تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
حق و باطل کی ایک پہچان قیامت میں بت پرستوں کا ایک منظر

ان آیات میں وجودہ پر وردگار کی نشانیوں اور اس کے لائق عبودیت ہونے کے بارے میں گفتگو ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ مباحث جاری ہیں ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : مشرکین اور بت پرست کہ جو راہ روہی میں سر گر داں ہیں ان سے کہہ دو : کون تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہے “(قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔
”رزق“ لگا تار اور دائمی عطا اور بخشش کے معنی میں ہے اور چونکہ تمام نعمتیں بخشنے والا در حقیقت خد اہے لہٰذا ” رزق“ اور رازق“ لئے الفاط حقیقی معنی کے لحاظ سے صرف اسی کے لئے بو لے جاتے ہیں اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کے لئے استعمال ہوں تو بلا شبہ مجاز کے حوالے سے ہوں سے ہوں گے جیسا کہ سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۳۳ میں دودھ پلانے والی عورتوں کے بارے میں ہے :۔
و علی مولودلہ رزقھن و کسوتھن بالمعروف ۔
باپ پر فرض ہے کہ جو عورتیں اس کی اولاد کو دودھ پلائیں انھیں مناسب رزق دے اور لباس پہنائے ۔
یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ انسا ن کی زیادہ تر روزی آسمان سے مربوط ہے ۔ حیات بخش بارش آسمان سے برستی ہے ۔ ہوا جو کہ تمام زندہ موجودات کی ضرورت ہے وہ بھی زمین کے اوپر ہے اور سب سے زیادہ اہم سورج کی روشنی ہے کہ جس کےبغیر زمین پر کوئی موجود زندہ نہیں رہ سکتا اور جس کے بغیر ساری زمین پر کوئی حرکت و جنبش نہیں ہو سکتی ، اس روشنی کا تعلق بھی آسمان سے ہے ۔ یہاں تک کہ جو جانور دریا وٴں کی گہرائی میں ہیں وہ بھی نور آفتاب ہی کی بدلت زندہ ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے بہت سوں کی غذا بہت ہی چھوٹ نباتات ہیں کہ جو سمندر کی سطح پر موجوں کے درمیان سورج کی روشنی پڑنے سے ہی نشو ونما حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن زمین صرف اپنے نباتات کو غذا دیتی ہے شاید اسی بنا پر مندرجہ با لاآیت میں پہلے آسمان سے روزی مہی اکیے جانے کا تذکرہ ہے او ربعد میں زمین سے ( درجہ اہمیت کے فرق کے ساتھ ) ۔
اس کے بعد حواس ِانسانی میں سے دو اہم ترین کا ذکر کیا گیا ہے جن کے بغیر انسان علم حاصل نہیں کرسکتا ۔ ارشاد ہوتا ہے : اور کہہ دو کہ کان اور آنکھوں کا خالق ، مالک اور انسان کے ان دو حواس کو قدرت دینے والاکون ہے (اٴَمَّنْ یَمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاٴَبْصَارَ) ۔
در حقیقت اس آیت میں پہلے تو مادی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے اور اس کے بعد معنوی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جن کے بغیر مادہ نعمتیں اپنا مقصد کھو دیتی ہیں ۔
لفظ ” سمع“ مفرد ( اور کان کے معنی میں ہے ) اور ” اۻسار“ ” بصر“ کی جمع ہے ، بینائی اور آنکھ کے معنی میں ہے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ” سمع “ قرآن میں تمام جگہوں پر مفرد آیا ہے جب کہ ” بصر“ کبھی جمع کی صورت میں آیا ہے کبھی مفرد، آخر اس کی کیا وجہ ہے اس سوال کا جواب جلد اولم ص ۱۰۱( اردو ترجمہ ) پر پیش کیا جاچکا ہے ۔
اس کے بع ددو ظاہر ہونے والی چیزیں یعنی موت و حیات کا ذکر ہے جو کہ عالم خلقت کی عجیب و غریب چیزیں ہیں ، ارشاد ہوتا ہے : اور کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکلاتا ہے او رمردہ کا زندہ سے نکالتا ہے ( وَمَنْ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنْ الْحَیِّ ) ۔
یہ وہی موضوع ہے کہ جس میں ابھی تک طبیعی علوم کے ماہرین اور حیات شناس لوگوں کی عقل حیران و پریشان ہے کہ ایک بے جان چیز سے ایک زندہ موجودہ کس طرح وجود میں آتا ہے ۔ کیا ایسی چیز جسکے بارے میں علماء اور سائنس دانوں کی مسلسل کوشش ابھی تک کسی مقام تک نہیں پہنچی ۔ ایک معمولی ، اتفاقیہ ، بغیر ہدایت کے رونما ہونے والی حادثاتی اور بلا مقصد طبیعی ہوسکتی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ظاہر ہونے والی پیچیدہ ، ظریف اور آثار آمیز زندگی حد سے زیادہ علم و قدرت اور عقل ِ کلی کی محتاج ہے ۔
اس نے نہ صرف ابتداء میں زندہ کو زمین کی بے جان موجودات سے پیدا کیا ہے بلکہ اس کی سنت یہ رہی ہے کہ زندگی بھی جاودانی نہ ہو ۔ اس بنا پر اس نے موت کو زندگی کے دل میں پیدا کیا ہے تاکہ اس طریقے سے تغیر و تکامل کے لئے مید ان کھلا رکھے ۔
مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ آیت مادی موت و حیات کے علاوہ معنوی موت و حیات کے بارے میں بھی ہے کیونک ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی گمراہ او ربے ایمان ماں باپ سے ایک ہوش مند، پا ک دامن اور اب ایمان انسان پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے بر عکس بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ قا نون ِ وراثت کے بر خلاف نہایت لائق او ربا وقار انسان سے بے وقعت او رمردہ انسان وجود میں آتے ہیں ۔ ۱
البتہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ زیر نظر آیت دونوں قسموں کی موت و حیات کی طرف اشارہ ہو کیونکہ دونوں ہی عجائب ِ آفرینش اور عالم کے تعجب انگیز مظاہرہ میں سے ہیں اور اس سے یہ حقیقت واضح ہو تی ہے کہ طبیعی عوامل و حکیم خالق کا دستِ قدرت کا ر فرما ہے ۔
اس کے بارے میں جلد پنجم ۔ص۲۸۹ ( اردو ترجمہ ) سورہ انعام کی اایہ ۹۵ کے ذیل میں ہم کچھ دیگر توضیحات بھی ذکر کر چکے ہیں ۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے : کون ہے جو ا س جہان کے امور کی تدبیر کرتا ہے (وَمَنْ یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ ) ۔
در حقیقت پہلے تو نعمات کی خلقت و آفرینش کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور اس کے بعد ان کے محافظ، نگہبان او رمدبر کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔
ان تین سوالات کو پیش کرنے کے بعد قرآن بلا فاصلہ کہتاہے : وہ فوراً ہی جواب میں کہیں گے ”اللہ “
اس جملے سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے مشرکین او ربت پرست بھی عالم ہستی کا خالق ، رازق، حیات بخش اور مدبر امور اللہ ہی کو جانتے ہیں اور وہ ا س حقیقت کو طریق عقل او رراہ فطرت سے جان چکے تھے کہ یہ نظام اور حساب شدہ جہان بے نظمی کی پید اوار یابتوں کی مخلوق نہیں ہوسکتا۔
آیت کے آخر میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ کیا اس حالت میں تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے ہو( فَقُلْ اٴَفَلاَتَتَّقُونَ ) ۔
صرف وہ ذات پرستش کے لائق ہے جس کے ہاتھ میں دنیا کی خلقت و تدبیر ہے ۔ اگر عبادت معبود کی اہلیت اور عظمت کی بنا پر کی جائے تو پھر یہ اہلیت ، لیاقت اور عظمت صرف خدا میں پائی جاتی ہے اور اگر اس بناء پر کی جائے کہ معبود سود زیاں کا سر چشمہ ہے تو یہ بھی خدا کے ساتھ مخصوص ہے ۔
آسمان و زمین میں خد اکی عظمت و تدبیر کے کچھ آثارذکر کرنے کے بعد اور مخالفین کے وجدان و عقل کو دعوت دینے کے بعد جب وہ اعتراف کرچکے تو اگلی آیت میں قطعی لب و لہجہ کے اختیار کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : یہ ہے خدا تمہارا برحق پر وردگار ( فَذَلِکُمْ اللهُ رَبُّکُمْ الْحَقُّ ) ۔
نہ کہ بت اور دوسرے موجودات کہ جنہیں تم خدا کی عبودیت میں شریک قرار دیتے ہو اور ان کے سامنے سجدہ کرتے ہو اور ان کی تعظیم کرتے ہو۔ وہ کس طرح عبودیت کے لائق ہو سکتے ہیں حالانکہ یہی نہیں کہ وہ تخلیق و تدبیر جہان میں شریک نہیں ہوسکتے بلکہ خود بھی سر تا پا محتاج ہیں ۔
اس کے بعد نتیجتاً فرمایا گیا ہے : اب جب کہ حق کو واضح طور پر پہچان چکے ہو ۔ تو کیا حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ رہ جاتا ہے (فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلَالُ) ۔
اس کے باوجود کیوں تم خدا کی عبادت اور پرستش سے منہ بھیر تو ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ معبود بر حق ا س کے علاوہ کوئی نہیں ( َاٴَنَّی تُصْرَفُونَ) ۔
یہ آیت در حقیقت باطل کی شناخت اور اسے ترک کرنے کے لئے ایک واضح منطقی راستہ بتاتی ہے اور وہ یہ کہ پہلے تو حق کی پہچان کے لئے عقل سے کام لینا چاہئیے اور جب حق کو پہچان لیا جائے تو جو کچھ اس کے مخالف ہے وہ باطل اور گمراہی ہے اور اس سے کنارہ کشی کرنا چاہئیے ۔
آخری آیت میںیہ نکتہ بیان کرنے کے لئے کہ وہ لوگ مطلب واضح اور حق آشکار ہو جانے کے باوجود کیوں اس کے پیچھے نہیں جاتے، قرآن کہتا ہے : اسی طرح خدا کا فرمان ان افراد کے بارے میں کہ جو جان بوجھ کر اور عقل کے خلاف چلتے ہوئے اطاعت سے رخ پھیر تے ہیں ، صادر ہوا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائےں گے ( کَذَلِکَ حَقَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِینَ فَسَقُوا اٴَنّھُمْ لاَیُؤْمِنُونَ) ۔2
حقیقت میں یہ ان کے مسلسل غلط اعمال کی خاصیت ہے کہ جو ان کے دل کو اس طرح سے تاریک اور ان کی روح کو اس طرح سے آلودہ کردیتی ہے کہ حق کے واضح اور روشن ہونے کے باوجود اسے نہیں دیکھتے اور بے راہ روی اختیار کرتے ہیں ۔ اس بناء پر مندرجہ بالا آیت کسی طرح سے بھی مسئلہ جبر پر دلالت نہیں کرتی بلکہ انسان کے خود اپنے اعمال کی طرف اشارہ ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ ان اعمال میں یہ خصوصیت فرمان الہٰی سے ہے ۔
یہ بالکل اس طرح ہے جیسے ہم کسی سے کہیں کہ ہم نے تجھے سو مرتبہ کہا ہے کہ نشہ آور چیزوں اور شراب کے پیچھے نہ جاوٴ ، اب جب کہ تونے کان میں نہیں دھرے اور ان کا سخت عادی ہو چکا ہے تو اب تیرے لئے یہی حکم ہے کہ مدتوں بد بختی میں رہے ۔

 

۳۴۔ قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ قُلْ اللهُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ فَاٴَنَّا تُؤْفَکُون۔
۳۵۔ قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَھْدِی إِلَی الْحَقِّ قُلْ اللهُ یَھْدِی لِلْحَقِّ اٴَفَمَنْ یَھْدِی إِلَی الْحَقِّ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُتَّبَعَ اٴَمَّنْ لاَیَھِدِّی إِلاَّ اٴَنْ یُھْدَی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ۔
۳۶۔ وَمَا یَتَّبِعُ اٴَکْثَرُھُمْ إِلاَّ ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لاَیُغْنِی مِنْ الْحَقِّ شَیْئًا إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِمَا یَفْعَلُونَ۔

ترجمہ

۳۴۔ کہہ دو ! کیا تمہارے معبودوں میںسے کوئی مخلوق کو ایجان کرسکتا ہے اور پھر اسے پلٹا سکتا ہے ؟ کہہ دو ! صرف خدا نے مخلوق کو پیدا کیا ہے اور پھر واپس پلٹا ئے گا ۔ اس کے باوجود حق سے کیوں رو گرداں ہوتے ہو۔
۳۵۔ کہہ دو ! کیا تمہارے معبودوں میں سے کوئی حق کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔ کہہ دو صرف خدا حق کی ہدایت کرتا ہے ۔ کیا وہ جو حق کی ہدایت کرتا ہے پیروی کے زیادہ لائق نہیں ہے یا وہ کہ جسے ہدایت نہ کی جائے تو وہ خود ہدایت حاصل کرتا تمہیں کیا ہوگیا ہے تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو۔
۳۶۔ ان میں سے اکثر سوائے گمان ( اور بے بنیاد خیالات)کے کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے ( حالانکہ ) گمان کبھی انسان کو حق سے بے نیاز نہیں کرتا(اور حق تک نہیں پہنچاتا) اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے باخبر اور آگاہ ہے ۔
 


۱۔ تفسیر بر ہان ج،۱ ص ۵۴۳ ،سورہ انعام کی آیت ۹۵کے ذیل میں متعدد روایات کے حوالے سے یہ مضمون ذکر کیا گیا ہے ۔
2-کاف تشبیہ یہاں ایک مطلب کی طرف اشارہ ہے کہ جو گزشتہ آیت کے آخری جملے میں ذکر ہوا ہے اور آیت کا معنی اس طرح ہے ( انہ لیس بعد الحق الا الضلال کذٰلک حقت کلمة ربک )یعنی پہلے حق کے بعد گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے اسی طرح خد اکا حکم صادر ہو چکا ہے ۔
حق و باطل کی ایک پہچان قیامت میں بت پرستوں کا ایک منظر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma