تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
مکتب کا رشتہقوم ثمود کی داستان شروع ہوتی ہے

اب ہم دیکھیں گے کہ حضرت صالح (علیه السلام) کے مخالفین ان کی زندہ اور حقیقت پسندانہ منطق کا کیا جواب دیتے ہیں ۔
انھوں نے حضرت صالح (علیه السلام) کو غیر موثر بنانے کے لئے یا کم از کم ان کی باتوں کو بے تاثیر کرنے کے لئے ایک نفسیاتی حربہ استعمال کیا، وہ آپ کو دھوکا دینا چاہتے تھے،” کہنے لگے: اے صالح! اس سے پہلے تو ہماری امیدوں کا سرمایہ تھا“مشکلات میں ہم تیری پناہ لیتے تھے، تجھ سے مشورہ کرتے تھے، تیرے عقل وشعور پر ایمان رکھتے تھے، اور تیری خیر خواہی اور ہمدردی میں ہمیں ہرگز کوئی شک نہ تھا (قَالُوا یَاصَالِحُ قَدْ کُنتَ فِینَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَا)لیکن افسوس کہ تم نے ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا، دین بت پرستی کی اور ہمارے خداؤں کی مخالفت کرکے کہ جو ہمارے بزرگوں کا رسم رواج تھا اور ہماری قوم کے افتخارات میں ست تھا تونے ظاہر کردیا کہ تو بزرگوں کے احترام کا قائل ہے نہ ہماری عقل پر تمھیں کوئی اعتماد ہے اور نہ ہی تو ہمارے طور طریقوں کاحامی ہے، ”کیا سچ مچ تو ہمیں ان کی پرستش سے روکنا دینا چاہتا ہے جن کی عبادت ہمارے آباؤواجداد کرتے تھے“ ( اٴَتَنْھَانَا اٴَنْ نَعْبُدَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ جس یکتا پرستی کے دین کی طرف تو دعوت دیتا ہے ہم اس کے بارے میں شک وتردد میں ہی، نہ سرف ہمیں شک ہے بلکہ اس کے بارے میں ہم بدگمان بھی ہیں (وَإِنَّنَا لَفِی شَکٍّ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَیْہِ مُرِیبٍ) ۔
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ گمراہ قوم اپنے غلط اور نادرست افکارواعمال کی توجیہ کے لئے اپنے بڑوں کا سہارا لیتی ہے ان کے تقدس کے ہالہ میں چھپنے کی کوشش کرتی ہے، یہ وہی پرانی منطق ہے جوتمام منحرف قوموں نے قدیم زمانے سے اپنے خرافات کی توجیہ کے لئے اختیار کی، یہی منطق آج بھی ایٹم اور خلاء کے دور میں پوری قوت سے باقی ہے ۔
لیکن خدا کے یہ عظیم پیغمبر ان کی ہدایت سے مایوس نہ ہوئے اور ان کی پرفریب باتوں کا ان کی عظیم روح پر ذرہ برابر اثر نہ ہوا، انھوں نے اپنی مخصوص قناعت کے ساتھ انھیں جواب دیا، ”کہا: اے میری قوم! دیکھو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس کی رحمت میرے شامل حال ہو، اور اس نے میرے دل کو روشن اور فکر کو بیدار کیا ہو اور میں ایسے حقائق سے آشنا ہوا ہوں جن سے پہلے آشنا نہ تھا تو کیا میں پھر بھی سکوت اختیار کرسکتا ہوں اور کیا اس صورت میںمیں پیام الٰہی نہ پہنچاؤں اور انحراف اور برائیوں کے خلاف جنگ نہ کروں “( قَالَ یَاقَوْمِ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِن کُنتُ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَآتَانِی مِنْہُ رَحْمَةً)، اس عالم میں ”اگر میں فرمان خدا کی مخالفت کروں تو کون شخص ہے جو اس کے عذاب وسزا کے مقابلے میں میری مدد کرسکتا ہے“( فَمَنْ یَنصُرُنِی مِنْ اللهِ إِنْ عَصَیْتُہُ)، لیکن جان لو کہ تمہاری اس قسم کی باتیں اور بڑوں کی روش سے استدلال وغیرہ کا مجھ پر اس کے سوا اور کوئی اثر نہیں ہوگا کہ تمھارے زیاں کارہونے کے بارے میں میرا ایمان بڑھے گا ( فَمَا تَزِیدُونَنِی غَیْرَ تَخْسِیرٍ) ۔
اس کے بعد آپ نے اپنی دعوت کی حقانیت کے لئے معجزے اور نشانی کے لئے نچاندہی کی، ایسی نشانی جو انسانی قدرت سے ماوراء ہے اور صرف قدرت الٰہی کے سہارے پیش کی گئی ہے ، ان سے کہا: ”اے میری قوم !یہ ناقہ الٰہی تمھارے لئے آیت اور نشانی ہے “( وَیَاقَوْمِ ھٰذِہِ نَاقَةُ اللهِ لَکُمْ آیَةً )،”اسے چھوڑدو کہ یہ بیابانوں چراگاہوں میں گھاس پھوس کھائے“(فَذَرُوھَا تَاٴْکُلْ فِی اٴَرْضِ اللهِ )،”اوراسے ہرگز کوئی تکلیف نہ پہنچانا ، اگر ایسا کرو گے تو فوراً تمھیںدردناک عذاب الٰہی گھیر لے گا “(وَلَاتَمَسُّوھَا بِسُوءٍ فَیَاٴْخُذَکُمْ عَذَابٌ قَرِیبٌ) ۔
ناقہ صالح
لغت میں ”ناقہ“ اونٹنی کے معنی میں ہے، مندرجہ بالاآیت میں اور قرآن کی بعض دیگر آیات میں اس کی اضافت خدا کی طرف سے کی گئی ہے، (۱)یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ یئہ اونٹنی کچھ خصوصیات رکھتی تھی، اس طر ف توجہ کرتے ہوئے مندرجہ بالا آیت میں اس کا زکر آیات الٰہی اور دلیل حقانیت کے طور پر آیا ہے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اونٹنی ایک عام اونٹنی نہ تھی اور ایک حوالے سے یا کئی حوالوں سے معجزہ کے طور پر تھی، لیکن آیات میں یہ مسئلہ تفصیل کے ساتھ نہیں آیا کہ اس ناقہ کی خصوصیات کیا تھیں، اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی عام اونٹنی نہ تھی ۔
بس یہی ایک چیز قرآن میں دو مواقع پر موجود ہے کہ حضرت صالح (علیه السلام) نے اس ناقے کے بارے میں اپنی قوم کو بتایا کہ اس علاقے میں پانی کی تقسیم ہونا چاہیئے، ایک دن ناقہ کا حصہ ہے اور ایک دن لوگوں کا، آیت کے الفاظ ہیں:
ھٰذِہِ نَاقَةٌ لَھَا شِرْبٌ وَلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَعْلُومٍ۔ (شعراء: ۱۵۵)
نیز سورہ قمر کی آیہ ۲۸ میں :
وَنَبِّئْھُمْ اٴَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَیْنَھُمْ کُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ ۔
سورہ شمس میں بھی اس امر کی طرف اشارہ موجود ہے:
فَقَالَ لَھُمْ رَسُولُ اللهِ نَاقَةَ اللهِ وَسُقْیَاھَا ۔ (شمس:۱۳)
لیکن یہ بات پوری طرح مشخص نہیں ہوسکی کہ پانی کی یہ تقسیم کس طرح خارق عادت تھی، ایک احتمال یہ ہے کہ وہ اونٹنی بہت زیادہ پانی پیتی تھی اس طرح سے کہ چشمہ کا تمام پانی اس کے لئے مخصوص ہوجاتا، دوسرا احتمال یہ ہے کہ جس وقت وہ پانی پینے کے لئے آتی تو دوسرے جانور پانی پینے کی جگہ پر آنے کی جرات نہ کرتے ۔
ایک سوال یہ ہے کہ یہ جانور تمام پانی سے کس طرح استفادہ کرتا تھا، اس سلسلے میں یہ احتمال ہے کہ اس بستی کا پانی کم مقدار میں ہو، جیسے بعض بستیوں میں ایک ہی چھوٹا سا چشمہ ہوتا ہے اور بستی والے مجبور ہوتے ہیں کہ دن بھر کا پانی ایک گڑھے میں اکٹھا کریں تاکہ کچھ مقدار جمع ہوجائے اور اسے استعمال کیا جاسکے ۔
لیکن دوسری طرف سورہ شعراء کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود تھوڑے پانی والے علاقے میں زندگی بسر نہیں کرتی تھی، بلکہ وہ لوگ تو باغوں، چشموں، کھیتوں اور نخلستان کے مالک تھے، قرآن کہتا ہے:
اٴَتُتْرَکُونَ فِی مَا ھَاھُنَا آمِنِینَ، فِی جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ، وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُھَا ھَضِیمٌ. (شعراء: ۱۴۶، تا۱۴۸)
بہرحال جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ ناقہ صالح کے بارے میں اس مسئلے پر قرآن نے اجمالا ذکر کیا ہے لیکن بعض روایات جو شیعہ اور سنی دونوں طرق سے نقل ہوئی ہیں میں ہے کہ اس ناقہ کے عجائب خلقت میں سے تھا کہ وہ پہاڑ کے اندر سے باہرنکلی، اس کے بارے میں کچھ اور خصوصیات بھی منقول ہیں جن کی وضاحت کا یہ موقع نہیں ہے ۔
بہر کیف حضرت صالح (علیه السلام) جیسے عظیم نبی نے اس ناقہ کے بارے میں بہت سمجھایا بجھایا مگر انھوں نے آخرکار ناقہ کو ختم کردینے کا مصمم ارادہ کرلیا، کیونکہ اس کی خارق عادت اور غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے لوگوں میں بیدار ی پیدا ہورہی تھی اور حضرت صالح (علیه السلام) کی طرف مائل ہورہے تھے لہٰذا قوم ثمود کے کچھ سرکشوں نے جو حضرت صالح (علیه السلام) کی دعوت کے اثرات کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے اوروہ ہرگز لوگوں کی بیداری نہیں چاہتے تھے کیونکہ خلق خدا کی بیداری سے ان کے استعماری اور استثماری مفادات کو نقصان پہنچاتا تھا، ناقہ کو ختم کرنے کی سازش تیار کی، کچھ افراد کو اس کام پر مامور کیا گیا، آخر کار ان میں سے ایک نے ناقہ پر حملہ کیا اور اس پر ایک یا کئی وار کئے اور اسے مار ڈالا ( فَعَقَرُوھَا) ۔
”عقروھا“عقر“ (بروزن ”ظلم“)کے مادہ سے ہے، اس کا معنی ہے کسی چیز کی اساس اور جڑ ،”عقرة البعیر“کا معنی ہے ”میں نے اونٹ کا سر قلم کردیا اور اسے نحر کردیا“ اونٹ کو قتل کرنا چونکہ اس کے اصل وجود کو ختم کردینے کا سبب بنتا ہے لہٰذا یہ مادہ اس معنی میں استعمال ہوا ہے، کبھی نحر کرنے کی بجائے اونٹ کی کوچیںکاٹنے یا اس کے ہاتھ پاؤں قطع کرنے کے معنی میں بھی لیا گیا ہے، دراصل ان تمام معانی کی بازگشت ایک ہی چیز کی طرف ہے اور ان سب کا ایک ہی نتیجہ ہے (غور کیجئے گا) ۔

 


۱۔ ادبی اصطلاح میں یہ ایک تشریعی اضافت ہے جو کسی چیز کے شرف اور اہمیت کی دلیل ہے، ،مندرجہ بالاآیت میں اس کے دو نمونے نظر آتے ہیں”ناقة اللّٰہ“ اور ”ارض اللّٰہ“، دیگر مواقع پر ”شھراللّٰہ“ اور ”بیت اللّٰہ“ وغیرہ آئے ہیں ۔
مکتب کا رشتہقوم ثمود کی داستان شروع ہوتی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma