس کی بناء پر ہر گز گروہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دروازے سے آئے ، نہ ہی اس کی وجہ راستے کی نزدیکی یا دوری ہے اور نہ ہی دروازوں کی کثرت خوبصورتی زیبائی اور تنوع کا باعث ہے اصولی طور پر جنت کے دروازے دنیا کے دروازوں کی طرح نہیں ہیں کہ وباغات،محلات اور مکانات میں داخل ہو نے کے لئے ہوتے ہیں بلکہ یہ دروازے اعمال و کردار کی طرف اشارہ ہیں کہ جو جنت میں داخل ہونے کاسبب ہو ں گے اسی لئے چند ایک احادیث میں ہے کہ جنت کے دروازے کے مختلف نام ہیں ۔ ان میں سے ایک کانام ”باب المجاھدین “( مجاہدین کا دروازہ) ہے اور مجاہدین اسی اسلحہ سے مسلح ہو کر اس دوازے سے جنت میں داخل ہو ں گے جس کے ساتھ وہ جہاد کر تے تھے اور فرشتے انہیں” خوش آمدید“کہیں گے۔2
ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
اعلموا ان للجنة ثمانیة ابواب عرض کل باب منھا میسرةاربعین سبعة
جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں کہ جن میں ہر دروازے کا عرض چالیس سال کی مسافت کے برابر ہے ۔3
یہ حدیث نشاندہی کرتی ہے کہ ایسے مواقع پر دروازے کا مفہوم ہماری رو زمرہ کی گفتگو سے وسیع تر ہے ۔
یہ بات جاذب نظر ہے کہ قرآن حکیم میں ہے کہ جہنم کے سات دروازے ہیں :لھا سبعة ابواب (حجر۴۴)
اور روایا ت کے مطابق جنت کے اس آٹھ دروازے ہیں ۔یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جہنم میںپہنچنے کے راستوں کی نسبت سعادت بہشت جاوداں تک پہنچنے کے راستے زیادہ ہیں اور خدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے جیسا کہ دعاء جوشن کبیر کے الفاظ ہیں:یا من سبقت رحمتہ غضبہ
اس سے بھی زیااوٴدی جاذب نظر امر یہ ہے کہ مندرجہ بالاآیات میں بھی”اولوالالباب“کے طرزہائے عمل کے بارے میں آٹھ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک دراصل جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور سعادت جاوداں تک پہنچنے کا راستہ ہے ۔
۳۔اہل جنت سے وابستگی رکھنے والے ان سے جاملیں گے: نہ صرف مندرجہ بالاآیت بلکہ قرآن کی دوسی آیات بھی یہ بات صراحت سے بیان کرتی ہیں کہ جنت میں اہل بہشت او ر ان کے ماں باپ ،بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک اور صالح ہوں گے داخل ہوں گے ۔یہ در حقیقت ان پر خدائی نعمات کی تکمیل ہے تاکہ وہ وہاں کسی قسم کی کمی محسوس نہ کریں یہاں تک کہ جن افراد سے ان کا لگاوٴہے ان کی جدائی بھی نہ ہو۔نیز چونکہ اس دار آخرت میں کہ جو نیا اور کامل گھر ہے ہر چیز تازہ اور نئی ہوتی ہوجاتی ہے لہٰذا وہ لوگ بھی تازہ اور نئے چہروں کے ساتھ اور زیادہ خلوص و محبت کے ساتھ وہاں داخل ہو ں گے ، ایسی مہر و محبت کو جو نعماتِ بہشت کی قدر و قیمت کئی گناہ کردے گی۔
مندرجہ بالاآیت میں اگر چہ صرف ماں باپ ، اولاد اور ازواج کا ذکر ہے لیکن درحقیقت وہاں تمام وابستگان اکھٹے ہوں گے کیونکہ اولاد اور ماں باپ ( یا باپ داد) کی موجودگی بہن بھائیوںکے بغیر بلکہ دیگر وابستگان کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ تھوڑا سا غور وخوض کیا جائے تو یہ مطلب واضح ہوجاتا ہے کیونکہ نیک باپ جنتی ہے لہٰذا ا سکے تمام بیٹے اس سے آملیں گے ۔ اس طرح بھائی آپس میں مل جائیں گے اور اسی طرح دیگر وابستگان اور عزیز و اقارب اکھٹے ہوجائیں گے ( کیجئے گا) ۔
قرآن کی مختلف آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت اہل جنت اہل بہشت کے لئے ابدی اور جاودانی گھر ہے لیکن جیسا کہ ہم نے سورہ توبہ کی آیہ ۷۲ کے ذیل میں کہا جاتا ہے ، قرآن کی چند ایک آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات ِ عدن میں ایک مخصوص مقام ہے جو جنت کے دیگر باغات سے امتیاز رکھتا ہے اور اس میں صرف تین طرح کے لوگ رہیں گے انبیاء مر سلین صدقین ( یعنی انبیاء کے خاص دوست احباب ) اور شہدا۔7
7۔ مزید وضاحت کے لئے جلد ۸ ( ار دو ترجمہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
۵۔ گناہ کے آثار دھلنا :اجمالی طور پر ”حسنات“ اور ”سیئات“ ایک دوسرے پر متقابل اثررکھتے ہیں اور ا سمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ حتی کہ ہم اس چیز کے نمونے اپنی روز مرہ زندگی میں بھی مشاہدہ کرتے ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان سالہا سال زحمت اٹھاتا ہے اور بہت زیادہ محنت و مشقت کرکے سرمایہ جمع کرتا ہے لیکن ناسمجھی، ہو و ہوس کی پیروی یا بے پر واہی سے اسے گنوابیٹھتا ہے یہ بالکل مادی حسنات کو گنوابیٹھنے کے اور کچھ نہیں ہے جسے قرآن میں” حبط“ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ا س کے بر عکس کبھی انسان بہت سی غلطیوں کا مرتکب ہوتا ہے اور ان کے باعث سنگین خسارے کے بوجھ تلے دب جاتا ہے لیکن ایک عقلمندانہ عمل سے یا عاشقانہ جہاد کے ذریعے ان سب نقصانات کی تلافی کردیتا ہے ۔ مثلاًہمارے زمانے کے اسی اسلامی انقلاب میں ہم نے بہت سے افراد دیکھے ہیں کہ وہ سابق ظالم و جابر نظام میں بہت سے گناہوں کے مرتکب ہوئے تھے اور اسی وجہ سے وہ جیل میں تھے لیکن جب ملک کے دشمنوں کے خلاف جہاد شروع ہوا تو اس وقت ان کی فوجی مہارت کی بناء پر انہیں میدانِ جنگ میں آنے کی دعوت دی گئی ۔ انہوں نے بی بے نظیر شجاعت و فداکاری سے پیکر دشمن پر مہلک ضربیں لگائیں ۔
اس دوران ان میں سے بعض شہید ہو گئے اور بعض زندہ ہیں ۔ دونوں صورتوں میں انہون نے اپنی گزشتہ غلطیوں کی تلافی کرلی ۔
زیر بحث آیات کہ جن میں فرمایا گیا ہے :
وید رء ون بالحسنة السیئة
اہل ایمان عقلاء اور ارباب ِ فکر و نظر اپنی برائیوں کو نیکیوں کے ذریعے دور کرتے ہیں ۔
یہ اسی مطلب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ غیر معصوم انسان کبھی نہ کبھی غلطیوں اور لغزشوں میں گرفتار ہو جاتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس کے بعد وہ ان کی تلافی کی فکر میں رہے نہ صرف گناہ کے اجتماعی آثار جو اپنے اعمال ِ خیر کے ساتھ دھوڈالے بلکہ وہ ظلمت ِ گناہ جو انسان کے قلب و روح پر جاپڑتی ہے اسے بھی ”حسنات“ کے ذریعے دور کرے اور اسے فطری نورانیت اور شفافیت کی طرف پلٹا ئے ۔ قرآن کی زبان میں ا س کام کو ”تکفیر “ ( ڈھانپنا ) اور پاک کرنا کہتے ہیں ( اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد دوم ص۶۶ ( اردو ترجمہ) کی طرف رجوع کریں ) ۔
البتہ جیسا کہ ہم مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں کہہ چکے ہیں ہوسکتا ہے ” وید رء ون بالحسنة“ ایک او راہم اخلاقی فضیلت کی طرف اشارہ ہو او روہ یہ کہ ” اولوالالباب “ دوسروں کی برائی کا برائی سے جواب نہیں دیتے اور انتقام لینے کی بجائے نیکی اور اچھائی کرتے ہیں تاکہ دوسرا خود شرمندہ ہو جائے ، پاکیزگی کی طرف پلٹ آئے اور اپنی اصلاح کرلے ۔

 

۲۵۔ وَالَّذِینَ یَنقُضُونَ عَھْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِہِ اٴَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْاٴَرْضِ اٴُوْلَئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَةُ وَلھُمْ سُوءُ الدَّارِ ۔
۲۶۔ اللهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ وَیَقْدِرُ وَفَرِحُوا بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ مَتَاعٌ ۔

ترجمہ

۲۵۔ اور وہ کہ جو عہد الہٰی کو مستحکم ہونے کے بعد توڑدیتے ہیں اور ان رشتوں کو قطع کردیتے ہیں جنہیں قائم رکھنے کا حکم خدا نے دیا ہے اور روئے میں میں دفساد کرتے ہیں ان کے لئے لعنت اور آخرت کے گھر کی بدی ( اور سزا )ہے۔
۲۶۔ خدا جسے چاہتا ہے ( اور اہل سمجھتا ہے ) وسیع رزق دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے ( مستحق سمجھتا ہے ) تنگ کردیتا ہے لیکن وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے ہیں جب کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا وی زندگی متاع ِ ناچیز ہے ۔

 


1۔ جنات ِ عدن کیا ہے ؟ جنات“ کامعنی ہے ”باغات “ اور ”عدن“کامعنی ہے ” طولانی توقفِ“ اور یہاں ابدیت اور ہمیشگی کے معنی میں ہے اور یہ جو ” معدن“( کان ) کو ” معدن “ کہتے ہیں وہ بھی اس جگہ کسی مواد کے طولانی توقف کی بناء پر ہے ۔
2۔ منھاج البراعةفی شرح نہج البلاغہ جلد ۳ ص ۹۹۵۔
3۔خصال صدوق ابواب ثمانیہ۔
دنیا پرست تباہ کار اہل شعور کا طرز عمل جنت کے آٹھ دروازے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma