دو قابل توجہ نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
عظمت الہی کی نشانیاں خدا شناسی اور قیامت

 

۱۔ ” الیہ مرجعکم جیمعاً “ کا مفہوم : اگر چہ خد اکے لئے مکان و محل نہیں ہے ۔ اس کے باوجود اس جہاں میں وہ ہرجگہ ہے اور ہم سے ہمارے نسبت زیادہ قریب ہے ۔ اس کے امر کے سبب مفسرین نے زیر نظر آیت میں ” الیہ مرجعکم جمیعاً“ اور قرآن کی ایسی دیگر آیات کی مختلف تفسیریں کی ہیں ،
کبھی کہا جاتا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ثواب اور جزا کی طرف پلٹ جائیں گے۔
نیز شاید بعض جاہل افراد اسے قیامت میں خدا کے مجسم ہو نے کی دلیل سمجھیں کہ جس عقیدہ کا بطلان اس قدر واضح ہے کہ محتاج بیان نہیں ۔
لیکن . جو کچھ آیات قرآن میں غورو فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ عالم حیات ایسے کاروں کی طرح جو جہان عدم سے چلا ہے اور اپنے لامتناہی سفر اور گردش میں لامتناہی کی طرف ہی آگے بڑھ رہا ہے جو کہ خدا کی ذات پاک ہے اگر چہ مخلوق محدود ہے اور محدود کبھی لامتناہی (Infinite)نہیں ہوتا پھر بھی اس کا سفر تکامل رکتا ۔ یہاں تک کہ قیام قیامت کے بعد بھی یہ سیر ت کامل جاری و ساری رہے گی ( جیسا کہ ہم نے معادکی بحث میں اس کی تشریح کی ہے )1
قرآن کہتا ہے : ۔
یا ایھا الانسان انک کادح الی ربک کدحاً ۔
اے انسان !تو سعی وکو شش کے ساتھ اپنے پر وردگارکی طرف جارہا ہے ۔
نیز کہتا ہے :۔
یا اایتھا النفس المطمئنہ الی ربک ۔
اے وہ روح کہ جوایمان اور عمل صا لح کے ذریعے سکو ن واطمینان کی سرحد تک پہنچ گئی ہے، اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آ ۔
اس تحر یک کی ابتدا . خدا کی طرف سے ہوئی ہے اور زند گی کا پہلا شعلہ اس کی طرف سے ظا ہر ہو ا ہے نیزیہ ارتقائی سفر اور حرکت اسی کی طرف ہے جسے ---” رجوع “ اوربازگشت سے تعبیرکیا جا تا ہے.
المختصر ایسی تعبیر یں علاوہ اس کے کہ موجو دات کی خدا کی طرف عمومی حرکت کی طرف اشارہ ہیں اس حرکت کے مقصد کو بھی مشخص کرتی ہیں اور وہ اس کی پاک ذات ہے ۔
اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ لفظ ” الیہِِ“ مقدم ہے اور اس کا مقد م ہونا انحصار کی دلیل ہے واضح ہو جا تا ہے کہ انسان کی ارتقائی اور تکا ملی حرکت کا مقصد اس کی پاک ذات کے علاوہ کوئی وجود نہں ہو سکتا نہ بت اور نہ ہی کوئی اور مخلوق ۔کیونکہ یہ سب چیزیں محدود ہیں اور انسان کی راہ غیر محدود ہے ۔
۲۔ ” قسط “کا مفہوم : ”قسط “ لغت میں دوسرے کاحصہ اداکرنے کے معنی میں ہے لہذا اس میں انصاف کا مفہوم چھپا ہوا ہے ۔یہ بات جاذب نظر ہے مندرجہ بالا آیت میںیہ لفظ صرف ا ن افراد کے لیے بولاگیا ہے جو عمل صا لح بجالاتے ہیں اور اچھی جزا چا ہتے ہیں لیکن بدکارو ں کی سزا کے ذکر میں یہ لفظ نہیں آیا کیونکہ عذاب اور سزامیں کوی حصہ نہیں ہو تا ۔با لفا ظ دیگر” قسط “ صرف نیک جزا کیلئے مناسب ہے ،سزا کے لیے مناسب نہیں ہے۔

 

۵ ۔ ہُوَ الَّذی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیاء ً وَ الْقَمَرَ نُوراً وَ قَدَّرَہُ مَنازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنینَ وَ الْحِسابَ ما خَلَقَ اللَّہُ ذلِکَ إِلاَّ بِالْحَقِّ یُفَصِّلُ الْآیاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ۔
۶۔ إِنَّ فی اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَ النَّھارِ وَ ما خَلَقَ اللَّہُ فِی السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ لَآیاتٍ لِقَوْمٍ یَتَّقُونَ ۔
ترجمہ
۵ ۔ وہ وہ ہے کہ جس نے سورج کو روشنی اور چاند کو نور قرار دیا ہے اور اس کے لئے منزلیں مقرر کی ہیں تا کہ تم برسوں کی تعداد اور ( کاموں کا ) حساب جان لو۔ خدا نے اسے سوائے حق کے پیدا نہیں کیا ۔ وہ (اپنی ) آیات صاحبان علم کے لئے تفصیل و تشریح کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔
۶۔ مسلم ہے کہ رات اور دن کے آنے جانے میں اور ان چیزوں میں کہ جنھیں خدا نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ، ان لوگوں کے لئے آیات ( اورنشانیاں ) ہیں جو پرہیزگار ہیں ( اور گناہ نے ان کے دل کی آنکھ کو اندھا نہیں کر دیا ) ۔

 


1 ۔زیادہ وضاحت کے لئے کتا ب ” معاد و جہان پس از مرگ “ کی طرف رجوع کرے ۔
 
عظمت الہی کی نشانیاں خدا شناسی اور قیامت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma