۲۔ ناآگاہ افراد کا خدا کے صفات کی حقیقت سے منحرف ہونا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
۳۔ اس کی ذات پاک سے ذاتی اور زمانی حدوث کی نفی۱۔ مخلوق اور خالق کا رابطہ اور ”وحدت وجود“ کا مسئلہ!

اگر مولا علی(علیہ السلام) کے اس حصہ کے کلام میں غور و خوض کریں تو اصل توحید اور خدا کے صفات کی حقیقت سے منحرف ہونے کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور اور انسان ان آیات ”و نحن اقرب الیہ من حبل الورید” (ہم انسان کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں (1)) اسی طرح ” و ھو معکم اینما کنتم” (2) ”و ما یکون من نجوی ثلاثة الا ھو رابعھم” (کہیں بھی تین آدمیوں کے درمیان راز کی بات نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے (3))، ”اللہ نور السموات والارض” (اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (4))، اور ” و اعلموا ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ“ (اور یاد رکھو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے (5)) کے مفہوم سے بخوبی آگاہ ہوجاتا ہے۔
یہ نکتہ وحدت و جود سے متعلق بحثوں کو(اس کے صحیح معنی میں) کامل کرنے کے علاوہ خدا کے صفات میں ہر طرح کی کج فہمی کے راستہ کو بند کردیتا ہے۔
لیکن حیرت و تعجب کی وادی میں گمشدہ افراد ایسے مسائل کو تلاش کرنے لگے جس سے انسان کو شرم آتی ہے۔
انہی میں سے ایک گروہ ”مجسمہ“ کا ہے یہ لوگ خدا وند عالم کے لئے ان صفات کے قائل ہوگئے جو صفات ممکنات میں پائے جاتے ہیں اور اس کے لئے جسم و جسمانیت تک کے قائل ہوگئے، یہی نہیں بلکہ اس کے لئے شکل و صورت ، ہاتھ پیر ، گھنگھریالے بال اور زمان و مکان کے قائل ہوگئے، ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ خدا وند عالم اس دنیا میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور ایک گروہ کاعقیدہ ہے کہ خدا کو فقط آخرت میں دیکھا جاسکتاہے۔
”محقق دوانی“ جن کا شمار مشہور فلاسفہ میں ہوتا ہے (بحار الانوار کے نقل کے مطابق) کہتے ہیں:” اہل تشبہ کا ایک گروہ خدا کو حقیقت میں جسم سمجھتا ہے ، بعض اس کو گوشت اور خون سے مرکب جانتے ہیں اور بعض اس کو چمکتا ہوا نور ، چاندی کے سورج جیسا سفید رنگ جس کی لمبائی خود اس کے ہاتھ سے سات بالشت ہے ، بعض اس کو انسان کی صورت جیسا اور بعض اس کو بغیر ڈاڈھی والا جوان، گھنگھریالے بال اور بعض اس کو بوڑھے انسان کی شکل میں سیاہ اور سفید بالوں والا اور بعض اس کو (دوسرے تمام اجسام کی طرح نہیں) جسم سمجھتے ہیں اور بعض ان جیسے دوسرے باطل اور بے اساس عقاید کے قائل ہوگئے ہیں۔(6) ۔
اس بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی روایات یا بعض اصحاب پیغمبر (ص) سے خداوند عالم کیلئے عجیب جسمانی اوصاف نقل کئے ہیں (جب کہ یقینا یہ روایات جعلی ہیں) ۔ ایک حدیث میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا: کیا محمد (ص) نے اپنے پروردگار کا مشاہدہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، سوال کیا گیا: خدا کو کیسے دیکھا؟ کہا: ایک سرسبز و شاداب باغ میں ایک سونے کی کرسی پر جس کا فرش بہت خوبصورت تھا اور اس کو چار فرشتہ اٹھائے ہوئے تھے ،بیٹھے ہوئے دیکھا (7) ۔
اس کے علاوہ صحیح بخاری، سنن ابن ماجہ اور دوسری کتابوں میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں جن میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ خداوند عالم کو قیامت کے دن آنکھوں کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں (8) ۔ یہاںتک کہ بعض روایات میں تصریح کی ہے کہ اہل بہشت خدا کو دیکھیں گے جس طرح سے چودہویں کا چاند دکھائی دیتا ہے (9) ۔
ان احادیث کی وجہ سے بہت سے اہل سنت دانشور قیامت کے روز خدا وند عالم کے روٴیت کے قائل ہوگئے اور شدت کے ساتھ وہ اس سے دفاع کرتے ہیں، جبکہ قرآن مجید صراحت کے ساتھ کہتا ہے: لا تدرکہ الابصار(کوئی بھی آنکھ خدا کو نہیںدیکھ سکتی) (10) ۔ اور حضرت موسی سے فرمایا: ”لن ترانی” (تم مجھے کبھی بھی نہیں دیکھ سکتے (11)) ۔ (اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ ”لن“ ہمیشہ ، ابد کی نفی کیلئے استعمال ہوتا ہے) ۔
خطبہ اشباح میں یہ مسئلہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے وہاں پر آپ فرماتے ہیں:
والرادع اناسی الابصار عن ان تنالہ او تدرکہ او تبصرہ“ ۔ : وہ آنکھ کی پتلیوں کو (دور ہی سے)روک دینے والا ہے کہ وہ اسے پاسکیں یا اس کی حقیقت معلوم کرسکیں۔
دوسرے خطبہ میں فصیح و بلیغ زبان میں فرماتے ہیں: ”الحمدللہ الذی لا تدرکہ الشواھد و لا تحویہ المشاھد و لا تراہ النواظر و لا تحجبہ السواتر“ ۔ساری حمد و ستائش اس اللہ کے لئے ہے جسے حواس پا نہیں سکتے ، نہ جگہیں(مکان) اس کو گھیرسکتی ہیں، نہ آنکھیں اس کو دیکھ سکتی ہیں،نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں(12) ۔
ان عقائد کے علاوہ عقل کے صریح حکم کے مخالف ہے،کیونکہ اگر خدا مشاہدہ کے قابل ہو تو یقینااس کے لئے جسم کا ہونا بھی ضروری ہوگا اور وہ کسی جگہ یا کسی سمت میں ہوگا ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ محدود ہوجائے گا اور اس طرح وہ واجب الوجود ہونے سے تنزلی کی طرف آجائے گااور ممکنات کے زمرہ میں آجائے گا۔
یہاں پر آکر معلوم ہوتا ہے کہ امیر المومنین(علیہ السلام) کی لطیف تعبیرات کس طرح آفتاب اور مہتاب کی طرح چمک رہی ہیں اور حقائق کے چہرہ کو منور کررہی ہیں اور باطل و خرافاتی عقاید کو نابود کررہی ہیں ، امیر المومنین (علیہ السلام)ہمیں توحید اور خدا کے صفات کی شناخت کا خوبصورت اور آسان درس دے رہے ہیں۔
آپ ہمیشہ افراطی اور تفریطی افراد کے سامنے خود نمائی کرتے ہیں ۔ بعض افراد تو تشبیہ کے قائلین کے برخلاف خداکو جسم اور جسمانیت سے نیچے لے آئے ہیں۔اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کی شناخت ممکن نہیں ہے ، نہ اس کی حقیقت اور نہ اس کے صفات کی شناخت۔ اور ہم خدا کے صفات سے منفی مفاہیم کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ۔ جب کہتے ہیں کہ وہ عالم ہے تو اس سے یہ بات سمجھ میں اتی ہے کہ وہ جاہل نہیں ہے ، لیکن اس کا عالم ہونا ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور اس طرح وہ انسان کے سب سے بڑے افتخار یعنی معرفة اللہ اور شناخت خدا کو فراموشی کے سپرد کردیتے ہیں اور ایسے راستہ کی طرف قدم بڑھاتے ہیں جس میں سرا سر ظلمت، تاریکی اور قرآن مجید کی تعلیم کے برخلاف ہے، قرآن مجید کہتا ہے کہ خدا کی شناخت کے راستہ ہمارے لئے کھلے ہوئے ہیں۔
اس بات کو نہج الباغہ کی دوسری بہترین تعبیر کے ساتھ ختم کرتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا: لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ ولم یحجبھا عن واجب معرفتہ فھو الذی تشھد لہ اعلام الوجود علی اقرار قلب ذی الجحود تعالی اللہ عما یقول المشبھون بہ والجاحدون لہ علوا کبیرا۔
اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حد و نہایت پر مطلع نہیں کیا اور ضروری مقدار میں معرفت حاصل کرنے کے لئے ان کے آگے پردے بھی حائل نہیں کئے وہ ذات ایسی ہے کہ جس کے وجود کے نشانات اس طرح اس کی شہادت دیتے ہیں کہ (زبان سے) انکار کرنے والے کا دل بھی اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اللہ ان لوگوں کی باتوں سے بہت بلند و برتر ہے جو مخلوقات سے اس کی تشبیہ دیتے ہیں، اور اس کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔(13) ۔
افراط و تفریط (تشبیہ و تعطیل) کے درمیان ،معرفت اور شناخت خدا کا بہترین راستہ وہی ہے جس کو امام علی علیہ السلام نے مذکورہ تعبیرات میں بیان کیا ہے۔
خداوند عالم کے صفات سے متعلق اور اس کی صحیح معرفت و شناخت کو امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے دوسرے خطبوں میں بہت سادہ جملوں میں بیان فرمایا ہے جو اس خطبہ کی بحثوں کو مکمل کرتے ہیں ، انشاء اللہ اس کی وضاحت وہیں پر بیان کریں گے۔


1۔ سورہٴ ق، آیت ۱۶۔
2۔ سورہ ٴ حدید، آیت ۴۔
3۔ سورہٴ مجادلہ، آیت ۷۔
4۔ سورہٴ نور، آیت ۳۶۔
5۔ سورہ انفال، آیت ۲۴۔
6۔ بحار الانوار، جلد ۳، ص ۲۸۹۔
7۔ توحید ابن خزیمہ، صفحہ ۲۱۷ (”بحوث فی الملل والنحل“کتاب کے نقل کے مطابق، جلد ۱، ص ۱۴۵۔
8۔ صحیح بخاری، ج ۶، ص ۵۶، تفسیر سورہ نساء اور سنن ابن ماجہ، ج۱،(مقدمہ۔ باب ۱۳۔ حدیث ۱۷۷) ۔
9۔ ان روایات کا مطالعہ کرنے کیلئے (جو کہ یقینا جعلی روایات ہیں) اور اسی طرح ان روایات کا جواب اور آیات ومعتبر روایت سے وہ دلیلیں جو کہتی ہیں کہ خدا کو آنکھوں کے ذریعہ نہیں دیکھا جاسکتا ، نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں، ان کا مطالعہ کرنے کیلئے پیام قرآن تفسیر موضوعی کی چوتھی جلد ، ص۲۴۱ سے ۲۵۱ تک مراجعہ کریں۔
10۔ سورہ انعام، آیت ۱۰۳۔
11۔ سورہ اعراف، آیت ۱۴۳۔
12۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۹۱۔
13۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۸۵۔
14۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۴۹۔
۳۔ اس کی ذات پاک سے ذاتی اور زمانی حدوث کی نفی۱۔ مخلوق اور خالق کا رابطہ اور ”وحدت وجود“ کا مسئلہ!
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma