بہانہ تراش منافقین

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
تفسیرشان نزول

مندرجہ بالا شان نزول نشاندہی کرتی ہے کہ انسان جب چاہے ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتار پھینکے تو اپنے لئے کسی نہ کسی طرح بہانہ بنا ہی لیتا ہے، جیسے جدّ بن قیس منافق نے میدان جہاد میں شرکت نہ کرنے کا کیا عذر کھڑا کیا تھا اور وہ یہ ہوسکتا ہے کہ خوبصورت رومی لڑکیاں اس کا دل لوٹ لیں اور وہ جنگ نہ کرسکے اور ”اشکال شرعی“ میں گرفتار ہوجائے ۔
جد ّبن قیس جیسا ہی ایک جابر حکمران کے کارندے کا موقف ہے جو کہتا تھا کہ اگر ہم لوگوں پر سختی اور تشدد نہ کریں تو ہم جو تنخواہ لیتے ہیں وہ ”شرعا“ ہمارے لئے اشکال رکھے گی یعنی اس اشکال سے بچنے کے لئے ہمیں مخلوق خدا پر ظلم وستم کرنا چاہیے ۔
بہرحال قرآن یہاں روئے سخن پیغمبر اسلام کی طرف کئے ہوئے اس قسم کے رسوا اور ذلیل بہانہ جو لوگوں کے جواب میں کہتا ہے: ان میں بعض کہتے ہیں کہ ہمیں اجازت دے دیجئے کہ ہم میدان جہادمیں حاضر نہ ہوں اور ہمیں (خوبصورت رومی لڑکیوں کا فریفتہ کرکے) گرفتار گناہ نہ کیجئے(وَمِنْھُمْ مَنْ یَقُولُ ائْذَنْ لِی وَلَاتَفْتِنِّی) ۔
آیت کی تفسیر اور شان نزول میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جد بن قیس چاہتا تھا کہ یہ بہانہ کرکے کہ میری بیوی، بچے اور اموال کا کوئی سرپرست نہیں، جہاد سے بچنا چاہتا تھا ۔ بہرحال قرآن ایسے لوگوں کے جواب میں کہتا ہے: آگاہ رہو کہ وہ ابھی سے فتنہ گناہ اور حکم خداکی مخالفت میں گھر چکے ہیں، اور جہنم نے کافروں کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے( اٴَلَافِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَھَنَّمَ لَمُحِیطَةٌ بِالْکَافِرِینَ)، یعنی وہ بے ہودہ معذرتوں کی وجہ سے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بجائے اس کے کہ بعد میں آلودہ گناہ ہوں ، ابھی سے گناہ میں گھرے ہوئے ہیںاور جہنم ان پر محیط ہے، وہ جہاد کی طرف روانگی کے بارے میں خدا اور رسول کے صریح حکم کو پاؤں تلے روند رہے ہیں کہ شاید کہیں شبہ میں گرفتار نہ ہوجائیں ۔

چند اہم نکات

۱۔ منافقوں کی ایک پہچان:
ہر معاشرے میں منافقین کی پہچان کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کے طرز استدلال اور عذربہانوں پر غور کیا جائے کہ وہ اپنی لازمی ذمہ داریوں کی انجام دہی کو ترک کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں، ان عذر بہانوں کی کیفیت ان کے باطن کو اچھی طرح واضح کردیتی ہے ، وہ زیادہ تر جزوی، ناچیز، حقیر اور کبھی مضحکہ خیز امور کا سہارا لیتے ہیں تاکہ وہ اہم اورکلی امور کو نظرانداز کردیں اور بزعم خود اہل ایمان کو غافل کرنے کے لئے ان کی سطحی فکر کا سہارا لیتے ہیں، شرعی مسائل اور خدا اور رسول کے حکم کوبیچ میں کھینچ لاتے ہیں حالانکہ وہ گناہ میں غوطہ زن ہیں شمشیر بکف پیغمبر اکرم اور ان کے دین کے خلاف دوڑ پڑتے ہیں ۔
۲۔ ”وان جھنم لمحیطة بالکٰفرین“ کا مفہوم:
اس جملے کی تفسیر کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں ۔
بعض کہتے ہیں کہ جہنم کے اسباب وعوامل یعنی گناہوں نے ان کا احاطہ کررکھا ہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ آئندہ کے حتمی اور یقینی حوادث کے ذکر کی طرح ہے جنہیں ماضی یا حال کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے یعنی قطعی اور یقینی طور پر جہنم انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔
البتہ یہ احتمال بھی ہے کہ اس جملے کی تفسیر اس کے حقیقی معنی کے ساتھ کی جائے اور ہم کہیں کہ اسی وقت جہنم موجود ہے، اس جہان کے باطن میں جہنم موجود ہے اور وہ جہنم میں گھرے ہوئے ہیں اگرچہ ابھی تک اسے تاثیر کا فرمان صادر نہیں ہوا جیسا کہ بہشت بھی اس وقت موجود ہے اور اس جہان کے باطن اور اس کے اندر سب پر محیط ہے، بہشتی چونکہ بہشت سے مناسبت رکھتے ہیں اس لئے اس سے مربوط ہیں اور دوزخی چونکہ دوزخ سے مناسبت رکھتے ہیں اس لئے ان کا دوزخ سے ربط ہوگا ۔(۱)

 

۵۰ إِنْ تُصِبْکَ حَسَنَةٌ تَسُؤْھُمْ وَإِنْ تُصِبْکَ مُصِیبَةٌ یَقُو لُوا قَدْ اٴَخَذْنَا اٴَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَیَتَوَلَّوا وَھُمْ فَرِحُونَ۔
۵۱ قُلْ لَنْ یُصِیبَنَا إِلاَّ مَا کَتَبَ اللهُ لَنَا ھُوَ مَوْلَانَا وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ۔
۵۲ قُلْ ھَلْ تَتَربَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اٴَنْ یُصِیبَکُمْ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِہِ اٴَوْ بِاٴَیْدِینَا فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَکُمْ مُتَرَبِّصُونَ۔
ترجمہ
۵۰۔اگر تجھے کوئی اچھائی پہنچے تو وہ نہیں بری لگتی ہے اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے پہلے سے مصمم ارادہ کر رکھا ہے اور وہ خوش و خرم پلٹ جاتے ہیں ۔
۵۱۔کہہ دو :کوئی حادثہ ہمارا رخ نہیں کرتا مگر جو کچھ خدا نے ہمارے لے لکھ دیا ہے وہ ہمارا مولیٰ اور سرپرست ہے اور مومنین صرف خدا پر توکل کوتے ہیں ۔
۵۲۔کہہ دو: کیا ہمارے بارے میں دونیکیوں میں سے کسی ایک کے علاوہ تمہیں کوئی توقع ہیں (یا تو ہم تم پر کامیاب ہوجائےں گے یا جام شہادت نوش کرےں گے) لیکن ہم توقع رکھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے تمہیں(اس جہان میں)یا ہمارے ہاتھ سے(اس جہان میں)عذاب پہنچے گا ،اب جب کہ معاملہ اےسا ہے تو تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں ۔

 


۱۔ اس بحث کی ایک مبسوط تشریح ہے ، اس کا مطالعہ آپ کتاب ”معاد وجہان پس از مرگ“ کے باب”بہشت و دوزخ “ میں کرسکتے ہیں ۔

 

 

تفسیرشان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma