۳۔ جہاں رشتہ ٹوٹ جاتا ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
حضرت نوح (علیه السلام) باسلامت اُتر آئے۲۔ حضرت نوح (علیه السلام) اپنے بیٹے کے بارے میں کیوں کر متوجہ نہ تھے؟

مندرجہ بالا آیات سے حضرت نوح (علیه السلام) کی سرگزشت میں سے انسانی تربیت کے حوالے سے ایک اور بلند سبق ہاتھ آتا ہے، ایسا سبق جو مادی مکتبوں میں بالکل کوئی مفہوم نہیں رکھتا لیکن ایک خدائی اور معنوی مکتب میں یہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔
مادی رشتے یعنی نسب، رشتہ داری، دوستی اور رفاقت آسمانی مکاتب میں ہمیشہ روحانی رشتوں کے تحت ہوتے ہیں اس مکتب میں نسبی وخاندانی رشتوں کا مکتبی وروحانی رشتوں کے مقابلے میں کوئی مفہوم نہیں ۔
جہاں مکتبی رابطے موجود ہیں وہاں دور افتادہ سلمان فارسی جو نہ خاندان پیغمبر سے ہے نہ قریشی ہے، مکی بھی نہیں اور اصلا عرب بھی نہیں، وہ خاندان رسالت کا حصہ شمار ہوتا ہے جیسا کہ مشہور حدیث ہے:
سلمان منا اھل البیت
یعنی ۔ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے ۔
دوسری طرف نوح جیسے پیغمبر کا بلا فصل حقیقی بیٹا باپ سے مکتبی رشتہ ٹوڑنے کی وجہ سے اس طرح دھتکادیا جاتا ہے:
انہ لیس من اھلک
یہ تیرے اہل میں سے نہیں ۔
ہوسکتا ہے مادی فکر رکھنے والوں کو یہ بات بہت گراں محسوس ہو لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو تمام ادیان آسمانی میں نظر آتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ احادیث بیت (علیه السلام) میں ان شیعوں کے بارے میں صریح اور ہلا دینے والی باتیں ہیں جو صرف ام کے شیعہ ہیں لیکن اہل بیت (علیه السلام)کی تعلیمات اور ان کے عملی پروگراموں کا ان کی زندگی میں کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا، یہ امر بھی درحقیقت اسی روش کو واضح کرتا ہے جو قرآن نے زیر نظر آیات میں سامنے رکھی ہے ۔
امام علی بن موسیٰ رضا علیہما السلام سے منقول ہے کہ آپ نے ایک دن اپنے دوستوں اور موالیوں سے یہ پوچھا کہ :یہ لوگ اس آیت کی کس طرح تفسیر کرتے ہیں ”انہ عمل غیر صالح“ (یہ غیر صالح عمل ہے )
حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا:بعض کا نظریہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ نوح کا بیٹا کنعان ان کا حقیقی بیٹا نہیں تھا ۔
امام (علیه السلام) نے فرمایا:
کلا لقد کان ابنہ ولکن لما عصی اللّٰہ نفاہ عین عن ابیہ کذا من کان منا لم یطع اللّٰہ فلیس منا ۔
یعنی ۔ ایسا نہیں ہے یقینا وہ نوح کا بیٹا تھا لیکن جب اس نے نافرمانی کی اور حکم خدا کے راستے سے منحرف ہوگیا تو خدا نے اس کے فرزند ہونے کی نفی کی، اسی طرح جو لوگ ہم میں سے ہوں لیکن خدا کی اطاعت نہ کرتے ہوں وہ ہم میں سے نہیں ہیں ۔ (۱)
۴۔دھتکارے ہوئے مسلمان:
نا مناسب نہ ہوگا اگر ہم مندرجہ بالا آیت سے استفادہ کرتے ہوئے کچھ اسلامی احادیث کی طرف اشارہ کریں جن میں سے بہت سے لوگوں کو، جو ظاہراً مسلمانوں کے زمرے میں ہیں یا ظاہراً مکتب اہل بیت (علیه السلام) کے پیروکار ہیں، دھتکار دیا ہے اور انھیں مومنین اور شیعوں کی صف سے نکال دیا گیا ہے ۔
۱۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں:
من غش مسلما فلیس منا ۔
جو مسلمان بھائیوں سے دھوکی بازی اور خیانت کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (۲)
۲۔ امام صادق (علیه السلام) فرماتے ہیں:
لیس بولی لی من اکل مال موٴمن حراما ۔
جو مومن کا مال ناجائز طور پر کھائے وہ میرا دوست اور موالی نہیں ہے ۔ (۳)
۳۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں:
اٴلا ومَن اٴکرمہ الناس اتقاء فلیس منی ۔
جان لو کہ جس کے شر سے بچنے کے لئے لوگ اس کا احترام کریں وہ مجھ نہیں ہے ۔
۴۔امام نے فرمایا:
لیس من شیعتنا من یظلم الناس۔
جو لوگوں پر ظلم کرے وہ ہمارا شیعہ نہیں ۔
۵۔ امام کاظم فرماتے ہیں:
لیس منا من لم یحاسب نفسہ کل یوم۔
جو شخص ہرروز اپنا محاسبہ نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (4)
۶۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں:
من سمع رجلا ینادی یا للمسلمین فلم یجبہ فلیس بمسلم۔
جو شخص کسی انسان کی آواز سے سنے جو پکار رہا ہو اے مسلمانو! میری مدد کو پہنچو، میری اعانت کرو اور اس پر لبیک نہ کہے وہ مسلمان نہیں ہے ۔ (5)
۷۔ امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص جابر تھا، آپ نے اس سے فرمایا:
واعلم یا جابر بانّک لاتکون لنا ولیا حتی لو اجتمع علیک اھل مصرک وقالوا اٴنت رجل سوء لم یحزنک ذٰلک ولوقالوا انّک رجل صالح لم یسرک ذٰلک ولکن اعرض نفسک علی کتاب اللّٰہ۔
اے جابر! جان لو کہ تم اس وقت تک ہمارے دوست نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمھارے سارے اہل شہر جمع ہوکر تم سے کہیں کہ تو برا شخص ہے اور تو اس پر غمگین نہ ہو اور سب مل کر کہیں کہ تو اچھا آدمی ہے اور تو خوش نہ ہو بلکہ اپنے آپ کو کتاب خدا قرآن کے سامنے پیش کرو اور اچھائی اور برائی کے بارے میں قوانین وضوابط اس سے لو اور پھر تم دیکھو کہ تم کس گروہ میں سے ہو۔ (6)
یہ احادیث ان لوگوں کے نظریات پر خط بطلان کھینچتی ہے جو صرف نام پر گزارا کرتے ہیں مگر عمل اور مکتبی ارتباط کی ان میں کوئی خبر نہیں، یہ احادیث وضاحت سے ثابت کرتی ہیں کہ خدائی پیشواؤں کے مکتب ان کی بنیاد مکتب پر ایمان اور اس کے پروگراموں کے مطابق عمل کرنا ہے اور تمام چیزوں کو اسی معیار پر پرکھا جانا چاہیئے ۔

 

۴۸ قِیلَ یَانُوحُ اھْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَکَاتٍ عَلَیْکَ وَعَلیٰ اٴُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ وَاٴُمَمٌ سَنُمَتِّعُھُمْ ثُمَّ یَمَسُّھُمْ مِنَّا عَذَابٌ اٴَلِیمٌ۔
۴۹ تِلْکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیھَا إِلَیْکَ مَا کُنتَ تَعْلَمُھَا اٴَنْتَ وَلَاقَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعاقِبَةَ لِلْمُتَّقِینَ۔
ترجمہ
۴۸۔ (نوح سے) کہاگیا: اے نوح ! سلامتی اور برکت کے ساتھ جو تجھ پر اور تیرے ساتھ موجود تمام امتوں پر ہے اتر آؤ کچھ ایسی امتیں ہیں جنہیں ہم اپنی نعمتوں سے سرفراز کریں گے اس کے بعد انھیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا ۔
۴۹۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی (اے پیغمبر !)ہم تجھ پر وحی کرتے ہیں اور انھیں اس سے پہلے نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم لہٰذا صبر اور استقامت سے کام لو کیونکہ عاقبت پرہیزگاروں کے لئے ہے ۔

 


۱۔تفسیر صافی مذکرہ آیات کے ذیل میں ۔
۲۔ سفینة البحار، ج۲، ص ۳۱۸۔
۳۔ وسائل، ج ۱۲، ص ۵۳۔
4۔ بحار، ج۱۵، حصہ اخلاق (طبع قدیم) ۔
5 اصول کافی، ج۲، ص ۱۶۴۔
6۔ سفینة البحار، ج۲، ص ۴۹۱۔
حضرت نوح (علیه السلام) باسلامت اُتر آئے۲۔ حضرت نوح (علیه السلام) اپنے بیٹے کے بارے میں کیوں کر متوجہ نہ تھے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma