تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۱۔ ایک اشکال کی وضاحت:۷۔ ”إِنْ لَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکُمْ“ کے مخاطب:

گزشتہ آیات نے اعجاز قرآن کے دلائل پیش کرکے مشرکین اور منکرین پر حجت تمام کردی ہے اور چونکہ حق واضح ہوجانے کے باوجود ایک گروہ نے صرف اپنے مادی منافع کی خاطر سرِتسلیم خم نہیں کیا لہٰذا محلِ بحث آیات میں ایسے دنیا پرست افراد کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ”جس کا مقصد صرف دنیاوی زندگی کی رنگینیاں اور اس کی زنیت ہو وہ اس جہان میں اپنے اعمال کا نتیجہ پالے گا بغیر اس کے کہ کوئی چیز اس میں کم ہے“ (مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَھَا نُوَفِّ إِلَیْھِمْ اٴَعْمَالَھُمْ فِیھَا وَھُمْ فِیھَا لَایُبْخَسُونَ) ۔
بخس“لغت میں حق کے نقصان کے معنی میں آیا ہے اور ”وَھُمْ فِیھَا لَایُبْخَسُونَ“ اس طرح اشارہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کا نتیجہ بغیر تھوڑے سے بھی نقصان کے پالیں گے ۔
یہ آیت خداتعالیٰ کی ایک دائمی سنّت کو بیان کررہی ہے اور وہ یہ کہ مثبت اعمال اور موٴثر نتائج ختم نہیں ہوتے، فرق یہ ہے کہ اگر اعمال کا اصلی مقصد اس جہاں کی مادّی زندگی کا حصول ہے تو نتیجہ بھی مادّی ہی ہوگا لیکن اگر مقصد خدا اور اس کی رضا کا حصول ہو تو وہ اس جہان میں بھی ثمر بخش ہوں گے اور دوسرے جہاں میں بھی پُربار نتائج پیدا کریں گے ۔
درحقیقت پہلی قسم کے اعمال ایسی غیر مستقل اور کم عمر عمارت کی طرح ہیں جسے وقتی ضرورت کے لئے بنایا جاتا ہے اور اس سے استفادہ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ ویران ہوجاتی ہے لیکن دوسری قسم کی مثال ایسی محکم اور مضبوط بنیادوں والی عمارت کی سی ہے جو صدیوں تک برقرار رہتی ہے اور قالِ استفادہ ہوتی ہے، اس امر کا نمونہ آج کل ہم اپنے گردو پیش دیکھتے ہیں، مغربی دنیا نے اپنی مسلسل اور منظم کوشش سے بہت سے علوم کے اسرار معلوم کئے ہیں نیز مغربی دنیا نے مادہ کی مختلف طاقتوں پر تصرف حاصل کرلیا ہے اور مسلسل کوشش اور مشکلات کے مقابلے میں استقامت، اتحاد اور ہم بستگی ہے انھوںنے بہت سی نعمات حاصل ہیں ۔
اس بناء پر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے اعمال اور کوشش کے نتائج حاصل کریں گے اور درخشاں اور واضح کامیابیوں سے ہمکنار ہوں گے لیکن دوسری طرف سے چونکہ ان کا مقصد صرف دنیاوی زندگی ہے لہٰذا ان اعمال کا طبعی وفطری اثر سوائے ان کے لئے مادی وسائل فراہم ہونے کے اور کوئی نہیں ہوگیا یہاں تک کہ ان کے انسانی اور بڑے کام مثلاً ہسپتال بنانا، شفاخانے قائم کرنا، علمی مراکز قائم کرنا، غریب اقوام کی مدد کرنا اور اس قسم کے دیگر فلاحی کام، اگر ان کے استعمار واستثمار کی قیمت نہ ہو تو چونکہ بہرحال مادّی ہدف کے تحت اور مادّی منافع کے لئے ہوتے ہیں لہٰذا ان کا صرف مادی اثر ہوگا ، اسی طرح وہ لوگ جو ریاکارانہ کام کرتے ہیں ان کے علاوہ جو انسانی حوالوں سے ہوتے ہیں ان کے صرف مادی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
اسی لئے بعد والی آیت میں صراحت سے فرمایا گیا ہے: ایسے افراد کے لئے آخرت میں (جہنم کی) آگ کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے (اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ) ۔ ”اور جو کچھ انھوں نے اس جہان میں انجام دیا ہے وہ دوسرے جہاں میں محو ونابود ہوجائے گا اور اس کے بدلے میں انھیں کوئی جزا نہیں ملے گی“ (وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیھَا) ۔ ”اور وہ تمام اعمال جو انھوں نے غیر خدا کے لئے انجام دیئے ہیں باطل ونابود ہوجائیں گے (وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ) ۔
حبط“ (بروزن ”وقت“) کا معنی در اصل ایسا حیوان ہے جو نامناسب گھاس پھوس میں اتنا زیادہ کھالے کہ اس کے پیٹ ہَوا بھرجائے اور اس کا اوجھڑی بیمار اور ضائع ہوجائے، اس عالم میں یہ جانور ظاہراً تو چاق وچوبند نظر آتا ہے حالانکہ باطناً مریض ہوتات ہے ۔
یہ ایسے اعمال کے لئے نہایت موثر اور عمدہ تعبیر ہے جو ظاہراً مفید اور نسانی ہیں لیکن باطن میں آلودہ اور پست نیّت سے انجام دیئے گئے ہیں ۔

 

۱۔ ایک اشکال کی وضاحت:۷۔ ”إِنْ لَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکُمْ“ کے مخاطب:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma