ایک داستان کا اختتام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
پسر نوح کا دردناک انجام۳۔طوفان نوح میں عبرت کے درس

جیسا کہ گزشتہ آیات میں ہم نے اجمالاً سربستہ طور پر پڑھا ہے کہ آخرکار پانی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں نے تمام جگہوں کو گھیر لیا ، پانی کی سطح بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی، جاہل گنہگاروں نے یہ گمان کیا کہ یہ ایک معمول کا طوفان ہے، وہ اونچی جگہوں اور پہاڑوں پر پناہ گزیں ہوگئے لین پانی ان کے اوپر سے بھی گزر گیا اور تمام جگہیں پانی کے نیچے چھپ گئیں، ان طغیان گروں کے جسم، ان کے بچے کھچے گھر اور زندگی کا سازوسامان پانی کی جھاگ میں نظر آرہاتھا ۔
حضرت نوح (علیه السلام) نے زمام کشتی خدا کے ہاتھ میں دی، موجیں کشتی کو ادھر سے ادھر لے جاتی تھیں، روایات میں آیا ہے کہ کشتی پورے چھ ماہ سرگرداں رہی، یہ مدت ابتدائے ماہ رجب سے لے کر ذی الحجہ کے اختتام تک تھی، ایک اور روایت کے مطابق دس رجب سے لے کر روز عاشورہ تک کشتی پانی کی موجوں میں سرگرداں رہی ۔ (۱)
اس دوران میں کشتی نے مختلف علاقوں کی سیر کی یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق سرزمین مکہ اور خانہ کعبہ کے اطراف کی بھی سیر کی ۔
آخرکار عذاب کے خاتمے اور زمین کے معمول کی حالت میں لوٹ آنے کا حکم صادر ہوا، مندرجہ بالا آیت میں اس فرمان کی کیفیت ، جزئیات اور نتیجہ بہت مختصر مگر انتہائی عمدہ اور جاذب وخوبصورت عبرت میں چھ جملوں میں بیان کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: حکم دیا گیا کہ ات زمین! اپنے پانی نگل جاؤ (وَقِیلَ یَااٴَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ) ۔
اور آسمان کو حکم ہوا ”اے آسمان ہاتھ روک لے“( وَیَاسَمَاءُ اٴَقْلِعِی وَ) ۔
”پانی نیچے بیٹھ گیا“(غِیضَ الْمَاءُ) ۔
”اور کشتی کوہ جودی کے دامن سے آلگی“( وَقُضِیَ الْاٴَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیِّ ) ۔
”اس وقت کہا گیا: دور ہو ظالم قوم “(وَقِیلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ) ۔
مندرجہ بالاآیت کی تعبیرات مختصر ہوتے ہوئے بھی نہایت موثر اور دلنشین ہیں، یہ بولتی ہوئی زندہ تعبیرات ہیں اورتمام تر زیبائی کے باوجود ہلا دینے والی ہیں، بعض علماء عرب کے بقول یہ آیات قرآن میں سے فصیح ترین اور بلیغ ترین آیت ہے، روایات اور توریخ اسلام میں اس کی شہادت موجود ہے، لکھا ہے :
کچھ کفار قریش قرآن سے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، انھوں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ قرآنی آیات جیسی کچھ آیات گھڑیں، ان سے تعلق رکھنے والوں نے انھیں چالیس دن تک بہترین غذائیں مہیا کیں، مشروبات فراہم کئے اور ان کی ہر فرمائش پوری کی، خالص گندم کا معدہ، بکرے کا گوشت، ایرانی شراب غرض سب کچھ انھیں لاکر دیا تاکہ وہ آرام وراحت کے ساتھ قرآنی آیات جیسے جملوں کی ترکیب بندی کریں ۔
لیکن جب وہ مذکورہ آیت تک پہنچے تو اس نے انھیں اس طرح سے ہلا کر رکھ دیا کہ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ ایسی گفتگو ہے کہ کوئی کلام اس سے مشابہت نہیں رکھتا، یہ کہہ کر انھوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا اور مایوس ہوکر ادھر ادھر چلے گئے ۔ (2)
کوہ جُودی کہاں ہے؟
بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ کوہ جودی جس کے کنارے کشتیٴ نوح آکر لگی تھی اور جس کا ذکر مذکورہ آیات میں آیاہے وہی مشہور پہاڑ ہے جو موصل کے قریب ہے ۔ (3)
بعض دوسرے مفسرین نے اسے حدود شام میں یا ”آمد“ کے نزدیک یا عراق کے شمالی پہاڑ سمجھا ہے ۔
کتاب مفردات میں راغب نے کہا ہے کہ یہ وہ پہاڑ ہے جو موصل اور الجزیرہ کے درمیان ہے (الجزیرہ شمالی عراق میں ایک جگہ ہے اور یہ الجزائر یا الجزیرہ نہیں جو آج کل مشہور ہے) ۔
بعید نہیں کہ ان سب کی بازگشت ایک ہی طرف ہو کیونکہ موصل ، آمداور الجزیرہ سب عراق کے شمالی علاقوں میںہیں اور شام کے نزدیک ہیں ۔
بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ جودی سے مراد ہر مضبوط پہاڑ اور محکم زمین ہے یعنی کشتی نوح ایک محکم زمین پر لنگر انداز ہوئی جو اس کی سواریوں کے اترنے کے لئے مناسب تھی، لیکن مشہور ومعروف وہی پہلا معنی ہے ۔
کتاب” اعلام قرآن“ میں کوہ جودی کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے، یہ تحقیق ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں:
جودی ایک پہاڑ کا نام ہے جس پر کشتی نوح آکر ٹھہر گئی تھی، اس کا نام سورہ ہود کی آیہ ۴۴ میں آیا ہے کہ جس کا مضمون تورات کے مندرجات کے قریب ہے، کوہ جودی کے محل ومقام کے بارے میں تین قول ہیں :
۱۔ اصفہانی کے بقول کوہ جودی عربستان (4)میں ہے اور ان دو پہاڑوں میں سے ایک ہے جو قبیلہ ”طی“ کی حکومت میں تھے ۔
۲۔ کوہ جودی کاردین کا سلسلہ ہے جو جزیرہ ابن عمر کے شمال مشرق اور دجلہ کے مشرق میں موصل کے نزدیک میں واقع ہے، اکراد اسے اپنے لب ولہجہ میں کاردو اور یونانی جوردی اور اعراب جودی کہتے ہیں ۔
ترگوم یعنی تورات کے کلدانی ترجمے میں اور اسی طرح تورات کے سریانی ترجمے میں کشتی نوح کے رکنے کی جگہ کوہ اکراہ کا قلعہ ”کاردین“ معین ہوا ہے، عرب کے جغرافیہ دانوں نے بھی قرآن میں مذکورہ کوہ جودی کو یہی پہاڑ قرار دیاہے اور کہا ہے کہ کشتی نوح کے تختے کے کچھ ٹکڑے بنی عباس کے زمانے تک اس پہاڑ کی چوٹی پر باقی تھے اور مشرکین ان کی زیارت کیا کرتے تھے ۔
بابل کی داستانوں میں طوفان نوح کی داستانوں سے مشابہ ایک داستان موجود ہے ۔
علاوہ از ایں یہ احتمال ہے بھی ہے کہ دجلہ میں طوفان آیا ہو اور اس علاقے لوگوں کو طوفان کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
کوہ جودی پر آشوری کتیبے موجود ہیں، انھیں کتیبہ ہائے مسیر کہتے ہیں، ان کتیبوں میں ”ارارتو“ کا نام نظر آتا ہے ۔
۳۔موجودہ تورات کے ترجمے میں کشتی نوح کے رکنے کی جگہ آرارات کے پہاڑ قرار دی گئی ہے اور وہ کوہ ماسیس ہے جو ارمنستان میں واقع ہے ۔
قاموس کتاب مقدس کے مولف نے پہلے معنی کو ”ملعون“ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ روایات کے مطابق کشتی نوح اس پہاڑ کے اوپر رکی اور اسے عرب جودی کہتے ہیں، ایرانی کوہ نوح کہتے ہیں اور ترک”کرداغ“ کہتے ہیں کہ جو ڈھلوان کے معنی میں ہے اور وہ ارس کے قریب واقع ہے ۔
پانچویں صدی تک ارمنستانی ارمنستان میں جودی پہاڑ کو نہیں جانتے تھے، اس صدی سے شاید تورات کے ترجمہ نگاروں کو اشتباہ ہوا ہے اور انھوں نے کوہ اکراد کا ترجمہ کوہ آرارات کردیا جس کی وجہ سے ارمنی علماء کو یہ خیال پیدا ہوگیا ہے ۔
شاید یہ خیال اس وجہ سے پیدا ہوا ہو کہ آشوری لوگ ”وان“ جھیل کے شمال اور جنوب کے پہاڑ کو ”آرارات“ یا”آراراتو“ کہتے تھے ۔
کہتے ہیں کہ طوفان ختم ہونے کے بعد حضرت نوح (علیه السلام) نے کوہ جودی کی چوٹی پر ایک مسجد بنائی تھی ۔

ارامنی بھی کہتے ہیں کہ کوہ جادی کے نیچے قریہ ”ثمانین“ یا”ثمان“ وہ پہلی جگہ ہے جہاں حضرت نوح (علیه السلام) کے ہمراہی آکر اترے تھے ۔ (5)

 

۴۵ وَنَادیٰ نُوحٌ رَبَّہُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِی مِنْ اٴَھْلِی وَإِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاٴَنْتَ اٴَحْکَمُ الْحَاکِمِینَ۔
۴۶ قَالَ یَانُوحُ إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ اٴَھْلِکَ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَلَاتَسْاٴَلْنِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنِّی اٴَعِظُکَ اٴَنْ تَکُونَ مِنَ الْجَاھِلِینَ۔
۴۷ قَالَ رَبِّ إِنِّی اٴَعُوذُ بِکَ اٴَنْ اٴَسْاٴَلَکَ مَا لَیْسَ لِی بِہِ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِی وَتَرْحَمْنِی اٴَکُنْ مِنَ الْخَاسِرِین۔
ترجمہ
۴۵۔نوح نے اپنے پروردگار سے عرض کیا: پروردگارا! میرا بیٹا میرے خاندان میں سے ہے اور تیرا وعدہ (میرے خاندان کے بارے میں ) حق ہے اور تو تمام حکم کرنے والوں سے برتر ہے ۔
۴۶۔ فرمایا: اے نوح ! تیرے اہل سے نہیں ہے، وہ غیر صالح ہے، جس سے تو آگاہ نہیں وہ سوال مجھ سے نہ کر، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں تاکہ جاہلوں میں سے نہ ہو۔
۴۷۔عرض کیا: پروردگارا! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے ایسی چیز کا سوال کروں کہ جس سے میں آگاہی نہیں رکھتا اور اگر تو مجھے نہ بخشے تو میں زیاں کاروں میں سے ہوجاؤں گا ۔

 


۱۔ تفسیر قرطبی، ج۵، ص ۳۲۶۹ ، تفسیر ابولفتوح رازی، ج۶، ص۲۷۸، تفسیر مجمع البیان، ج۵، ص ۱۶۴، اور طبری، ض ۱۲، ص ۲۹۔
2۔ مجمع البیان، ج۵، ص ۱۶۵، روح المعانی، ج۱۲، ص ۵۷۔
3۔ مجمع البیان ، روح المعانی اور قرطبی، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
4۔ جس کا نام آج کل موجودہ حکمرانوں نے اپنے خاندان کے نام پر” سعودی عرب“رکھا ہوا ہے ۔ (مترجم)
5۔ اعلام قرآن خزائلی، ص ۲۸۱۔
 
پسر نوح کا دردناک انجام۳۔طوفان نوح میں عبرت کے درس
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma