کیا صادقین سے مراد صرف معصومین ہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
مجاہدین کو مشکلات پر جزا ضرور ملے گی سچوں کا ساتھ دو

جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں ذکر کیاہے ” صادقین “ کا مفہوم اگر چہ وسیع ہے مگر بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے یہاں مراد صرف معصومین ہیں ۔
سلیم بن قیس ہلالی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن امیر المومنین علیہ السلام کچھ مسلمانوں سے محوِ گفتگو تھے ۔ آپ نے ان سے دیگر باتوں کے علاوہ فرمایا :
میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں ، کیا تمہیں معلو م ہے کہ جد خدا نے ( یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ )کا حکم نازل ہو اتو سلمان نے عر ض کیا: اے خدا کے رسول ! کیا اس سے مراد عام ہے یا خاص؟ تو رسول اللہ نے فرمایا: اس حکم کے مامور اور ذمہ دار تمام مومنین ہیں لیکن ” صادقین “ کا مفہوم مخصوص ہے میرے بھائی علی کے لئے اور روز قیامت تک اس کے بعد اوصیاء کے لئے ۔
جب علی (ع) نے یہ سوال کیا تو حاضرین نے کہا : جی ہاں ! یہ بات ہم نے رسول اللہ سے سنی تھی ۔( تفسیر برہان جلد ۲ ص ۱۷۰) ۔
نافع نے عبد اللہ بن عمر سے اس آیت کی تفسیر میں یوں نقل کیا ہے :
خدا نے پہلے مسلمانوں کا حکم دیا ہے کہ وہ خدا سے ڈریں ، اس کے بعد فرمایا ہے : ” کُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ “یعنی مع محمد و اھل بیہ (محمد اور ان کے اہل بیت کا ساتھ دو )( تفسیر برہان جلد ۲ ص ۱۷۰) ۔
اہل سنت کے بعض مفسرین مثلاً صاحب المنار مندرجہ بالا روایت کے ذیل میں اس طرح نقل کیا ہے کہ ” مع محمد و اصحابہ “ ( محمد اور ان کے اصحاب کے ساتھ )لیکن مفہوم آیت کی طرف توجہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عام ہے اور ہر زمانے کے لئے ہے اور ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ کے صحابہ ایک محدود زمانھے میں تھے لہٰذا عبد اللہ بن عمر سے جو روایت شیعہ کتب میں آئی ہے ۔ صحیح تر دکھائی دیتی ہے ۔
تفسیر بر ہان کے مصنف نے اسی طرح کا مضمون اہل تسنن کے طرق سے نقل کیا ہے اور کہا ہے : موفق ابن احمد نے اپنی اسناد ابن ِ عباس سے مندر جہ بالا آیت کے ذیل میں اس طرح سے نقل کیا ہے :وھو علی بن ابی طالب
یعنی  وہ علی بن ابی طالب ہیں ۔
اس کے بعد کہتا ہے :
یہی مطلب عبد الرزاق نے کتاب رموز الکنوز میں درج کیا ہے ۔ ( تفسیر بر ہان جلد ۲ ص ۱۰۰)
زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ ” تقویٰ اختیار کرو “ اور اس کے بعد سچوں کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا ہے اگر ” صادقین “ کا مفہوم آیت میں عام ہوتا او رتمام سچے اور با استقامت مومنین اس میں شامل ہوتے تو کہا جاتا” وکونوا مع الصادقین “ یعنی سچوںمیں سے رہنا نہ کہ ” سچوں کے ساتھ دو“ ( غور کیجئے گا ) ۔
یہ امر خود اس بات کا قرینہ ہے کہ ” صادقین “ آیت میں ایک خاص گروہ کے لئے آیا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ساتھ دینے سے مراد ساتھ رہنا نہیں بلکہ بلا شبہ اس سے مراد ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہے ۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا کسی غیر معصوم کی پیروی اور نقش قدم پر چلنے کا حکم بغیر کسی قید اور شرط کے دیا جا سکتا ہے کیا یہ خود اس امر پر دلیل نہیں کہ صادقین سے مراد صرف ” معصومین “ ہیں ۔
لہٰذ اجوکچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے اگر غور و خوض کریں تو وہی مفہوم خود آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے
یہ بات جانب ِ توجہ ہے کہ معروف مفسری فخر رازی نے جو تعصب اور شک پیدا کرنے میں مشہور یہ حقیقت قبول کی ہے ( اگر چہ زیادہ تر اہل سنت مفسرین اس مسئلہ سے خاموشی سے گذرگئے ہیں ) وہ کہتا ہے :
خدا مومنین کو سچوں کا ساتھ دینے کا حکم دیا ہے لہٰذا آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو لوگ جائز الخطاء ہیں وہ کسی معصوم کی پیروی کریں تاکہ اس پیروی کے ذریعے خطاء سے محفوظ رہیں اور یہ مفہوم ہر دور کے لئے ہونا چاہئیے اور زمانہ ٴ پیغمبر میں اسے مخصوص کرنے کے لئے کوئی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے ۔
لیکن بعد میں مزید کہتا ہے :
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آیت کا مفہوم یہی ہے اور ہر زمانے میں معصوم ہونا چاہئیے ، لیکن ہم اس معصوم کو مجموع ِ امت سمجھتے ہیں نہ کہ کوئی ایک فرد۔ بالفاظ دیگر یہ آیت اجماع ِ مومنین کی حجیّت او رمجموع امت کے خطا نہ کرنے کی دلیل ہے ۔ 1
یوں فخر رازی آدھا راستہ تو ٹھیک طرح سے طے کرلیا لیکن باقی نصف راہ میں اشتباہ کا شکا رہو گیا اگر وہ ایک نکتے کی طرف توجہ کرتاجو متن آیت میں موجود ہے تو باقی نصف راستہ بھی صحیح طرح سے طے کرلیتا اور وہ نکتہ یہ ہے کہ اگر صادقین سے مراد ساری امت ہے تو خود یہ پیرو بھی اس مجموع کا جز ہے اور یوں در اصل پیرو کا رپیشوا کا حصہ ہو جائے گا او رتابع و متبوع کا اتحاد اور ایک ہونا لازم آئےگا حالانکہ ظاہر آیت یہ ہے کہ پیرو کار اور ہیں اور پیشوا اور ہیں یعنی تابعین او رمتبوعین جد اجدا اور علیحدہ علیحدہ ہیں ( غور کیجئے گا ) ۔
خلاصہ یہ کہ مندرجہ بالا آیت ان آیات میں سے ایک ہے جو ہر زمانے میں موجود معصوم پر دلالت کرتی ہیں ۔
ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ” صادقین “ جمع ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہر زمانے میں متعدد معصوم ہوں ۔
اس سوال کا جواب بھی واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ مخاطب صرف ایک زمانے کے لوگوں نہیں ہیں بلکہ آیت تمام زمانوں کے لئے ہے لہٰذا گفتگو متعدد معصومین کے بارے میں ہو گی نہ کہ ایک فرد کے بارے میں ۔
اس امر کا بولتا ہوا گواہ یہ ہے کہ زمانہٴِ رسول میں سوائے آنحضرت کے کوئی اور واجب الاطاعت نہ تھا۔ جبکہ آیت مسلمہ طور پر اس زما نے مومنین کے لئے بھی تھی ۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ جمع سے مراد ایک زمانے کے افراد نہیں بلکہ جمع زمانوں کے مجموعہ کے لئے ہے ۔

 

۱۲۰۔ مَا کَانَ لِاٴَھْلِ الْمَدِینَةِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِنَ الْاٴَعْرَابِ اٴَنْ یَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللهِ وَلاَیَرْغَبُوا بِاٴَنفُسِھِمْ عَنْ نَفْسِہِ ذَلِکَ بِاٴَنَّھُمْ لاَیُصِیبُھُمْ ظَمَاٴٌ وَلاَنَصَبٌ وَلاَمَخْمَصَةٌ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَطَئُونَ مَوْطِئًا یَغِیظُ الْکُفَّارَ وَلاَیَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَیْلًا إِلاَّ کُتِبَ لَھُمْ بِہِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللهَ لاَیُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ۔
۱۲۲۔ وَلاَیُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِیرَةً وَلاَکَبِیرَةً وَلاَیَقْطَعُونَ وَادِیًا إِلاَّ کُتِبَ لَھُمْ لِیَجْزِیَھُمْ اللهُ اٴَحْسَنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔

ترجمہ

مناسب نہیں کہ اہل مدینہ اور بادیہ نشین جو اس کے اطراف میں ہیں ، رسول اللہ سے اختلاف کریں اور اپنی جان بچانے کے لئے ان کی جان سے لاپرواہی کریں یہ اس لئے ہے کہ انھیں کوئی پیاس نہیں لگے گی ، نہ خستگی ہو گی ، نہ راہ ِ خدا میں بھوک لگے گی ، نہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھاتے ہیں کہ جو کافروں کے غضب کاموجب ہو او رنہ دشمن سے کوئی ضرب کھاتے ہیں مگر یہ کہ ا سکی وجہ سے ان کے لئے اچھا عمل لکھا جاتا ہے کیونکہ نیک لوگوں کی اجرت ( او رجزا) ضائع نہیں کرتا ۔
۱۲۱۔ اور وہ کسی چھوٹے یا بڑے مال کو ( راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے اور کسی زمین کو ( میدان جہاد کی طرف جاتے ہوئے یا اس سے پلٹتے ہوئے ) خرچ نہیں کرتے اور کسی زمین کو ( میدان جہاد کی طرف جاتے ہوئے اس سے پلٹتے ہوئے ) عبور نہیں کرتے مگر یہ کہ ان کے لئے لکھا جاتا ہے تاکہ خدا ان کے بہترین اعمال کے لحاظ سے انہیں جزا دے ۔

 


1۔ تفسیر فخر رازی ج۱۶ ص ۲۲۰، ص ۲۲۱۔

 

مجاہدین کو مشکلات پر جزا ضرور ملے گی سچوں کا ساتھ دو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma