جنہوں نے دعوت ِ حق کو قبول کر لیا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
ایک نکتہ قرآنی مثالیں

گشتہ آیت میں حق و باطل کا چہرہ نمایاں کرنے کے لئے ایک رسا اور فصیح و بلیغ مثال پیش کی گئی تھی ۔ اس کے بعد اب اس مقام پر ان لوگوں کے انجام کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے جنہوں نے دعوتِ حق کو قبول کرلیا اور اس کے گر ویدہو گئے نیز ان افراد کا انجام بیان کیا گیا ہے جنہوں نے حق سے ر وگردانی کرتے ہوئے باطل کی طرف رخ کیا۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : ان لوگوں کے لئے ، جنہوں نے اپنے پر ور دگار کی دعوت کو قبول کرلیا ہے نیک جزا، سود مند نتیجہ اور عاقبت ِ محمود ہے (للَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّھِمْ الْحُسْنَی ) ۔
”حسنیٰ “ ( نیکی ) کا ایک وسیع مفہوم ہے جس میں ہر خیر و سعادت شامل ہے ۔ نیک خصائل اور اخلاقی فضائل سے لے کر پا ک و پاکیزہ اجتماعی زندگی، دشمن کا پر کامیابی اور بہشتِ جا وداں تک سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے :او روہ یہ جنہوں نے پر وردگار کی یہ دعوت قبول نہیں کی ان کا انجام اس قدر برا اور رقت بار ہے کہ اگر تمام روئے زمین اور حتی کہ اس کی مثل بھی ان کی ملکیت میں ہو اور وہ یہ سب کچھ اسے برے انجام سے نجات کے لئے دینے ہر آمادہ ہو ں توبھی ”ان سے یہ سب کچھ قبول نہیں کیا جائے گا (وَالَّذِینَ لَمْ یَسْتَجِیبُوا لَہُ لَوْ اٴَنَّ لَھُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لَافْتَدَوْا بِہِ) ۔
ان کے لئے عذاب اور سزا کے عظیم ہونے کی تصویر کشی کے لئے اس سے بڑھ کر رسا اور عمدہ تعبیر نہیں ہوسکتی کہ ایک انسان تمام روئے زمین بلکہ اس کے دوگناکامالک ہو اور وہ سب کچھ اپنے آپ کو بچانے کے لئے دے دے مگر وہ اس کے لئے فائد ہ مند نہ ہو ۔
یہ جملہ در حقیقت اس طرف اشارہ ہے کہ ایک انسان کی آخری آرزو کہ جس سے بر تر تصور نہیں ہوسکتا یہ ہے کہ وہ تمام روئے زمین کا مالک ہو لیکن ستمگروں اور دعوت ِ حق کے مخالفوں کو دئے جانے والے عذاب کی شدت اس حد تک ہے کہ وہ اس بات پر تیار ہوں کہ یہ آخری دنیاوی ہدف بلکہ اس سے بھی بر تر و بالاتر کو فدیہ کے طور پر دے کر آزادہوجائیں اور بالفرض اگر ان سے یہ قبول کر بھی لیا جاتا تو یہ صرف عذاب سے نجات ہوتی ۔ لیکن دعوتِ حق کو قبول کرنے والوں کے لئے جو انتہائی عظیم اجر ہیں ان کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے واضح ہو جا تا ہے کہ ” مثلہ معہ “ صرف اسی معنی میں نہیں کہ پورے کرہٴ زمین کی مانند ان کے پاس مزید ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اس سے بڑھ کر جنتی زیادہ دولت ِ و سلطنت کے مالک ہو جائیں اور وہ اپنی نجات کے لئے سب کچھ دینے پر تیار ہو ں گے ۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے ۔ انسان چونکہ ہر چیز اپنے لئے چاہتا ہے او رجب وہ خود عذاب میں غرق ہو تو پھر تما م دنیا کی مالکیت کا اسے کیا فائدہ ۔
اس بدبختی (ساری دنیا دے کر بھی نجات حاصل نہ ہونا)کے بعد ایک او ربد بختی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان کا حساب کتاب سخت اور برا ہو گا ( اٴُوْلَئِکَ لَھُمْ سُوءُ الْحِسَابِ ) ۔
”سوء الحساب “ سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں مفسرین کے مختلف نظر یات ہیں ۔
بعض کا نظر یہ ہے اس سے مراد ایسا حساب ہے جو بہت دقیق اور باریک بین ہو اور جس میں کوئی در گزر نہ ہو کیونکہ ” سوء الحساب“ ظلم و ستم کے معنی میں خدا ئے عادل کے بارے میں کوئی مفہوم نہیں رکھتا ۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہے ۔ اس حدیث میں ہے کہ امام  نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا :
فلاں شخص کو تجھ سے کیوں شکایت ہے ۔
اسے یہ شکایت ہے کہ میں نے اپنا حق اس سے آخر تک لیا ہے ۔
جب امام نے یہ بات سنی تو غضب ناک ہو کر بیٹھ گئے، پھر فرمایا :
کانک اذا استقضیت حقک لم تسبیٴ ارایت ماحکی اللہ عزوجل: و یخا فون السوء الحساب، تراھم یخافون اللہ ان یجور علیھم لاو اللہ ماخافوا الا الاستقصاء فسماہ اللہ عزو جل سوء الحساب فمن استقصی فقد اسائہ۔
گویا تیرا گمان ہے کہ اگر تو آخری مرحلہ تک اپنا حق لے لے تو تُو نے کوئی بر انہیں کیا۔ ایسا نہیں ہے ۔ کیا تونے خدا کا یہ ارشاد نہیں دیکھا کہ جس میں اس نے فرمایا ہے :
و یخاف فون سوء الحساب
( او ربد کار برے حساب سے ڈرتے ہیں ) ۔
کیا تیرا خیال ہے کہ وہ اس سے ڈرتے ہیں کہ خدا ان پر ظلم کرے گا ؟ بخدا ایسا نہیں وہ تو اس سے ڈرتے ہیں کہ خدا ان کا حساب دقیق طور پر لے اور آخری مرحلے تک پہنچائے۔ خدا نے اس کا نام ” سوء الحساب “ رکھا ہے لہٰذا جس شخص نے حساب کرنے میں سخت گیری کی اس نے برا حساب کیا ہے ۔ ۱
بعض دوسرے مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ” سوء الحساب “ سے مراد یہ ہے کہ ان کا محاسبہ سر زنش کے ساتھ ہو گا ۔ اس سے ایک تو اصل حساب کی وحشت ہو گی اور ا س کے علاوہ بھی وہ سر زنش کی تکلیف سے گزریں گے ۔
بعض دیگر مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ”سوء الحساب“ سے مراد ” سوء الجزاء“ ( برا بدلہ ) ہے یعنی ان کے لئے بری سزا ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ہم کہیں کہ فلاں شخص کا حساب پاک ہے یا فلاں شخص کا حساب تاریک ہے یعنی ان کے حساب کا نتیجہ اچھا یا برا ہے یا یہ کہ ہم کہیں کہ فلاں شخص کا حساب اس کے ہاتھ میں دے دو یعنی اس کے کام کے مطابق اسے سزا یا بدلہ دو۔
یہ تینوں تفاسیر ایک دوسرے کے منافی نہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ سب کی سب آیت کی مراد ہوں یعنی ایسے سخت حساب سے گزرنا ہو گا اور محاسبہ کے ساتھ ساتھ انہیں سر زنش بھی ہو گی اور حساب کے بعد انہیں بے کم وکاست سزا بھی دی جائے گی ۔
آیت کے آخر میں ان کے لئے تیسرے عذاب یا سزا کے آخری نتیجے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا ہے : ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ کیسا بر اٹھکانا ہے (وَمَاٴْوَاھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِھَادُ) ۔
”مھاد“اصل میں” مھد “کے مادہ سے تیار اور مہیا کرنے کے معنی میں ہے نیز یہ لفظ بستر کے معنی میں بھی آیاہے کہ جس سے انسان آرام اور استراحت کے موقع پر استفادہ کرتا ہے کیونکہ وہ اسے استراحت کرنے کے لئے آمادہ کرتا ہے ۔
یہ لفظ اس طرف اشارہ ہے کہ ایسے سر کش افراد بجائے بسترِ استراحت پر آرام کرنے کے آگ کے جلادینے والے شعلوں پر رہیں گے۔

 


۱۔ تفسیر بر ہان جلد ۲ ص ۲۸۸( یہ حدیث اگر چہ اس سورہ کی آیہ ۲۱ کی تفسیر کے متن میں آئی ہے لیکن واضح ہے کہ یہ لفظ” سوء الحساب“ کا عمومی مفہوم بیان کررہی ہے ) ۔
 

 

ایک نکتہ قرآنی مثالیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma