مدین کے تباہ کاروں کا انجام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
فرعون کے ساتھ زبردست مقابلہایک دوسرے کو دھمکیاں

گزشتہ اقوام کی سرگزشت کے بارے میں قرآن مجید میں ہم نے بارہا پڑھا ہے کہ پہلے مرحلے میں انبیاء انھیں خدا کی طرف دعوت دینے کے لئے قیام کرتے تھے اور ہر طرح سے تعلیم و تربیت اور پندونصیحت میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے تھے، دوسرے مرحلے میں جب ایک گروہ پر پند ونصائح کا کوئی اثر نہ ہوتا تو انھیں عذابِ الٰہی سے ڈراتے تاکہ وہ آخری افراد تسلیمِ حق ہوجائیں جو قبولیت کی اہلیت رکھتے ہیں اور وہ راہِ خدا کی طرف پلٹ آئیں نیز اتمام حجت ہوجائے ۔
تیسرے مرحلے میں جب ان میں سے کوئی چیز موثر نہ ہوتی تو روئے زمین کی ستھرائی اور پاکبازی کے لئے سنتِ الٰہی کے مطابق عذاب آجاتا اور راستے کے ان کانٹوں کو دُور کردیتا ۔
قومِ شعیب یعنی اہل مدین کا بھی آخرکار مرحلہ انجام آپہنچا، چنانچہ قرآن کہتا ہے:جب (اس گمراہ، ظالم اور ہٹ دھرم قوم کو عذاب دئےے جانے کے بارے میں )ہمارا فرمان آپہنچا تو ہم نے شعیب کو اور اس پر ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت کی برکت سے نجات دی (وَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا ) ، پھر آسمان پکار اور مرگ آفریں عظیم صیحہ نے ظالموں اور ستمگروں کو اپنی گرفت میں لے لیا (وَاٴَخَذَتْ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَة) ۔
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ”صیحہ“ ہر قسم کی عظیم آوازاور پکار کے معنی میں ہے، قرآن نے بعض قوموں کی نابودی صیحہ آسمانی کے ذریعے بتائی ہے، یہ صیحہ احتمالاً صاعقہ کے ذریعے اور اس کی مانند ہوتی ہے اور جیسا کہ ہم نے قومِ ثمود کی داستان میں بیان کیا ہے کہ صوتی امواج بعض اوقات اس قدر قوی ہوسکتی ہیں کہ ایک گروہ کی موت کا سبب بن جائے ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے:اس آسمانی صیحہ کے اثر سے قومِ شعیب کے لوگ اپنے گھروں میں منہ کے بل جاگرے اور مرگئے اور ان کے بے جان جسم درسِ عبرت بنے ہوئے ایک مدت تک وہیں پڑے رہے ( فَاٴَصْبَحُوا فِی دِیَارِھِمْ جَاثِمِین)، ان کی زندگی کی کتاب اس طرح بند کردی گئی کہ ” گویا کبھی وہ اس سر زمین کے ساکن ہی نہ تھے“(کَاٴَنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیھَا) ۔
وہ تمام دولت وثروت کہ جس کی خاطر انھوں نے گناہ اور ظلم وستم کئے نابود ہوگئی، ان کی زمینیں اور زرق وبرق زندگی ختم ہوگئی اور ان کا شور وغوغا خاموش ہوگیا اور آخرکار جیسا کہ قومِ عاد وثمود کی داستان کے آخر میں بیان ہوا ہے، فرمایا گیا: دور ہوسرزمینِ مدین لطف ورحمتِ پروردگار سے جیسے کہ قوم ِ ثمود دور ہوئی (اٴَلَابُعْدًا لِمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ) ۔
واضح ہے کہ یہاں”مدین“ سے مراد اہلِ مدین ہیں جو رحمتِ خدا سے دور ہوئے ۔
شعیب (علیه السلام) کی داستان میں تربیتی درس
انبیاء کے حالات اور گزشتہ اقوام کی داستانیں ہمیشہ بعد کی اقوام کے لئے الہام بخش اور سبق آموز ہوتی ہیں کیونکہ ان کی زندگی کی آزمائشیں کہ جو بعض اوقات دسیوں سال یا سینکڑوں سال تک جاری رہیں تاریخ کے چند صفحات میں سمٹ کر سب کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں اور ہر کوئی اپنی زندگی میں ان سے سبق حاصل کرسکتا ہے ۔اس عظیم پیغمبر۔ حضرت شعیب (علیه السلام) کی زندگی بھی ہمیں بہت سے درس دیتی ہے، مثلاً:
۱۔ اقتصادی مسائل کی اہمیت
اس سرگزشت میں ہم نے پڑھا ہے کہ حضرت شعیب (علیه السلام) نے انھیں دعوتِ توحید کے بعد مالی امور تجارت میں حق وعدالت کی دعوت دی، یہ چیز نشاندہی کرتی ہے کہ ایک معاشرے کے اقتصادی مسائل کو معمولی اور غیر اہم شمار نہیں کیا جاسکتا، یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ انبیاء صرف اخلاقی مسائل کے لئے مامور نہ تھے بلکہ اجتماعی واقتصادی کیفیت کی خرابی کی اصلاح بھی ان کی دعوت کا ایک اہم حصہ تھی، اس حد تک اہم کہ وہ اسے دعوتِ توحید کے ساتھ قرار دیتے تھے ۔
۲۔ نماز۔توحید اور پاکیزگی کی طرف دعوت دیتی ہے
حضرت شعیب (علیه السلام) کی گمراہ قوم نے بڑے تعجب سے ان سے پوچھا کہ کیا تیری یہ نماز بتوں کی پرستش نہ کرنے اور کم فروشی اور دھوکہ بازی نہ کرنے کی دعوت دیتی ہے، شاید ان کا خیال تھا کہ ان حرکات اور اذکار کا ان امور میں کیا دخل ہے حالانکہ ہم جانتے ہیںکہ ان دونوں کے درمیان قوی ترین رابطہ ہے ، اگر نماز اپنے حقیقی مفہوم کے ساتھ ادا ہو یعنی انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں کھڑا ہو تو یہ حضور تکامل وارتقاء کا زینہ، تربیتِ روح کا وسیلہ اور دل سے گناہ کا رنگ صاف کرنے کا ذریعہ ہے، یہ حضور انسان کے ارادہ کو قوی اور اس کے عزم کو راسخ کرتا ہے اور غرور وتکبر کو اس سے دور کرتا ہے ۔
۳۔ خود بینی جمود کا باعث ہے
جیسا کہ مندرجہ بالا آیات سے ہمیں معلوم ہوا ہے قومِ شعیب کے افراد خود خواہ اور خود بین تھے، اور اپنے آپ کو فہمیدہ اور سمجھدار خیال کرتے تھے، حضرت شعیب (علیه السلام) کو نادان سمجھتے تھے ان کا مذاق اڑاتے تھے، ان کی باتوں کو بے معنی اور ان کی شخصیت کو کمزور جانتے تھے، اس خود پرستی اور خود بینی نے ان کی زندگی کو تاریک کردیا تھا اور انھیں خاک سیاہ پر لابٹھایا تھا ۔
نہ فقط انسان بلکہ اگر جانور بھی خود بین ہو تو وہ راستے میں الٹک کر رہ جاتا ہے، کہتے ہیں گھوڑا سوار ایک شخص ایک نہر کے پاس پہنچا لیکن اس نے حیرت سے دیکھا کہ گھوڑا ایک چھوٹی سی اور کم گہری نہر میں گزرنے کے لئے تیار نہیں ہے ، اس نے بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا، ایک دانا شخص کا وہاں سے گزر ہوا، اس نے کہا: نہر کے پانی کو ہلاؤ تاکہ وہ مٹی سے آلودہ ہوجائے، مشکل حل ہوجائے گی، اس نے یہ کام کیا، گھوڑے نے آرام سے اسے عبور کرلیا، اس پر لوگ بہت حیران ہوئے، انھوں نے اس دانا شخص سے اس کی وجہ دریافت کی ۔
اس مردِ حکیم نے کہا: جب پانی صاف تھا تو گھوڑے نے اپنا عکس پانی میں دیکھا، اس نے سمجھا کہ یہ وہ خود ہے، وہ تیار نہ ہوا کہ اپنا ہی پاؤں اپنے آپ پر رکھے لیکن جب پانی مٹی سے آلودہ ہوگیا تو اس کا عکس غائب ہوگیا اور وہ آسانی سے وہاں سے گزر گیا ۔
۴۔ اصولوں کو تعصب پر قربان نہیں کرنا چاہئےے
اس سرگزشت میں ہم نے پڑھا ہے کہ گمراہ قوم کی بدبختی کے عوامل میں سے ایک یہ تھا کہ وہ ذاتی کینہ پرستی اور عداوتوں کی وجہ سے حقائق کو بھلا دیتے تھے حالانکہ عقلمند اور حقیقت شناس وہ انسان ہے کہ ہر شخص سے حق بات سنے اور اسے قبول کرے چاہے کہنے والا اس کا اول درجے کا دشمن ہی کیوں نہ ہو ۔
۵۔ ایمان اور عمل ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں
ابھی بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جن کا خیال ہے کہ صرف عقیدہ رکھ کر ہی مسلمان ہوا جاسکتا ہے، اگرچہ وہ عمل نہ بھی کریں، بہت سے ایسے افراد ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ دین ان کی سرکش ہواوہوس کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے، اور انھیں ہر لحاظ سے آزاد رکھے ۔
داستان شعیب (علیه السلام) سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قوم بھی ایسے ہی دین کی خواہاں تھی، لہٰذا وہ حضرت شعیب (علیه السلام) سے کہتے تھے کہ ہم نہ اس کے لئے تیار ہیں اور نہ اپنے بڑوں کے بتوں کو فراموش کریں اور نہ ہم اپنے سرمائے اور اموال کے بارے میں اپنی آزادی ہاتھ سے دیں گے، وہ یہ بات بھولے ہوئے تھے کہ اصولی طور پر شجرِ ایمان کا ثمر عمل ہے اور انبیاء کا دین وآئین اس لئے تھا کہ انسان کی ذاتی خرابیوں عملی کمزوریوں اور انحرافات کی اصلاح کرے ورنہ جس درخت کی نہ کوئی شاخ ہو نہ پتے اورنہ پھل وہ جلانے کے ہی کام آئے گا ۔
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں ایک طبقے میں یہ فکر بڑی راسخ ہوچکی ہے، وہ اسلام کو بس خشک عقائد کا ایک ایسا مجموعہ سمجھتے ہیں کہ جو فقط مسجد کے اندر ان کے ساتھ ہے اورجو نہی وہ مسجد کے دروازے سے باہر نکلتے ہیں تو اسے خدا حافظ کہہ دیتے ہیں، ان کے دفتروں میں، بازاروں میں اور کاروبار میں اسلام کا کوئی عمل دخل اورنام ونشان نہیں ہے ۔
بہت سے اسلامی ممالک کو ہم نے دیکھا ہے یہاں وہ ممالک جو ظہور اسلام کا مرکز تھے وہاں یہ تلخ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام چند عقائد اور چند کم روح عبادات میں منحصر ہوگیا ہے، علم وآگاہی، عدالتِ اجتماعی، رشدِ ثقافتی، بینشِ فرہنگی اور اخلاقِ اسلامی میں سے کسی چیز کا نام ونشان اور خبر نہیں ہے، اگرچہ خوش بختی سے چند ایک اسلامی تحریکوں کی وجہ سے خصوصا نوجون طبقے میں سچے اسلام اور ایمان وعمل کی یکجائی کی ایک تحریک پیدا ہوتی ہے، لہٰذا اب یہ جملہ کہ اسلام کو ہمارے عمل سے کیا کام یا اسلام کا تعلق دل سے ہے نہ کہ زندگی سے، کم سنا جاسکتا ہے ۔
نیز یہ جو التقاطی لوگوں(کہ جو کسی ایک مکتب کے پیروکار نہیں ہوتے) کا نظریہ ہے کہ ہم عقیدہ اسلام سے اور اقتصادیات مارکس سے لیتے ہیں یہ بھی قومِ شعیب کے گمراہوں کی سی طرزِ تفکر رکھتے ہیں، یہ نظریہ بھی قابل مذمت ہے، لیکن بہرحال یہ تفرقہ بھی قدیم زمانے سے ہے اور آج بھی موجود ہے، ہمیں اس کے خلاف جہاد کرنا چاہیئے ۔
۶۔بلا شرط اور لامحدود ملکیت فساد کا سرچشمہ ہے
قومِ شعیب اس اشتباہ میں گرفتار تھی کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی شخص کے لئے اس کے اموال میں تصرف کے بارے میں تھوڑی سے بھی حد بندی کی بات کرے، یہاں تک کہ وہ حضرت شعیب (علیه السلام)سے تعجب کرتے اور کہتے تھے کہ تجھ سا دانا شخص کیونکر ہمارے اموال کے بارے میں ہماری آزادی عمل میں رکاوٹ ڈلتا ہے، انھوں نے یہ بات تمسخر کے طور پر کہی یا حقیقت کے طور پر نشاندہی کرتی ہے کہ وہ مالی تصرفات میں کسی حدبندی کو خلاف عقل سمجھتے تھے، حالانکہ یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی، اگر لوگ اپنے اموال میں تصرف کرنے کے بارے میں آزاد ہوں تو پورا معاشرہ بد بختی اور خرابی کی لپیٹ میں آجائے گا، مالی امور کو صحیح اور نپے تلے ضوابط کے تابع ہونا چاہیئے، جیسے انبیائے الٰہی لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے ورنہ معاشرہ تباہ وبرباد ہوکر رہ جائے گا ۔
۷۔ انبیاء کا ہدف فقط اصلاح تھا
یہ جو حضرت شعیب (علیه السلام) نے فرمایا:”ان ارید الاالاصلاح ما استعطعتم“ (مَیں تو فقط حتی المقدور اصلاح چاہتا ہوں) یہ فقط ان کا شعار نہ تھا بلکہ تمام انبیاء اور تمام حقیقی رہبروں کا شعار تھا، ان کا گفتار وکردار ان کے اس ہدف کا شاہد ہے، وہ نہ لوگوں کی مشغولیت کے لئے آئے تھے ، نہ ان کے گناہ بخشنے کے لئے، نہ انھیں جنت بھیجنے کے لئے، نہ طاقتوروں کی حمایت کے لئے اور نہ عوام کے ذہنوں کو ماؤف کرنے کے لئے بلکہ ان کا ہدف اور مقصد ایک مکمل اور حقیقی اصلاح تھا، اصلاح سے ان کی مراد وسیع تر اصلاح تھی، فکر ونظر کی اصلاح، اخلاق کی اصلاح، معاشرے کے ثقافتی نظام کی اصلاح، اقتصادی اصلاح اور سیاسی اصلاح ۔
خلاصہ یہ کہ معاشرے کے تمام پہلوؤں کی اصلاح ان کے مدِنظر تھی ۔
اور اس مقصد کے حصول کے لئے ان کا سہارا فقط خدا تھا، وہ کسی سازش اور دھمکی سے نہیں ڈرتے تھے جیسا کہ حضرت شعیب (علیه السلام) نے کہا:
وَمَا تَوْفِیقِی إِلاَّ بِاللهِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ اٴُنِیب۔

۹۶ وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مُوسیٰ بِآیَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِینٍ
۹۷ إِلَی فِرْعَوْنَ وَمَلَئِہِ فَاتَّبَعُوا اٴَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَا اٴَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیدٍ
۹۸ یَقْدُمُ قَوْمَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَاٴَوْرَدَھُمْ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ
۹۹ وَاٴُتْبِعُوا فِی ھٰذِہِ لَعْنَةً وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ

ترجمہ

۹۶۔ ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا ۔
۹۷۔ فرعون اور اس کے حواریوں کی طرف انھوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی جبکہ فرعون کا حکم رشد ونجات کا باعث نہیں تھا ۔
۹۸۔ وہ روز قیامت اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور وہ انھیں (جنت کے خوشگوار چشموں کی طرف لے جانے کی بجائے) آتشِ جہنم میں پہنچادے گا اور کتنا بُرا ہے کہ آگ انسان کے لئے پانی کا گھاٹ قرار پائے ۔
۹۹۔ وہ اس جہان میں اور روزِ قیامت رحمتِ خدا سے دُور ہوں گے اور انھیں کیا بُرا تحفہ دیا جائے گا ۔

 

 

فرعون کے ساتھ زبردست مقابلہایک دوسرے کو دھمکیاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma