حسا س ترین لمحات میں خدا نے اپنے پیغمبر کو تنہا نہیں چھوڑا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
داستان یار غارچند اہم نکات

جیسا کہ وضاحت کی جاچکی ہے گذشتہ آیات میں جہاد کے مسئلے پر متعدد حوالوں سے تاکید کی گئی، ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ گمان نہ کرو کہ اگر تم جہاد اور پیغمبر کی مدد سے کنارہ کش ہوگئے تو اس کا پروگرام اور اسلام زمین بوس ہوجائے گا، زیر بحث آیت اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہے: اگر اس کی مدد کرو گے تو وہ خدا جس نے سخت ترین حالات اور پیچیدہ ترین مواقع پر معجزانہ طور پر اس کی مدد کی ہے قدرت رکھتا ہے کہ پھر اس کی مدد کرے (إِلاَّ تَنصُرُوہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللهُ) ۔(۱)
یہ وہ زمانہ تھا جب مشرکین مکہ پیغمبر اکرم کو قتل کرنا کی ایک خطرناک سازش کر چکے تھے، جبکہ سورہ انفعال کی آیہ ۳۰ کے ذیل میں اس کی تفسیر گزر چکی ہے ، تفصیلی غوروخوض اور منصوبہ بندی کے بعدانہوں نے آخری فیصلہ یہ کیا تھا کہ عرب کے مختلف قبائل کے بہت سے شمشیر زن رات کے وقت رسول اللہ کے گھر کا محاصرہ کرلیں اور صبح سب مل کر آنحضرت پر حملہ کریں اور بستر پر ہی تلواروں سے ان کے جسم مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں ۔
پیغمبر اکرم جو حکم خدا سے اس سازش سے آگاہ ہوچکے تھے مکہ سے باہر جانے اور مدینہ کی طرف ہجرت کے لئے تیار ہوئے لیکن ابتدا میں کفر کی دسترس سے محفوظ رہنے کے لئے غار ثور میں پناہ گزیں ہوئے جو مکہ کے جنوب میں مدینہ کے راستے کی مخالف سمت میں تھی، اس سفر میں ابوبکر بھی آنحضرت کے ساتھ تھا ۔
دشمن نے رسول اللہ کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن مایوس ہوکر پلٹ گئے، رسول اللہ تین راتیں اور دن غار میں ٹھہرے رہے، جب دشمن کے پلٹ جانے کا اطمینان ہوگیا تو رات کے وقت عام راستے سے ہٹ کر مددینہ کی طرف روانہ ہوئے، چند دنوں میں آپ صحیح وسالم مدینہ پہنچ گئے اور اس طرح تاریخ اسلام میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ۔
مندرجہ بالا آیت اس تاریخی سفر کے ایک حساس ترین موقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے: خدا نے اپنے پیغمبر کی اس وقت مدد کی جب کافروں نے انہیںنکال باہر کیا( إِذْ اٴَخْرَجَہُ الَّذِینَ کَفَرُوا) ۔
البتہ کفار کا ارادہ انہیں مکہ سے خارج کرنے کا نہیں تھا بلکہ وہ آپ کو قتل کرنے کا مصمم ارادہ کرچکے تھے لیکن ان کے کام کے نتیجے میں چوں کہ پیغمبر خدا کو مکہ سے باہر نکل جانا پڑا لہٰذا یہ نسبت ان کی طرف دی گئے ہیں ۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: یہ اس حالت میں تھا کہ آپ دو میں سے دوسرے تھے ( ثَانِیَ اثْنَیْنِ)، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آپ کے ساتھ صرف ایک ہی شخص تھا یہ چیز اس پر خطر سفر میں آپ کی انتہائی تنہائی کی نشاندہی کرتی ہے، ابوبکر آپ کے ہمسفر تھے، جس وقت ان دونوں نے غار (یعنی غاع ثور ) میں پناہ لی( إِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ )، اس موقع پر پیغمبر کے ساتھی اور ہمسفر کو خوف اور وحشت نے گھیر رکھا تھا اور پیغمبر نے اسے تسلی دی اور کہا غم نہ کھاؤ خدا ہمارے ساتھ ہے (إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا)، اس وقت اللہ نے سکون اطمینان کی روح آپ پر نازل کی جو حساس اور پر خطر لمحات میں اپنے پیغمبر پر نازل کیا کرتا تھا (فَاٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَہُ عَلَیْہِ)، اور آپ کی ایسے لشکروں سے مدد کی جنہیں تم نہیں دیکھ سکتے تھے،( وَاٴَیَّدَہُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْھَا) ۔
یہ غیبی لشکر ہوسکتا ہے کہ ان فرشتوں کی طرف اشارہ ہو جو خوف وخطر سے بھر پور اس سفر میں پیغمبر کے محافظ ہوں یا ان کی طرف جو بدر، حنین وغیرہ کے میدانوں میں آپ کی مدد کے لئے آئے تھے ۔
آخر میں خدا تعالیٰ نے کفار کے طرز عمل ، ہدف اور مکتب کو پست قرار دیا ہے اور الٰہی منصوبہ بندی اور کلام کو بلند قرار دیا ہے( وَجَعَلَ کَلِمَةَ الَّذِینَ کَفَرُوا السُّفْلَی وَکَلِمَةُ اللهِ ھِیَ الْعُلْیَا)اور ساتھ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کی سازش ناکام ہوکر رہ گئی ، ان کے بیہودہ مذہب کی بساط الٹ گئی ، خدا کا نور ہر جگہ آشکار ہوا اور چمکنے لگا اور پیغمبر اسلام کو تمام جہات میں کامیابی نصیب ہوئی، ایسا کوئی نہ ہوتا جب کہ ”خداقادر بھی ہے اور حکیم ودانا بھی“ وہ اپنی حکمت کے ذریعے اپنے پیغمبر کو کامیابی کی راہوں کی نشاندہی کرتا ہے اور اپنی قدرت سے ان کی مدد کرتا ہے ( وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ) ۔

 


۱۔ادبی نقطہ نظر سے اس جملے میں کچھ محذوف ہے اور اصل میں یہ اس طرتھا” إِلاَّ تَنصُرُو ینَصَرَہُ اللهُ“کیوں کہ فعل ماضی جس کا مفہوم گذشتہ زمانے میں واقع ہوچکا ہو، جزائے شرط نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ فعل ماضی ایسا ہے جو مضارع کا معنی دیتا ہو ۔
 
داستان یار غارچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma