سفیداور سیاہ چہروں والے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
قیامت میں بت پرستوں کا ایک منظردو قابل تووجہ نکات

گزشتہ آیات میں دارِ آخرت اور روز قیامت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اسی مناسبت سے زیر بحث آیات دار آخرت میں نیکوکاروں اور گناہ گاروںکا انجام بیان کررہی ہےں ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : جولوگ اچھے کام کرتے ہیں ان کے لئے اچھی اور زیادہ جزا ہے ( لِلَّذِینَ اٴَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِیَادَةٌ
یہ کہ اس جملے میں ”زیادة“ سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ آیات قرآنی ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کئی گناجزا اور ثواب کی طرف اشارہ ہے یہ جزا کبھی دس گناہ ہوتی ہے اور کبھی ہزار گنا( خلوص، پاکیزگی، تقویٰ اور عمل کی قدر و منزلت کے اعتبار سے ) ۔
سورہ انعام آیہ ۱۶۰ میں ہے :
من جاء بالحسنة فلہ عشر امثالھا ۔
جو شخص کوئی اچھا کام انجام دے گا اسے اس کے دس گناہ جزا ملے گی ۔
ایک اور مقام پر ہے :
فاما الذین اٰمنوا وعملو ا الصالحات فیوافیھم اجورھم ویزیدھم من فضلہ،
رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو خد ا انھیں پوری جزا دے گا اور اپنے فضل و کرم سے بھی اس پر زیادہ کرے گا ۔( نساء۱۷۳)
سوہ بقرہ میں انفاق سے مربوط آیات میں بھی نیکوکار لوگوں کی جزا سات صد یا کئی گنابیان کی گئی ہے ۔( بقرہ  ۲۶۱)
ایک اورنکتہ کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہئیے یہ کہ یہ بات عین ممکن ہے یہ زیادہ دوسرے جہان میں متواتر اور ہمیشہ بڑھتی رہے یعنی ہرروزخداکی طرف سے انھیں نئی نعمت اور لطف و کرم عطا ہوتارہے ۔ درحقیقت یہ امرنشاندہی کرتاہے کہ دوسرے جہان کی زندگی ایک ہی طرز کی نہیں ہے اور غیر محدود طور پر تکامل و ارتقا کی طرف بڑھتی رہے کی ۔
اس آیت کی تفسیر میں پیغمبر اکرم سے جو روایات نقل ہوئی ہیں ان کے مطابق ” زیادة“ سے مراد پر وردگار کی ذات ِ پاک کے جلوہ کی طرف توجہ اور اس عظیم معنوی نعمت سے استفادہ کرنا ہے ، ممکن ہے یہ اسی مذکورہ نکتے کی طرف اشارہ ہو۔
چند ایک روایات جو ائمہ اہلبیت (ع) سے منقول ہیں میں لفظ ”زیادة“ تمام نعمات کی طرف اشارہ ہو۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے کہ روز نیک لوگوں کے چہرے درخشاں اور چمکتے ہوئے ہوں گے اور تاریکی و ذلت ان کے چہروں کو نہیں چھپائے گی (وَلاَیَرْھَقُ وُجُوھھُمْ قَتَرٌ وَلاَذِلَّة) ۔
” یرھق“ مادہ ”رھق“ ” سے جبری طور پر چھپانے کے معنی میں ہے اور ” قتر“ کا معنی ہے غبار یا دھواں ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :یہ لوگ اہل بہشت ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔( اٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَنَِّ ھُمْ فِیھَا خَالِدُونَ ) ۔
” اصحاب “ کی تعبیر اس مناسبت کی طرف اشارہ ہے جو اس گروہ کی روحانیت اور جنت کے ماحول کے درمیان ہے ۔
دوسری آیت میں دوزخیوں کے بارے میں گفتگو ہے جو پہلے گروہ کے مد مقابل ہیں فرمایا گیا ہے: جولوگ گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں انھیں ان کے عمل کے مطابق بر ی جزا ملے گی ( وَالَّذِینَ کَسَبُوا السَّیِّئَاتِ جَزَاءُ سَیِّئَةٍ بِمِثْلِھا ) ۔
یہاں” زیادة“ کا ذکر نہیں ہے کیونکہ جزا میں زیادتی فضل و رحمت ہے لیکن سزا میں عدالت میں کا تقاضا ہے کہ وہ ذرہ برابر بھی گناہ سے زیادہ نہ ہو ۔ لیکن یہ لوگ پہلے لوگوں کے برعکس سیاہ چہرے والے ہوں گے اور ان کے چہروں کو ذلت و رسوائی نے ڈھانپ رکھا ہو گا (وَتَرْھَقُھمْ ذِلَّةٌ) ۔2
ممکن ہے سوال کیا جائے کہ عدالت کا تقاضا ہے کہ انھیں گناسے زیادہ سزا دی جائے جب کہ ان کے چہرہ کی سیاہی ، ذلت کی گردان کے لئے ایک زیادتی ہے لیکن توجہ رہے کہ یہ عمل کی خاصیت اور اثر ہے جو انسان کی روح کے اندر سے باہر منعکس ہوتا ہے یہ بالکل اسی طرح ہے کہ ہم کہیں کہ شرابیوں کو کوڑے لگانے چاہئیں جب کہ شراب معدہ ، دل جگر اور اعصاب میں طرح طرح کی بیماریاں بھی پیدا کردیتی ہے ۔
بہر حال ممکن ہے بد کاریہ گمان کریں کہ انھیں کوئی راہ ِ فرار مل جائے گی یابت وغیرہ ان کی شفاعت کرسکیں گے لیکن اگلا جملہ صراحت سے کہتا ہے : کوئی شخص اور کوئی چیز انھیں خدائی سزا سے نہ بچا سکے گی( مَا لَھمْ مِنْ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ ) ۔
ان کے چہروں کی تاریکی اور سیاہی اتنی زیادہ ہوگی” گویا تاریک رات کے ٹکڑے یکے بعد دیگرے ان چہرے پر پڑے ہوئے ہیں “ (کَاٴَنَّمَا اٴُغْشِیَتْ وُجُو ھھم قِطَعًا مِنْ اللَّیْلِ مُظْلِمًا ) ۔
”وہ اہل نار ہیں اور ہمیشہ اس ( جہنم )میں رہیں گے “(اٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ النَّارِ ھُمْ فِیھَا خَالِدُونَ) ۔

۲۸۔ وَیَوْمَ نَحْشُرھُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ اٴَشْرَکُوا مَکَانَکُمْ اٴَنْتُمْ وَشُرَکَاؤُکُمْ فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ وَقَالَ شُرَکَاؤُھُمْ مَا کُنْتُمْ إِیَّانَا تَعْبُدُونَ ۔
۲۹۔ فَکَفَی بِاللهِ شَہِیدًا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ إِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغَافِلِینَ ۔
۳۰۔ھُنَالِکَ تَبْلُو کُلُّ نَفْسٍ مَا اٴَسْلَفَتْ وَرُدُّوا إِلَی اللهِ مَوْلَاھُمْ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ ۔
 

ترجمہ

۲۸۔اس دن کو یا د کرو جب ہم ان سب کو جمع کریں گے ، اس کے بعد مشرکین کہیں گے کہ تم اور تمہارے معبود اپنی جگہ پر ہو ( تاکہ تمہارا حساب کتاب لیا جائے )پھر انھیں ہم ایک دوسرے سے جدا کردیں گے ( اور ہر ایک سے الگ الگ سوال کریں گے ) اور ان کے معبود ( ان سے ) کہیں گے کہ تم ( ہر گز ) ہماری عبادت نہیں کرتے تھے ۔
۲۹۔یہی کافی ہے کہ خدا ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ ہے کہ ہم تمہارے عبادت کرنے سے غافل تھے ۔
۳۰۔ اس وقت( اور وہاں ) ہر شخص نے جو پہلے سے عمل کیا ہو گا اسے آزمائے گا اور سب کے سب اللہ ، اپنے مولا اور حقیقی سر پرست کی طرف پلٹ جائیں گے اور جنہیں وہ جھوٹ موٹ خدا کا شریک قرار دیتے تھے ان سے کھو جائیں گے ۔


۱۔ توجہ رہے کہ اس جملے میں” حسنی“ مبتدائے موٴخر ہے اور آیت کا معنی اس طرح ہے : الحسنیٰ للذین احسنوا لہٰذا لفظ ”زیادہ“جس کا اس طر عطف ہے ، مرفوع آیا ہے نیز” الحسنی“ ” المثوبة“ کی صفت ہے کہ جو مقدر ہے اور یہ موصوف کی جگہ ہے ۔
2۔ہوسکتا ہے گزشتہ آیت کے قرینہ سے ” ترھقھم ذلة“ تقدیراً ”’ترھقھم قترو ذلة“ ہو اور مقابلہ کے قرینہ سے اختصار کے لئے ” قتر‘ ‘ کے وہاں سے حذف ہواہو۔
قیامت میں بت پرستوں کا ایک منظردو قابل تووجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma