ظالموں پر بھروسہ نہ کرو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
نماز اور صبراستقامت کا دامن تھامے رکھو

یہ آیت ایک نہایت بنیادی، اجتماعی، سیاسی، فوجی اور نظریاتی لائحہ عمل بیان کررہی ہے، تمام مسلمانوں کو مخاطب کرکے ان کی ایک قطعی اور حتمی ذمہ داری کے طور پر ان سے کہا گیا ہے: ان لوگوں پر بھروسہ نہ کرو کہ جنھوں نے ظلم وستم کیا ہے، نہ اُن پر اعتماد کرو، نہ ان کا سہارا لو اور نہ پر تمھارا تکیہ ہو (وَلَاتَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا) ۔ کیونکہ اس کام کے سبب آتشِ جہنم کا عذاب تمھیں دامنگیر ہوجائے (فَتَمَسَّکُمْ النَّارُ) ۔ اور خدا کے علاوہ تمھارا کوئی ولی، سرپرست اور یاور نہ ہوگا (وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ) ۔ اور واضح رہے کہ اس حالت میں کوئی تمھاری مدد نہیں کرے گا (ثُمَّ لَاتُنصَرُونَ) ۔
چند قابلِ توجہ نکات
۱۔ ”رکون“ کا مفہوم:
”رکون“ مادہٴ ”رُکن“ سے ستون اور ان دیواروں کے معنی میں ہے جو کسی عمارت یا دوسری چیزوں کو کھڑا کئے رکھتی ہیں، بعد ازاں یہ لفظ کسی پر اعتماد اور تکیہ کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔
مفسرین نے سا آیت کے ذیل میں اس لفظ کے لئے بہت سے معانی ذکر کئے ہیں لیکن وہ سب یا ان میں سے زیادہ تر ایک جامع اور کلی مفہوم کی طرف لوٹتے ہیں مثلاً بعض نے اس کا معنی ”تمایل“ کیا ہے، بعض نے ہمکاری“، بعض نے ”اظہارِ رضایت“ یا ”دوستی“، بعض نے ’خیرخواہی“ اور بعض نے اس کا معنی ”اطاعت“کیا ہے کہ جو سب کے سب تکیہ، اعتماد اور وابستگی کے جامع مفہوم میں جمع ہیں ۔
۲۔ کِن امور میں ظالموں سے وابستگی نہیں کرنی چاہیے:
واضح رہے کہ سب سے پہلے تو ان ظلم وستم میں شرکت نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ایسے کام میں ان سے مدد لینا چاہیے ۔ اس کے بعد ان چیزوں میں ان سے تعلق نہیں رکھنا چاہیے جو اسلامی معاشرے کے ضعف وتوانائی کا باعث ہو، استقلال اور خود کفالت کھودینے کا سبب ہو اور ایک عضوِ ناتواں اور وابستہ میں تبدیل کردینے کا ذریعہ ہو، ایسے امور میں ان پر اعتماد اور بھروسہ نہیں کرنا کرنا چاہیے کیونکہ ایسے سہاروں کا نتیجہ اسلامی معاشروں کے لئے شکست، ناکامی اور کمزوری کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا ۔
باقی رہا مثال کے طور پر مسلمانوں کا غیر مسلمان معاشروں سے تجارتی یا علمی روابط ایس بنیاد پر رکھنا کہ اسلامی معاشروں کے مفادات، استقلال اور ثبات محفوظ رہیں تو ایسے روابط ظالمین سے ”رکون“ اور وابستگی کے مفہوم میں داخل نہیں اور نہ ہی اسلام کی نظر میں ایسی کوئی چیز ممنوع ہے، خود پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اور بعد کے ادوار میں ہمیشہ ایسے روابط موجود رہے ہیں ۔
۳۔ ظالموں سے وابستگی کی حرمت کا فلسفہ:
ظالموں پر تکیہ کرنا ان کی تقویت کا باعث ہے اور ان کے تقویت معاشروں میں ظلم، فساد اور تباہی پھیلانے کا باعث ہے ۔
احکامِ اسلامی میں ہے کہ جب تک انسان مجبور نہ ہو (بلکہ جب تک اوقات مجبور بھی ہو تب بھی) ظالم کے مقرر کردہ قاضی کے ذریعے اپنا حق حاصل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسے جج اور ایسی حکومت کی طرف احقاقِ حق کے رجوع کرنے کا مفہوم ضمنی طور پر اس حکومت کو تسلیم کرنا اور اس سے تقویت پہنچانا ہے اور اس کا کام ضرر بعض اوقات اپنا حق کھودینے سے زیادہ ہوتا ہے ۔
ظالموں پر بھروسہ تدریجاً معاشرے کی ثقافت وتمدن کے فکری پہلووٴں پر اثرانداز ہوتا ہے، رفتہ رفتہ ظلم اور گناہ کی برائی اور قباحت کا تصور ختم کردیتا ہے اور لوگوں کو ظلم کرنے اور ظالم بننے کی ترغیب دیتا ہے ۔
اصولی طور پر دوسروں پر تکیہ کرنا کہ جو وابستگی کی صورت میں ہو اس کا نتیجہ سوائے بدبختی کے کچھ نہیں چہ جائیکہ ظالم اور ستمگر پر ایسا بھروسہ کیا جائے ۔
ایک آگے بڑھنے والا، سربلند اور قوی معاشرہ وہ ہے جو اپنے پاوٴں پر کھڑا ہو جیسا کہ سورہٴ فتح کی آیہ۲۹ میں قرآن ایک خوبصورمثال میں فرماتا ہے: <فَاسْتَویٰ عَلیٰ سُوْتِہِ۔
سرسبز پوردے کی طرح کہ جو اپنے پاوٴں پر کھڑا ہو اور زندہ وسرفراز رہنے کے لئے کسی دوسری چیز سے وابستگی رکھتا ہو۔
ایک بااستقلال اور آزاد معارہ وہ ہے جو ہر لحاظ سے خود کفیل اور خود کفایت ہو اور دوسروں سے اس کا ارتباط برابر کے منافع کی بنیاد پر ہو، نہ کہ ایک ضعیف کے طاقتور پر بھروسہ سے اور انحصار کی بنیاد پر، یہ وابستگی چاہےفکری اور ثقافتی ہو یا فوجی، اقتصادی اور سیاسی ہو، ورنہ اس ما نتیجہ غلامی اور استعمار کے اور کچھ اور برآمد نہیں ہوگا اور اگر یہ وابستگی ظالموں کے ساتھ ہو تو اس کانتیجہ ان کے ظلم سے وابستگی اور ان کے پروگراموں میں شرکت ہوگا ۔
البتہ مندرجہ بالا آیت کا حکم معاشرے کے روابط کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دو افراد کے ایک دوسرے ے رابطے کے بارے میں بھی ہے یہاں تک کہ ایک آزاد با ایمان شخص کو کبھی بھی ایک ظالم وستمگر کا سہارا نہیں لینا چاہیے ورنہ وہ اپنا استقلال گنوا بیٹھے گا، اس کے دائرہ ظلم وستم کی طرف کھینچ جائے گا اور فساد وبے دادگری کی تقویت ووسعت کا باعث بھی ہوگا ۔
۴۔”الذین ظلموا“ سے مراد کون لوگ ہیں؟
اس سلسلے میں مفسرین نے بہت سے احتمالات ذکر کئے ہیں، بعض نے ان سے مشرکین مراد لئے ہیں لیکن جیسا کہ بعض دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ انھیں مشرکین میں منحصر سمجھنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اگر نزولِ آیت کے وقت ظالمین کا مصداق مشرک تھے تب بھی منحصر کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، جیساکہ روایات میں اس لفظ کی جو مشرکین کے ساتھ تفسیر کی گئی ہے وہ بھی انحصار کی دلیل نہیں بنتی، کیونکہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ایسی روایات واضح اور آشکار مصداق بیان کرتی ہیں ۔
اس بناء پر وہ تمام اشخاص جنھوں نے بندگانِ خدا پر ظلم اور فساد کے لئے ہاتھ دراز کئے ہیں، انھیں اپنا غلام بنایا ہے اور ان کی قوت واستعداد سے اپنے لئے فائدہ اٹھایا ہے ”الذین ظلموا“کے عام مفہوم میں داخل ہیں اور آیت کے مصادیق میں سے ہیں لیکن مسلّم ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں کسی چھوٹے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں اور کبھی اس عنوان کے مصداق تھے اس کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں ورنہ اس صورت میں تو بہت کم افراد ہی اس سے مستثنیٰ ہوئے ہوں گے اور پھر کسی شخص پر اعتماد اور بھروسہ کرنا جائز نہیں رہے گا ہاں البتہ اگر ”رکون“ کا معنی ظلم وستم کے پہلو پر اعتماد اور بھروسہ کیا جائے تو پھر وہ اشخاص بھی اس کے مفہوم میں شامل ہوں گے جنھوں نے ایک ہی مرتبہ ظلم میں ہاتھ آلودہ کئے ہیں ۔
۵۔ ایک اشکال اور اس کی وضاحت:
بعض اہل سنّت مفسّرین نے یہاں ایک اشکال پیش کیا ہے جس کا جواب اُن کے مبانی رُو سے ہرگز آسان نہیں ہے اور وہ یہ کہ ایک طرف ان کی روایات میں آیا ہے کہ ضروری ہے سلطانِ وقت کو ”اولوالامر“ سمجھتے ہوئے اس کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے چاہے وہ کوئی بھی ہو مثلاً انھوں نے پیغمبر اکرم سے ایک حدیث میں یوں بیان کیا ہے:
تم پر لازم ہے کہ سلطان اور بادشاہ کی اطاعت کرو۔
”وان اٴخذ مالک وضرب ظھرک“
(اگرچہ وہ تمھارا مال لے لے اور تمھاری پشت پر تازیانے لگائے) ۔
اسی طرح اور روایات بھی ہیں کہ جو وسیع معنی کے لحاظ سے اطاعتِ سلطان کی تاکید کرتی ہیں، جبکہ دوسری طرف مندرجہ بالا آیت کہتی ہے کہ ظالم افراد پر تکیہ واعتماد نہ کرو۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دونوں احکام کو ختم کریں اور یہ کہ بادشاہ کی اطاعت اس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ عصیان ونافرمانی کی راہ پر نہ چلے اور کفر کے راستے پر قدم نہ رکھے ۔
لیکن ان روایات کا لب ولہجہ اطاعتِ سلطان کے لئے ہرگز اس استثناء سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔
بہرصورت ہماری فکر یہ ہے کہ جس طرح مکتبِ اہلِ بیت(علیه السلام) میں آیا ہے کہ صرف اس حاکم اور متولی امورِ مسلمین کی اطاعت ضروری ہے جو عالم وعادل ہو اور جو عام مفہوم کے اعتبار سے پیغمبر اکرم اور امام معصوم(علیه السلام) کا جانشین شمار ہوسکے، نیز اگر بنی امیہ اور بنی عباس کے بادشاہوں نے اپنے مفاد کے لئے اس سلسلے میں کچھ حدیثیں گھڑ لی ہیں تو وہ کسی طرح بھی ہمارے مکتب کے اصول اور ان تعلیمات کے ہم آہنگ نہیں ہیں جو قرآن سے لی گئی ہیں، ایسی روایات اگر قابل تخصیص ہیں تو انھیں تخصیص دی جائے ورنہ انھیں بالکل چھوڑدیا جائے کیونکہ جو روایت کتاب الله کے خلاف ہو وہ مردود ہے، قرآن کی صراحت ہے کہ مومنین کا امام اور پیشوا ظالم نہیں ہوسکتا اور زیرِ بحث آیت بھی صراحت کے ساتھ کہتی ہے کہ ظالموں کا سہارا نہ لو اور ان پر اعتماد نہ کرو، یا پھر ایسی روایات کو ضرورت اور مجبوری کی حالت کے ساتھ مخصوص قرار دیا جائے ۔

۱۱۴ وَاٴَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّھَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذٰلِکَ ذِکْریٰ لِلذَّاکِرِینَ
۱۱۵ وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لَایُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ

ترجمہ

۱۱۴۔ نماز کو دن کے دو اطراف اور ابتدائے رات میں بپا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں (اور ان کے آثار) کو برطرف کردیتی ہیں، یہ تذکرہ ہے ان لوگوں کے لئے جو اہلِ ذکر ہیں ۔
۱۱۵۔ اور صبر کرو کہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔

 

نماز اور صبراستقامت کا دامن تھامے رکھو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma