چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
سچوں کا ساتھ دوگنہ گاروں کے لئے معاشرتی دبا وٴ

۱۔ تاب اللہ علی النبی “ سے کیامراد ہے ؟ : محل بحث پہلی آیت میں ہم نے پڑھا ہے کہ خدا نے پیغمبر ، مہاجرین اور انصارپر توجہ کی اور ان کی توبہ قبول کی
اس میں شک نہیں کہ معصوم پیغمبر کا تو گناہ ہی نہ تھا کہ خدا اس پر توجہ کرتا اور اس کی تبہ قبول کرتا، اگر چہ اہل سنت کے بعض مفسرین ِ حدیث نے مندرجہ بالا تعبیر کو جنگ تبوک کے واقعہ میں پیغمبر سے کوئی لغزش ہونے کی دلیل قرار دیا ہے لیکن خود اس آیت میں اورقرآن کی دوسری آیات میں غو ر خوض کیا جائے تو یہ تفسیر غلط معلوم ہوتی ہے  کیونکہ :
پہلی بات تو یہ ہے کہ پر وردگار کی توبہ کا معنی ٰ ہے ” اس اپنی رحمت کے ساتھ لوٹ آنا “ اور بندوں کی طرف توجہ کرنا اور اس کے مفہوم میں گناہ یالغزش نہیں ہے جیسا کہ سورہٴ نساء میں بعض احکام ِ اسلام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے :
یرید اللہ لیبین لکم و یھدیکم سنن الذین من قبلکم و یتوب علیکم و اللہ علیم حکیم
خد اچاہتا ہے کہ تم سے اپنے احکام بیان کرے اور جو لوگ تم سے پہلے تھے ان کی اچھی سنت اور روش کی تمہیں ہدایت کرے اور تم پر ”توبہ “ کرے اور خدا عالم و حکیم ہے ۔
اس آیت میں اور ا س سے پہلے گناہ اور لغزش کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ بلکہ اس آیت کی تصریح کے مطابق گفتگو احکام بیان کرنے کے حوالے سے اور گذشتہ لوگوں کی اچھی طرح سنتوں کی ہدایت کے بارے میں ہورہی ہے یہ چیز خود نشان دہی کرتی ہے کہ یہاں توبہ کا معنی ہے بندوں کے لئے رحمت ِالٰہی شمول ۔
دوسری بات یہ ہے کہ کتب ِ لغت میں بھی توبہ کا ایک یہی معنی مذکور ہے ۔ مشہور کتاب قاموس میں تو بہ کا ایک معنی اس طرح ذکر ہوا ہے :
رجع علیہ بفضلہ و قبولہ
یعنی  اس کی طرف لوٹا اپنے فضل و قبول کرنے سے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ زیر بحث آیت میں مومنین کے صرف ایک گروہ کے انحراف ِ حق کا ذکر ہے حالانکہ خدائی توبہ سب کے لئے قرار دی گئی ہے یہ امر نشان دہی کرتا ہے کہ یہاں خدائی توبہ گناہ پر بندوں کی معذرت قبول کرنے کے معنی میں نہیں ةے بلکہ یہاں اس سے مراد خدا کی خاص رحمت ہے جو ان سخت لمحات میں پیغمبر اور تمام مومنین کی مدد کے لئے آئی ۔ اس میں مہاجرین و انصار میں سے کسی کے لئے استثناء نہیں ہے اور اس رحمت نے انھیں جہادمیں ثابت رکھا۔
۲۔ جنگ تبوک کو” ساعة العسرة“ کیوں کہاگیا ؟:لفظ ”ساعت“ لغت کے اعتبار سے وقت کے ایک حصہ کو کہتے ہیں ، چاہے وہ چھوٹا ہویا بڑا۔ البتہ زیادہ لمبے زمانے کو ساعت نہیں کہا جاسکتا ہے اور ” عسرت “ مشقت اور سختی کے معنی میںہے ۔
تاریخ اسلام نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمان کبھی بھی جنگ تبوک کے موقع کی طرح مشکل صورت ِ حال ، دباوٴ اور زحمت میں مبتلا نہیں ہوئے تھے ۔ کیونکہ ایک تو سفر تبوک سخت گرمی کے عالم میں تھا ۔ دوسرا خشک سالی سے لوگو ں کو تنگ اور ملول کررکھا تھا اور تیسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے نے دن تھے اور اسی پر لوگوں کی سال بھر کی آمدنی کا انحصار تھا ۔
ان تمام چیزوں کے علاوہ مدینہ اور تبوک کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا اور مشرقی روم کی سلطنت کا انھیں سامنا تھا جو اس وقت کی سپر پاور تھی ۔
مزید بر آن سواریاں اور رسد مسلمانوں کے پاس اتناکم تھا کہ بعض اوقات دو افراد مجبور ہوتے تھے کہ ایک ہی سواری پرباری باری سفر کریں بعض پیدل چلنے والوں کے پاس جو تا تک نہیں تھا اور وہ مجبور تھے کہ وہ بیا بان کی جلانے والی ریت پر پا بر ہپنہ چلیں ۔ آب و غذا کی کمی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات خرمہ کا ایک دانہ چند آدمی یکے بعد دیگرے منہ میں رکھ کر چوستے تھے یہاں تک کہ اس کی صرف گھٹلی رہ جاتی پانی کا ایک گھنونٹ چند آدمیوں کو مل کر پینا پڑتا۔
ان تمام باتوں کے باوجود اکثر مسلمان قوی اور مستحکم جذبہ رکھتے تھے اور تمام مشکلات کے باوجود رسول ِ خدا کے ہمراہ دشمن کی طرف چل پڑے اور اس عجیب استقامت اور پا مردی کا مظاہرہ کرکے ہر دور کے تمام مسلمانوں کے لئے انھوں نے ایک عظیم درس یا دگار کے طور پر چھوڑا۔
ایسا درس جو تمام نسلوں کے لئے کافی ہے یہ درس عظیم اور خطرناک دشمنوں پر کامیابی کا وسیلہ ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں میں ایسے افراد تھے جن کے دل کمزور تھے اور یہی کمزور دل واپس لوٹ جانے کی فکرمیں تھے ان کے بارے میں قرآن کہتا ہے ۔
من بعد ما کاد یزیغ قلوب فریق منھم
”یزیغ“ ’زیغ“ کے مادہ سے ہے اس کامطلب ہے حق سے باطل کی طرف انحراف۔
لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ اکثریت کے عالم جذبات نے اور لطفِ پر وردگار نے انھیں بھی اس فکر سے پلٹا دیا اور وہ بھی راہِ حق کے مجاہدین میں شامل ہو گئے ۔
۳۔ تین افراد کے لئے ” خلفوا“ کی تعبیر : مندرجہ بالا آیات میں سست او رسہل انگار تین افراد کے بارے میں ”خلفوا“ کی تعبیر آئی ہے یعنی ” انھیں پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا “۔
یہ تعبیر یا تو اس بناء پرہے کہ جب ایسے افراد سستی کرتے تو مسلمان انھیں پیچھے چھوڑ جاتے اور ان کی پر واہ کے لئے بغیر میدانِ جہا د کی طرف پیش قدمی کرجاتے تھے اور یا اس بناء پرہے کہ جس وقت وہ عذر خواہی کے لئے پیغمبر اکرم کے پاس آئے تو آپ نے ان کا عذر قبول نہ کیا اور ان کی توبہ قبول کرنے کو پس پشت ڈال دیا ۔
۴۔ ایک دائمی اور عظیم سبق : زیر بحث آیات سے جو اہم مسائل معلوم ہوتے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ مجرموں اور فاسدوں کو معاشرتی دباوٴ اور بائیکات کے ذریعے سزا دینے سے متعلق ہے ۔
ہم اچھی طرح سے دیکھ رہے ہیں کہ جنگ ِ تبوک سے پیچھے رہ والے افراد سے بائیکاٹ سے وہ کیسی سختی ، تنگی اور دباوٴ میں مبتلا ہوئے یہ بائیکاٹ ان کے لئے ہر قسم قسم کے قید خانے سے سخت تر تھایہاں کہ اس اجتماعی بائیکاٹ کی وجہ سے ان کی جان لبوں تک آپہنچی او روہ ہر طرف سے ناامید ہو گئے اس طریقے سے اس وقت کے مسلمانوں کے معاشرے پر اس کا ایسا وسیع اثر ہوا کہ اس کے بعد بہت کم افراد ایسی جراٴت کرتے تھے کہ وہ ایسے گناہ کے مرتکب ہوں ۔
ایسی سزا سے نہ تو قید خانوں کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے نہ ایسی سزاوٴں پر کوئی خرچ اٹھتا ہے نہ ایسی سزا سستی و کاہلی کا جنم دیتی ہے اور نہ ہی برے اخلاق کو پنپنے دیتی ہے لیکن کی تاثیر ہر قید خانہ سے زیادہ اور بہت ہی دردناک ہے ۔
د رحقیقت یہ ایک بائیکاٹ اور معاشرے کی طرف سے ایسے برے اور فاسد افراد کے خۺاف منفی جنگ ہے جو حساس ذمہ داریوں کی ادائیگی سے منہ موڑ لیتے ہیں اگر مسلمان ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے لوگوںکے خلاف اس طرح کا اقدام کریں تو انھیں کامیابی حاصل ہو نا یقینی ہو جائے ۔ اس طرح سے مسلمان اپنے معاشرے کو پا ک کرسکتے ہیں لیکن بد قسمتی سے آج کے اسلامی معاشروں میں ایسے جرائم سے چشم پوش اور سازش کاری تقریبا ً ایک ہمہ گیر بیماری کی شکل اختیار کی چکی ہے یہ صورت حال نہ صرف یہ کہ ایسے افراد کو روک نہیں سکتی بلکہ انھیں ان کے برے اعمال میں مزید دلیر اور لاپر وہ کردیتی ہے ۔
۵۔ جنگ تبوک سے مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی:” تبوک “ کا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جہاں پیغمبر اکرم نے اپنی جنگوں میں پیش قدمی کی ۔ ”تبوک“ میں ایک محکم اور بلند قلعہ کا نام تھا ۔ جو حجاز اور شام کی سر حد پر واقع تھا ۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو سر زمین تبوک کہتے تھے ۔
جزیرہ نما عرب میں اسلام کے تیز رفتار نفوذ کی وجہ سے رسول اللہ کی شہرت اطراف کے تمام ممالک میں گونجنے لگی ۔ باوجودیکہ وہ اس وقت حجاز کی اہمیت کی قائل تھے لیکن طلوع ِ اسلام اور لشکر اسلام کی طاقت کہ جس نے حجاز کو ایک پر چم تلے جمع کرلیا ، نے انھیں اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں ڈال دیا۔
مشرقی روم کی سر حد حجاز سے ملتی تھی ۔ اس حکومت کو خیال ہوا کہ کہیں اسلام کی تیز رفتار ترقی کی وہ پہلی قربانی نہ بن جائے لہٰذا اس نے چالیس ہزار کی زبر دست مسلح فوج جو اس وقت کی روم جیسی طاقتوں کے شایان شان تھی۔ اکھٹی کی اور اسے حجاز کی سر حد پر لاکھڑا کیا یہ خبر مسافرو ں کے ذریعے پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی ۔ رسول اللہ نے روم اور دیگر ہمسایوں کو درس عبرت دینے کے لئے توقف کیے بغیر تیاری کا حکم صادر فرمایا۔
آپ کے منادیوں نے مدینہ اور دوسرے علاقوں تک آپ کا پیغام پہنچا یا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں تیس ہزار افراد رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے ۔ ان میں دس ہزار سوار اور بیس ہزار پیادہ تھے ۔
موسم بہت گرم تھا ، غلے کے گودام خالی تھے ، اس سال کی فصل ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی ۔ان حالات میں سفر کرنا مسلمانوں کے لئے بہت ہی مشکل تھا۔ لیکن چونکہ خدا اور رسول کا فرمان تھا لہٰذا ہر حالت میں سفر کرنا تھا اور مدینہ اور تبوک کے درمیان پر خطر ، طول صحرا کو عبور کرنا تھا ۔ اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے دالی زہریلی ہوائیں چلتی تھیں سنگریزہ اڑتے تھے جھکڑ چلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں ، اس لئے یہ ” جیش العسرة “ ( یعنی سختیوں والا لشکر )کے نام سے مشہور ہوا۔ ا س نے تمام سختیوں کو جھیلا اورماہ شعبان کی ابتداء میں ہجرت کے نویں سال سر زمین تبوک میں پہنچا جبکہ رسول اللہ حضرت علی  کو اپنی جگہ پر مدینہ میں چھوڑ آئے تھے ۔ یہ واحد غزوہ ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام شریک نہیں ہوئے ۔
رسول اللہ کا اقدام بہت ہی مناسب اور ضروری تھا کیونکہ بہت احتمال تھا کہ بعض پیچھے رہنے والے مشرکین یا منافقین جو حیلوں بہانوں سے میدان ِ تبوک میں شریک نہ ہوئے تھے رسول اللہ اور ان کی فوج کی طویل غیبت سے فائدہ اٹھائیں او رمدینہ پر حملہ کردیں ۔ عورتوں اور بچوںکو قتل کردیں اور مدینہ کو تاخت و تاراج کردیں لیکن حضرت علی (ع) کا مدینہ میں رہ جانا ان کی سازشوں کے مقابلے میں ایک طاقتور بند تھا ۔
بہت حال جب رسول اللہ تبوک میں پہنچے تو وہاں آپ کو رومی فوج کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیا ۔ عظیم سپاہ اسلام چونکہ کئی جنگوں میں اپنی عجیب و غریب جراٴت وشجاعت کا مظاہرہ کر چکی تھی جب ان کے آنے کی خبر رومیوں کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے اسی کو بہتر سمجھا کے اپنے ملک کے اندر چلے جائیں اور اس طرح سے ظاہر کریں کہ مدینہ پر حمل ہ کرنے کے لئے لشکر ِ روم کی سر حدوں پر جمع ہو نے کی خبر ایک بے بنیاد افواہ سے زیادہ کچھ نہ تھی کیونکہ وہ ایک ایسی خطرناک جنگ شروع کرنے سے ڈرتے تھے کہ جس کا جواز بھی ان کے پاس کوئی تھا لیکن لشکر اسلام اس طرح سے تیز رفتاری سے میدان تبوک میں پہنچنے سے دشمنان اسلام کو کئی درس سکھائے ، مثلاً:
۱۔ یہ بات ثابت ہو گئی کہ مجاہدین اسلام کا جذبہ جہاد اس قدر وقی ہے کہ وہ اس زمانے کی نہایت طاقت در فوج سے نہیں ڈرتے ۔
۲۔ بہت سے قبائل اور اطراف، تبوک کے امراء پیغمبر اسلام کی خدمت میں آئے اور آپ سے تعرض او رجنگ نہ کرنے کے عہد و پیمان پر دستخظ کیے اس طرح مسلمان ان کی طرف سے آسودہ خاطر ہو گئے ۔
۳۔ اسلام کی لہریں سلطنت ِ روم کی سر حدوں کے اندر تک چلی گئیں اور اس وقت کے ایک اہم واقعے کے طور پر اس کی آواز ہر جگہ گونجی اور رومیوں کے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کے لئے زمین ہموار ہوگئی۔
۴۔ یہ راستہ طے کرنے اور زحمتوں کو بر داشت کرنے سے آیندہ شام کا علاقہ فتح کرنے کے لئے راہ ہموار ہ وگئی اور معلوم ہو گیا کہ آخر کار یہ راستہ طے کرنا ہی ہے ۔
یہ عظیم فوائد ایسے تھے کہ جن کے لئے لشکر کی زحمت بر داشت کی جا سکتی تھی ۔
بہر حال پیغمبر اکرم نے اپنی سنت کے مطابق اپنی فوج سے مشورہ کیا کہ پیش قدمی جاری رکھی جائے یا واپس پلٹ جایا جائے ۔ اکثریت کی رائے یہ تھی کہ پلٹ جانا بہتر ہے اور یہ اسلامی اصولوں کی روح سے زیادہ منا سبت رکھتا تھا خصوصاً جبکہ اس وقت طاقت فرمسا سفر اور راستے کی مشقت و زحمت کے باعث اسلامی فوج کے سپاہی تھکے ہوئے تھے اور ان کی جسمانی قوت مزاحمت کمزور پڑچکی تھی ۔
رسول اللہ نے اس رائے کو صحیح قرار دیا اور لشکر اسلام مدینہ کی طرف لوٹ آیا ۔

 

۱۱۹۔ یَااٴَیھَُا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ۔
ترجمہ
۱۱۹۔ اے ایمان والو! خدا ( کے ہر حکم کی مخالفت ) سے ڈرو اور سچوں کا ساتھ دو ۔

 

سچوں کا ساتھ دوگنہ گاروں کے لئے معاشرتی دبا وٴ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma