۱۔ عصر حاضر کے نظریات پر اس کلام کی اجمالی تطبیق

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
۲۔ تخلیق کائنات کی کیفیتآغاز خلقت میں طوفان کا کردار

تخلیق کائنات کے سلسلہ میں دور حاضر کے دانشمند حضرات کے کچھ خاص نظریات ہیں، جو مفروضات کی حد سے آگے نہیں بڑھتے اس لئے کہ اربوں سال پہلے کوئی بھی نہیں تھا جو تخلیق کائنات کی کیفیت کا مشاہدہ کرتا، لیکن بہرحال کچھ ایسے قرائن اور نشانیاں موجود ہیں جو بعض مفروضوںکی بطور دقیق تائید کرتی ہیں ۔
مولائے کائنات کے کلام میں جو عبارتیں آئی ہی وہ مکمل طور پر مشہور مفروضوں کے اوپر منطبق ہونے کی قابلیت رکھتی ہیں، ذیل میں یہ عبارتیں قارئین کی نظروں سے گذریں گی البتہ کوئی ایسا دعویٰ کئے بغیر کہ مولا کی مراد یہی رہی ہو۔
جیسا کہ گذشتہ بیانات کی شرح اور تفسیر کے ذیل میں ہم نے بیان کیا ہے کہ شروع میں یہ کائنات، گیس کے کثیر ذخیرہ کادبا ہوا ایک ڈھیر تھا جو بہنے والی چیزوںسے بہت زیادہ مشابہ تھا کہ اُسے ”پانی“ کہنا بھی صحیح ہے ار ”دخان“ (دھویں) کا کام دینا میں درست ہے، جیسے قرآن مجید کی آیات میں آیا ہے ۔
خالق کائنات نے اُس کے اوپر دو عظیم طاقتوں کو مسلط کیا جنھیں مذکورہ کلام میں دو ہواوٴں کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے:
قوّت جاذبہ ، جو اُسے ایک دوسرے سے قریب رکھتی اور منتشر ہونے سے حفاظت کرتی تھی اور قوّہٴ دافعہ جو اپنے چاروں طرف گردش کرنے اور محور سے گریز کرنے والی قوت کو وجود دینے کے نتیجہ میں، اُس کو باہر کی جانب کھینچتی تھی، یہ وہی دوسری تیز ہوا ور شدید طوفان تھا ۔
اگر ہم اس بات کو قبول کرلیں کہ کائنات کی دائرہ نما پہلی گردش، متغیّر کیفیت کی حامل تھی، کبھی شدّت اختیار کرتی اور کبھی نرمی اختیار کرلیتی تھی، تو یہ طبیعی ہے کہ اُس سیّال گیس کے ذخیرے میں عظیم لہریں اور خوفناک موجیں پیدا ہوتی تھیں، وہ موجیں ہمیشہ ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوتی اور پھر اس کے اندر سرایت کرجاتی تھیں ۔
آخرکار ان میں سے جو موجیں ہلکی اور کمترین وزن رکھتی تھیں ”جسے مولا کے کلام میں جھاگ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے“ باہر کی فضا میں اوپر آجاتی تھیں، (یاد رہے کہ لفظ ”زَبَد“ پانی کے اوپر آنے والے جھاگ کو بھی کہا جاتا ہے اور اس چکنائی اور مکھن کو بھی کہا جاتا ہے جو ہلکا ہونے کی وجہ سے متھینی کے اندر اوپر کی طرف نمایاں ہوجاتا ہے) ۔
اس طرح اُ س دائرہ نما گردش میں شدّت آگئی اور اُس بڑے ڈھیر کے بہت سے عظیم حصے اور اجزاء جدا ہوکر فضا میں پھیل گئے، جن میں زیادہ شدّت تھی وہ زیادہ بلندی پر پہنچ گئے اور جن میں شدّت کم تھی وہ نچلی جگہوں پر ٹھہرگئے ۔
وہ حصّے جو دور مقامات پر پہنچ گئے تھے، قوہٴ جاذبہ کی وجہ سے پھر بھی مکمل طور پر فرار یا جدانہ ہوسکے اور ایک محفوظ چھت کی صورت میں قرار پائے نچلی سطح کا حصّہ وہ کمزور موجیں تھیں جنھیں مولا نے مکفوف موج کے عنوان سے تعبیر فرمایا ہے ۔
سات آسمان (جن کے بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے) اُس پھیلی ہوئی فضا میں ظاہر ہوئے وہ بھی اس طرح کہ نہ کوئی ستون تھا جو انھیں ٹھہرا سکے اور نہ کوئی کیل تھی جو انھیں روک سکے اور نہ ہی کوئی رسی تھی جو انھیں باندھ سکے، فقط جاذبہ اور دافعہ قوت کا تعادل تھا اور جو اُنھیں ایسی جگہ پر روکتا اور اُن کے اپنے مدار اور مرکز پر گھماتا تھا ۔
اس زمانے میں فضا، چھوٹے بڑے کُرات (گول افلاک) سے بھری ہوئی تھی، ان موجوں کے پھیلے ہوئے ٹکڑے باہر کی جانب منتشر ہوتے اور آہستہ اہستہ، قوہٴ جاذبہ کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، بڑے کرات کی طرف کھینچ لئے جاتے تھے، فضا صاف ہوئی اور ستارے جگمگانے لگے، نجوم اور کواکب، زینت بخشنے لگے، سورج نے ضوفشانی کی اور چاند نے چمکنے کی ابتدا اور تابناکیوں کا آغاز کیا اور سب اپنے اپنے مدار میں گردش کرنے لگے ۔
تخلیق کائنات کے بارے میں بعض مفروضوں میں آیا ہے کہ منظوموں، کہکشانوں اور آسمانی کرات کے سب سے پہلے کے عظیم ڈھیر سے جدا ہونے کا سبب، اندرونی عظیم دھماکہ تھا جس کا سبب دقیقاً کسی کو بھی معلوم نہیں ہے، اس عظیم دھماکے نے اس گیس کے عظیم ڈھیر اور ذخیرے کے اکثر حصّوں کو فضا میں اُچھال کر بکھیر دیا اور منظوموں اور کرات کو بنادیا ۔
ممکن ہے مولائے کائنات امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام میں یہ عبارت ”تیز آندھی اور دوسرا طوفان چلنے لگا جس کا سرچشمہ کہیں دور واقع تھا اور اس نے پانی کو شدّت سے الٹ پلٹ دیا یہاں تک کہ اس کے اوپر جھاگ نمودار ہوگیا“ اسی عظیم دھماکے کی طرف اشارہ ہو جو وہ سب سے پہلے مادّے کی گہرائیوں سے وجود میں آیا ہو۔
بہرحال جیسے اوپر بیان ہوچکا ہے، مقصد یہ ہے کہ اس خطبہ کی عبارتوں کو، تخلیق کائنات کے بارے میں موجودہ اندازوں اور مفروضات پر تطبیق دینے کے سلسلہ میں وضاحت کریں، کوئی یقینی قضاوت یا فیصلہ نہیں ۔

۲۔ تخلیق کائنات کی کیفیتآغاز خلقت میں طوفان کا کردار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma