تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
شان نزولکوشش کرو کہ منافقین کو پہچان لو

ان کا نہ ہونا ہونے سے بہتر تھا
گذشتہ آیات میں فرمایا گیا تھا:
واللّٰہ یعلم انھم لکٰذبون۔
اور اللہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ۔
زیر نظر آیات میں اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے ان کے جھوٹ اور افتراء کی یک اور نشانی بیان کی گئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے:یہ اگر سچ کہتے ہیں اور جہاد میں شرکت کے لئے تیار ہیں اور صرف تمہارے اذن کے منتظر ہیں تو انہیں چاہیے کہ جہاد کے تمام وسائل ہتھیار، سواری اور جو کچھ ان کی طاقت میں ہیں اسے فراہم کریں، جب کہ ان میں تو ایسی کوئی آمادگی نظر نہیں آتی(وَلَوْ اٴَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاٴَعَدُّوا لَہُ عُدَّةً ) ۔، یہ تارک دل اعر بے ایمان افراد ہیں کہ خدا جن کو جہاد کے پر افتخار میدان میں ناپسند کرتا ہے لہٰذا اس نے اپنی توفیق ان سے سلب کی ہے اور انہیں باہر نکلنے سے باز رکھا ہے (وَلَکِنْ کَرِہَ اللهُ انْبِعَاثَھُمْ فَثَبَّطَھُمْ) ۔(۱)
اس بارے میں یہ گفتگو کس طرف سے ہے خدا کی طرف سے یا پیغمبر کی طرف سے یا یہ خود ان کے اپنے نفس اور باطن کی آواز ہے، مفسرین میں اختلاف ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ ایک تکوینی حکم ہے جو ان کے تاریک اور گندے باطن سے اٹھا ہے اور ان کے فاسد عقیدے اور برے اعمال کا تقاضا ہے ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مقتضائے حال کو امر یا نہی کی صورت میں لایا جاتا ہے ۔ مندرجہ بالا آیت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر عمل اور نیت کا ایک اقتضاء ہے جو خوامخواہ انسان کو دامنگیر ہوتا ہے اور تمام لوگ اس کی اہلیت نہیں رکھتے کہ وہ بڑے کاموں اور راہ خدا میں قدم اٹھائیں، یہ توفیق خدا ایسے نصیب کرتا ہے جن میںنیت کی پاکیزگی، آمادگی اور خلوص ہوتا ہے ۔
بعد والی آیت میں قرآن اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایسے لوگوں کا میدان جہاد میں شریک نہ ہوبا نہ صرف مقام افسوس نہیں بلکہ شاید خوشی کا مقام ہے کیوں کہ وہ نہ فقط یہ کہ کوئی مشکل دور نہیں کرتے بلکہ اس نفاق، بے ایمانی اور اخلاقی انحراف کی روح کی وجہ سے نئی مشکلات کا باعث ہوتے ہیں ۔
در اصل یہاں مسلمانوں کو ایک عظیم درس دیا گیا ہے کہ جب کبھی بھی بڑے لشکر اور زیادہ تعداد کی فکر میں نہ رہیں بلکہ اس فکر میں رہیں کہ مخلص اور با ایمان افراد کا انتخاب کیا جائے چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو۔ مسلمانوں کی لئے کل بھی یہی درس تھا، آج بھی یہی درس ہے اور آئندہ بھی یہی درس ہوگا ۔
پہلے فرمایا گیا ہے: اگر وہ تمہارے ساتھ (تبوک کے) روانہ ہوتے تو ان کا پہلا منحوس اثر یہ ہوتا کہ وہ اضطراب اور شک و تردد کے علاوہ تم میں کسی چیز کا اضافہ نی کرتے(لَوْ خَرَجُوا فِیکُمْ مَا زَادُوکُمْ إِلاَّ خَبَالًا ) ۔
”خبال“ کا معنی ہے ”اضطراب اور تردد“ اور ’خبل“ (بروزن”اجل“) جنون کے معنی میں ہے اور”خبل“ (بروزن”طبل“) اعضاء کے فاسد ہونے کے معنی میں ہے ۔ اس بنا پر اس فاسد باطن جو شک وتردد و بزدلی کی آماجگاہ ہے کے ساتھ اگر وہ میدان میں آجاتے تو سپاہ اسلام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور فساد پھیلانے کے سوا اور کچھ نہ کرتے ۔ علاوہ ازیں وہ بڑی سرعت سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ افراد لشکر میں نفوذ حاصل کریں، نفاق وتفرقہ پیدا کریں اور اتحاد کے رشتوں کو کاٹ دیں(وَلَاٴَوْضَعُوا خِلَالَکُمْ یَبْغُونَکُمْ الْفِتْنَةَ) ۔(2)
اس کے بعد مسلمانوں کو خطرے سے متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ متوجہ رہیں کہ کمزور ایمان والاے افراد تمہارے درمیان موجود ہیں جو ان منافقوں کی باتوں سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں( وَفِیکُمْ سَمَّاعُونَ لَھُمْ) ”سماع “ اس شخص کو کہتے ہیں جس میں پذیرائی اور شنوائی کی حالت زیادہ ہو اورجو تحقیق اور غور وخوض کے بغیر ہر بات کا اعتبار کرلے لہٰذا قوی ایمان مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کمزور گروہ پر نظر رکھیں کہ کہیں وہ گرگ صفت منافقین کا لقمہ نہ بن جائیں ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ”سماع“ جاسوس کے معنی میں ہو یعنی تمہارے درمیان کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو منافقین کے لئے جاسوسی کرتے ہیں ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :”خدا ستم گروں کو پہچانتا ہے“ وہ جو علی الاعلان اور وہ جو چھپ کر اپنے اوپر یا معارے پر ظلم کرتے ہیں، اس کی دید گاہ علم سے مخفی نہیں ہیں(وَاللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ)
اگلی آیت میں پیغمبر اکرم کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ یہ منافقین سم پاشی اور تخریب کاری میں مشغول ہیں، یہ پہلے بھی ایسی کاروائیوں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں اور ابھی بھی اپنے مقصد کے لئے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں( لَقَدْ ابْتَغَوْا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ) ۔
یہ جنگ احد کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ جس میں عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی راستے ہی سے پلٹ آئے تھے اور رسول اللہ کی مدد سے انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا یا دیگر مواقع کی طرف اشارہ ہے کہ جن میں انہوں نے رسول اللہ کی ذات یا مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں کہ جن کا ذکر تاریخ اسلام میں موجود ہے ۔
انہوں نے تمہارے بہت سے کام خراب کئے اور سازشیں کیں تاکہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دیں اور انہیں جہاد سے باز رکھیں اور تمہارے ارد گرد کوئی باقی نہ رہے( وَقَلَّبُوا لَکَ الْاٴُمُورَ)، لیکن ان کی سازش اور کوشش کا کوئی اثر نہ ہوا اور ان سب کی سازشیں نقش بر آب ہوگئیں اور ان کا وار خالی گیا”آخر کارفتح حاصل ہوئی اور حق واضح ہوگیا“( حَتَّی جَاءَ الْحَقُّ وَظَھَرَ اٴَمْرُ اللهِ )، ” جب کہ وہ تمہاری پیشرفت اور کامیابی کو ناپسند کرتے تھے (وَھُمْ کَارِھُونَ)، لیکن پرورگار کے ارادہ اور مشیت کے مقابلے میں بندوں کی خواہش اور ارادہ کچھ بھی اثر نہیں رکھ سکتا، خدا چاہتا تھا کہ تمہیں کامیاب کرے اور تیرے دین کو ساری دنیا تک پہنچائے اور جتنی بھی رکاوٹیں ہوں انہیں راستے سے ہٹا دے، آخر اس نے یہ کام کردکھایا ۔
اہم بات یہ ہے کہ ہم جانیں کہ جو کچھ مندرجہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے دوسرے مطالب کی طرح پیغمبر اکرم کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے، ہرمعاشرے میں ہمیشہ منافقین کا ایک گروہ موجود ہوتا ہے جو کوشش کرتا ہے کہ حساس اور تاریخ ساز لمحات میں زہریلی باتوں کے ذریعے لوگوں کے افکار خراب کردے، وحدت کی روح کا خاتمہ کردے اور ان کے نظریات میں شکوک وشبہات پیدا کردے لیکن اگر معاشرہ بیدار ہو تو مسلم ہے کہ نصرت الٰہی سے ان کی تمام سازشیں اور منصوبہ بندیاں بے اثر ہوجائیں گی اور ان کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے، کیوں کہ اس نے اپنے دوستوں سے کامیابی کا وعدہ کر رکھا ہے، البتہ شرط یہ ہے کہ مسلمان مخلصانہ جہاد کریں اور ہوشیاری کے ساتھ ان کے داخلی دشمنوں پر نظر رکھیں ۔
 

۴۹ وَمِنْھُمْ مَنْ یَقُولُ ائْذَنْ لِی وَلَاتَفْتِنِّی اٴَلَافِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَھَنَّمَ لَمُحِیطَةٌ بِالْکَافِرِینَ۔
ترجمہ
۴۹۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ ہمیں اجازت دو( تاکہ ہم جہاد میں شرکت نہ کریں) اور ہمیں گناہ میں گرفتار نہ کرو آگاہ رہو کہ وہ (ابھی سے )گناہ میں گر چکے ہیں اور جہنم کفار پر محیط ہے ۔


۱۔” ثبطھم“”تثبیط“ کے مادہ سے ہے اور یہ انجام کار سے روکنے کے معنی میں ہے ۔
2 ”اوضعوا“ ”ایضاع“ کے مادہ سے حرکت میں تیزی کے معنی میں ہے اور یہاں سپاہ اسلام میں نفوذ میں تیزی کے مفہوم میں ہے، نیز ”فتنہ“یہاںاختلاف اور تفرقہ کے معنی میں ہیں ۔
 
شان نزولکوشش کرو کہ منافقین کو پہچان لو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma