عالَم ملائکہ میں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
۱۔ ملائکہ کیسے ہوتے ہیں؟!آٹھواں حصّہ

اس خطبہ میں گذشتہ حصّوں کے آسمانوں اور کائنات کی تخلیق کے سلسلہ میں بحث وگفتگو کے بعد امام علیہ السلام خطبہ کے اس حصّہ میں آسمانی موجودات اور عالَم بالا کے فرشتوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور مختصر وگویا عبارتوں میں فرشتوں کی اقسام، ان کی صفات، خصوصیات اور ان کے اعمال کے بارے میں بات کرتے ہیں، نیز ان کے وجود کی بناوٹ اور اُن کی معرفت کے بلند درجات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں، حقیقت میں خطبہ کا یہ حصّہ، مختلف زاویوں سے فرشتوں کی پہچان کرانے سے مربوط ہے، جس میں حضرت(علیه السلام) ارشاد فرماتے ہیں: پھر خداوندعالَم نے بلندترین آسمان کو شگافتہ کیا (ثُمَّ فَتَقَ مَابَیْنَ السَّمَوَاتِ الْعُلَا) ۔(۱)
اس عبارت سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ آسمانوں کے درمیان فاصلے پائے جاتے ہیں، جو شروع میں ایک دوسرے جُڑے ہوئے تھے پھر بعد میں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور یہ بات ”بطلمیوس“ کے علم نجوم کے بالکل برخلاف ہے جس میں بیان ہوا تھا کہ آسمان پیاز کے چھلکوں کی طرح ایک دوسرے کے اوپر قائم ہیں اور ان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے ۔
اس کے بعد امام علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: ”خداوندعالَم نے ان فاصلوں کو طرح طرح کے فرشتوں سے بھردیا ہے“ (فَمَلَاٴَھُنَّ اٴَطْوَارا (۲) مِنْ مَلَائِکَتِہِ) ۔(۳)
”خطبہ اشباح“ (خطبہ ۹۱) میں بھی ہم پڑھتے ہیں: ”وَمَلَاٴَ بِھِمْ فُرُجَ فِجَاجِھا وَحَشَابھم فُتُوقَ اٴَجوائِھَا؛ان (فرشتوں) کے ذریعہ آسمانوں کے تمام فاصلوں کو بھردیا اور خلاء کے فاصلوں کو اُن سے مالامال کردیا“۔
اسی خطبہ کے دوسرے جملہ میں ہم پڑھتے ہیں: ”ولیس فی اٴطباق السماء موضِعُ اِھَاب اِلَّا وَعَلیہِ مَلَک ساجِد اوساعٍ حافد؛تمام آسمانوں میں ایک چوپائے کی کھال کے برابر بھی جگہ نہیں ملے گی مگر یہ کہ اس میں کوئی فرشتہ سجدے میں سر رکھے ہوئے ہے، یا تیزی سے کسی کام کی جستجو میں مصروف ہے“۔
پھر حضرت(علیه السلام) نے انواع واقسام یا دوسرے لفظوں میں فرشتوں کے طور طریقوں کو بیان کیا اور انھیں چار گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے:
پہلی قسم کے فرشتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو عبادت میں مصروف ہیں، انھیں بھی چند گروہوں میں تقسیم فرماتے ہیں: ”ایک گروہ کے فرشتے ہمیشہ سجدہ کی حالت میں رہتے ہیں، رکوع نہیں کرتے“ (مِنْھُمْ سُجُود(4) لَا یَرْکَعُونَ) ۔
”ایک گروہ ہمیشہ رکوع میں رہتا ہے قیام نہیں کرتا“ (وَرُکُوع لَایَنْتَصِبُونَ) ۔
”جبکہ ایک گروہ ہمیشہ قیام کی حالت میں ہے اور اس حالت سے ہرگز جدا نہیں ہوتا“ (وَصَافُّونَ(5) لَایَتَزَایَلُونَ) ۔
بعض علماء نے یہاں پر لفظ ”صافّون“ کو عبادت کے لئے صف باندھنے کے معنی میں لیا ہے اور بعض دوسرے علماء نے آسمان میں بال وپر پھیلانے کے معنی میں لیا ہے البتہ قرآن کی اس عبارت کو قرینہ بناتے ہوئے جو پرندوں کے بارے میں آئی ہے جس میں خداوندعالَم ارشاد فرماتا ہے: <اٴَوَلَمْ یَرَوْا إِلَی الطَّیْرِ فَوْقَھُمْ صَافَّاتٍ (کیا انھوں نے اپنے سروں کے اوپر اُن پرندوں کو نہیں دیکھا جو پر پھیلائے ہوئے ہیں)(6)
یہ بھی امکان پایا جاتا ہے کہ اس سے منظم صفوں میں کھڑے ہوکر فرمان کی اطاعت اور احکام کی بجاآوری کے لئے تیار ہونا مراد ہو۔
لیکن پہلا احتمال بہرحال پہلے اور بعد کے جملوں کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے، حقیقت میں جیسے ہماری عبادتوں میں عمدہ طور پر تین حالت ہوتی ہیں، قیام، رکوع اور سجود، اُن میں سے بھی ہر گروہ انہی تین عبادتوں میں سے کسی ایک عبادت میں غرق رہتا ہے ۔
صافّون“ کا لفظ یا فرشتوں کی منظم صفوں کی طرف اشارہ ہے، یا ان میں سے ہر ایک کے منظم قیام کی طرف، صحیح وہی ہے جو متقین کے بارے میں دیئے گئے خطبہ ”ہمام“ میں آیا ہے، حضرت(علیه السلام) فرماتے ہیں: ”راتوں کو قیام کی حالت میں رہتے ہیں، اپنے پیروں کو ایک دوسرے ملائے ہوئے ہیں اور تلاوت قرآن میں مصروف رہتے ہیں“ (وَاٴَمّا اللَّیل فَصَافّون اٴَقْدَامَھُمْ تالینَ لِاَجْزَاء القُرآنِ) ۔(7)
”دوسرے گروہ کے فرشتے جو ہمیشہ تسبیح الٰہی میں مصروف ہیںاور ہرگز خستہ حال نہیں ہوتے ہیں“ (وَمُسَبِّحُونَ لَایَسْاٴَمُونَ) ۔
اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک علیحدہ گروہ ہے جو اُن تین گروہوں سے بالکل جدا ہے جو سجدے، رکوع اور قیام کی حالت میں رہتے ہیں (اگرچہ نہج البلاغہ کے بعض شارحین نے یہ بھی امکان دیا ہے کہ تسبیح الٰہی کرنے والے فرشتے بھی، وہی مذکورہ گروہ ہیں اور بعض حدیثوں سے بھی ان کے اس امکان کی تائید کی جاسکتی ہے، اس لئے کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم سے سوال کیا گیا کہ فرشتوں کی نماز کیسی ہے؟ آنحضرت نے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور حضور اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم سے عرض کیا: ”اِنَّ اٴَھْلَ السَّمَاءِ الدُّنْیَا سُجُودٌ اِلیٰ یَومِ الْقِیَامَةِ یَقُولُونُ سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوتِ وَاٴَھْلُ السَّمَاءِ الثَّانِیَةِ رُکُوعٌ اِلیٰ یَومِ الْقِیَامَةِ یَقُولُونَ سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّةِ وَالْجَبَرُوتِ وَاٴَھْلُ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ قِیَامٌ اِلیٰ یَومِ الْقِیَامَةِ یَقُولُونُ سُبْحَانَ الْحَیِّ الَّذِی لَایَمُوت؛پہلے آسمان والے قیامت تک سجدے میں ہیں اور ہمیشہ کہتے ہیں کہ پاک ومنزہ ہے وہ ذات جو ملک وملکوت کی مالک ہے، دوسرے آسمان والے قیامت تک ہمیشہ رکوع میں رہیں گے جو کہتے ہیں کہ پاک ومنزہ ہے وہ الله جو صاحب عزّت وجبروت ہے اور تیسرے آسمان والے قیامت تک ہمیشہ قیام کی حالت میں ہیں اور کہتے ہیں پاک ومنزہ ہے وہ پروردگار جو ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی بھی نہیں مرے گا“) ۔(8)
اب رہا یہ سوال کہ کیا ان کے سجود، رکوع اور قیام سے مراد وہی ہمارے جیسے سجود، رکوع اور قیام کے طرز کے اعمال ہیں یا یہ فرشتوں کے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے اُن کی عبادت اور خضوع کے مراحل کی طرف اشارہ ہے، بہرحال کہا جاسکتا ہے کہ اگر فرشتوں کو صاحب جسم (جسم لطیف) سمجھیں کہ اُن کے بھی ہاتھ، پیر، چہرہ اور پیشانی ہوتی ہے تو پہلے معنی زیادہ مناسب رہیں گے اور ان کے لئے جسم کے قائل نہ ہوں یا جسم کے قائل ہوں لیکن ہماری طرز کا جسم نہیں، تب دوسرے معنی زیادہ مناسب رہیں گے ۔ (بہرحال جب نکات اور گوشوں کے بارے میں گفتگو کی جائے تو اُسی وقت اس سلسلہ میں بھی گفتگو کریں گے) ۔
بہرحال اس مجموعہ کا کام ہمیشہ خداوندعالَم کی عبادت، تسبیح وتقدیس کرنا ہے، گویا اس کے علاوہ انھیں کوئی کام نہیں ہے وہ فقط عبادت سے عشق کرتے ہیں، حقیقت میں یہ فرشتے، پروردگار عالَم کی عظمت، بلند مرتبہ اور اس بات کی نشانیاں ہیں کہ مالک کائنات خالق اکبر کو عابدوں اور زاہدوں کی عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے دوسرے لفظوں میں ان فرشتوں کی تخلیق کا فلسفہ اور مقصد ممکن ہے یہی ہو کہ انسان اپنی عبادت پر مغرور نہ ہوسکے اور جان لے کہ بافرض محال اگر خلّاق کون ومکان کو عبادت کی ضرورت ہوتی تو عالَم بالا کے ملائکہ ہر جگہ اس کی عبادت میں مصروف ہیں تاکہ کرہٴ زمین پر بسنے والے تصور نہ کریں کہ اس کی کبریائی میں ان کے عبادت کرنے یا نہ کرنے کا کوئی اثر ہوتا ہے اور اگر سب لوگ کافر بھی ہوجائیں تو بھی اس کے دامن کبریائی پر کسی طرح کی گرد تک نہیں بیٹھے گی: <اِن تَکْفُرُو فَاِنَّ اللهَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ(9) ۔
اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام فرشتوں کے اس مجموعہ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”نہ نیند اُن کی آنکھوں کو بند کرتی ہے، نہ عقل انھیں سہو ونسیان میں گرفتار کرتی ہے، نہ ان کے بدن میں سسی پیدا ہوتی ہے اور نہ نسیاں کی غفلت کا ان کے اوپر غلبہ ہوتا ہے“ (لَایَغْشَاھُمْ نَومُ الْعُیُونِ، وَلَاسَھْوُ الْعُقُولِ، وَلَافَتْرَةُ الْاٴَبْدَانِ، وَلَاغَفْلَةُ النِّسْیَانِ) ۔
ان کے برخلاف اگر انسان عبادت کا کوئی ایک عمل باربار انجام دے تو آہستہ آہستہ مذکورہ مشکلات میںگرفتار ہوجائے گا، آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیںگی، بدن میں سستی پیدا ہوجائے گی اور سہو نسیان کا غلبہ ہوجائے گا لیکن عبادت کرنے والے ملائکہ ان مشکلات میں ہرگز مبتلا نہیں ہوتے ۔
وہ اس قدر عبادت کے عاشق اور مناجات وتسبیح میں غرق ہوتے ہیں کہ پھر انھیں ہرگز نیند،غفلت اور سستی نہیں ہوتی ۔
دوسرے لفظوں میں اس مہم وظیفہ کی انجام دہی میں، جن چیزوں کی وجہ سے کوتاہی پیدا ہوتی ہے اُن میں سے کوئی چیز بھی ان فرشتوں کے اندر نہیں پائی جاتی ہے، بہرحال اس کوتاہی اور تقصیر کا سبب کبھی تھکن ہوتی ہے، کبھی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ، کبھی عقلوں کی بھول چوک، کبھی بدن کی سستی اور کبھی غفلت ونسیان اور چونکہ ان میں سے کوئی بات بھی اُن کے اندر نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا اپنے پروردگار کی عبادت میں وہ کبھی بھی سستی نہیں کرتے ۔
پھر حضرت(علیه السلام)، فرشتوں کے دوسرے گروہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اُن میں سے بعض وحی الٰہی کے امین اور پیغمبروں کی طرف اس کی گویا زبان ہیں جو اس کے فیصلوں اور احکام کو برابر لاتے رہتے ہیں“ (وَمِنْھُمْ اُمَنَاءُ عَلیٰ وَحْیِہِ، وَاٴَلْسِنَةِ اِلیٰ رُسُلِہِ، وَمُخْتَلِفُونَ بَقَضَائِہِ وَاٴَمْرِہِ) ۔
اصل میں یہی ملائکہ، پروردگار عالَم اور اس کے رسولوں کے درمیان، واسطہ اور اس کی وحی کے ترجمان ہیں ۔
اس عبارت سے استفادہ ہوتا ہے کہ فقط جبرئیل ہی وحی الٰہی کے سفیر ہیں بلکہ حقیقت میں وہ الٰہی سفیروں کے سردار ہیں ۔
قرآن کریم میں بھی فرشتوں کے اس مجموعہ کی طرف اشارہ ہوا ہے ، کبھی ارشاد ہوتا ہے: <قُلْ نَزَّلَہُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ۔”کہدو اس (قرآن) کو بیشک پروردگار کی جانب سے روح القدس نے نازل کیا ہے“۔(10)
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: <قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلیٰ قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللهِ”اے میرے حبیب کہدیجئے جو جبرئیل کا دشمن ہوگا (حقیقت میں وہ خدا کا دشمن ہے) چونکہ اُس نے الله کے حکم سے قرآن کو آپ کے قلب پر اُتارا ہے“۔(11)
کبھی فرشتوں کے حاملان وحی گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: <یُنَزِّلُ الْمَلَائِکَةَ بِالرُّوحِ مِنْ اٴَمْرِہِ عَلیٰ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ ”خداوندعالم فرشتوں کو ارواح الٰہی کے ساتھ اپنے حکم سے، اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے نازل کردیتا ہے“۔(12)
اسلامی احادیث وروایات اور ”نہج البلاغہ“ کے بعض دوسرے خطبوں میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
توجہ رکھنا چاہئے کہ محل بحث وگفتگو جملوں میں، فیصلہ اور امر الٰہی سے مراد وہی فرامین اور دینی وشرعی احکام ہیں، تکوینی فیصلہ اور حکم نہیں جو ”نہج البلاغہ“ کے بعض شارحین نے احتمال دیا ہے چونکہ یہ بات پہلے مذکورہ جملوں (کہ جن میں وحی الٰہی کے امین ہونے کی بات آئی ہے) سے مناسب اور ہماہنگ نہیں ہے جبکہ لفظ ”مختلِفُونَ“ جس کا مصدر ”اختلاف“ ہے یہاں پر رفت وآمد کے معنی میں ہے ۔
اس کے بعد امیر بیان(علیه السلام)، فرشتوں کے تیسرے گروہ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ان میں سے ایک گروہ کے فرشتے، اس کے بندوں کے محافظ اور اس کی بہشت کے دربان ہیں“ (وَمِنْھُمُ الْحَفَظَةُ لِعِبَادِہِ وَالسَّدَنَةُ(13) لِاٴَبْوَابِ جِنَانِہِ) ۔
”حفظة“ ، ”حافظ“ کی جمع ہے اور حفاظت کرنے والوں کے معنی میں ہے، اس مقام پر اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں: ایک، بندوں کے وہ محافظ جو اُن کے اعمال پر نگراں ہیں اور ان کے اعمال لکھتے ہیں جس کی طرف سورہٴ طارق کی چوتھی آیت میں اشارہ ہوا ہے: <إِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَیْھَا حَافِظٌ”ہر شخص کے اوپر ایک محافظ رکھا گیا ہے“۔ اسی طرح سورہٴ انفطار کی دس اور گیارہویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں: <وَاِنَّ عَلَیکُمْ لَحَافِظِینَ، کِرَاماً کَاتِبِینَ”تمھارے اوپر محافظ رکھے گئے ہیں، ایسے شریف نگراں جو ہمیشہ تمھارے اعمال لکھتے رہتے ہیں“۔
دوسرے، فرشتوں کا وہ گروہ جو بندوں کا محافظ ہے اور انھیں آفتوں، بلاوٴں اور مختلف حادثوں سے بچاتا ہے کہ اگر وہ نہ ہوں تو انسان ہمیشہ نابودی کے دہانے پر رہتا ہے، جیسا کہ سورہٴ رعد کی گیارہویں آیت میں آیا ہے پروردگار عالَم ارشاد فرماتا ہے: <لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ ”انسان کے لئے کچھ محافظ بنائے گئے ہیں جو انھیں پے درپے آگے اور پیچھے سے الٰہی (غیر حتمی) حادثوں سے بچاتے ہیں“۔
 


۱۔ ”العلاء“ اعلیٰ کی موٴنث ”علیا“ کی جمع ہے جس کے معنی بلند اور اشرف کے ہوتے ہیں ۔
۲۔ ”اطوار“، ”طَوْر“ (بروزن قول) کی جمع ہے جس کے معنی صنف اور حد وحالت کے بھی آئے ہیں ۔
۳۔ صحیح ہے کہ عبارت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ”ھُنَّ“ کی ضمیر آسمانوں کی جانب پلٹی ہے، لیکن ”ثم فتق“ اور ”ملاٴھُنَّ“ میں فاء تفریع کے قرینہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے مراد آسمانوں کے درمیانی فاصلے ہیں ۔
4۔ ”سجود“ ”ساجد“(سجدہ کرنے والا) کی جمع ہے جیسا کہ ”رکوع“ ”راکع“ (رکوع کرنے والے) کی جمع ہے ۔
5۔ ”صافّون“ ”صافّ“ (بروزن حادّ) کی جمع اور ”صف“ سے مشتق ہے، اس کے معنی مساوات کے ہوتے ہیں، اصل میں اسے ”صَفَف“ سے لیا گیا ہے جو صاف زمین کے معنی میں ہے ۔
6۔ سورہٴ ملک: آیت۱۹.
7۔ نہج البلاغہ: خطبہ۱۹۳.
8۔ بحارالانوار: ج۵۹، ص۱۹۸.
9۔ سورہٴ زمر: آیت۷.
10۔ سورہٴ نحل: آیت۱۰۲.
11۔ سورہٴ بقرہ:آیت۹۷.
12۔ سورہٴ نحل: آیت۲.
13۔ ”سَدَنہ“، ”سادن“ کی جمع ہے، خدمتگار اور دربان کے معنی میں ہے ۔

۱۔ ملائکہ کیسے ہوتے ہیں؟!آٹھواں حصّہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma