جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
تیسرا حصہسوال

ایک باریک نکتہ (جو یہاں بھی مشکل کو آسان کرے گا اور دوسرے ابواب میں بھی)کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کاجواب واضح ہوجائے گااور وہ یہ ہے کہ معرفت و شناخت کی دو قسمیں ہیں: معرفت اجمالی اور معرفت تفصیلی۔ دوسرے لفظوں میں شناخت کنہ ذات اور شناخت مبدا افعال۔
جس وقت اس دنیا اور ان تعجب خیز موجودات میں ان کی ظرافت اورعظمت کے ساتھ غور و فکر کرتے ہیں یا اپنے وجود میں جب غور وفکر کرتے ہیں تو اجمالا سمجھ جاتے ہیں کہ کوئی خالق، پیدا کرنے والااور اس کا کوئی مبداء ہے، یہ وہی علم اجمالی ہے جو خدا سے متعلق انسان کی شناخت کی قدرت کا آخری مرحلہ ہے(جتنا بھی اس دنیا کے اسرار و رموز سے آکاہ ہوں گے اتناہی اس کی عظمت سے آشنا ہوں گے اور معرفت اجمالی کی راہ میں قوی تر ہوتے جائیں گے)لیکن جس وقت اپنے آپ سے سوال کریں کہ وہ کیا ہے؟ اور کیسا ہے؟ اور اس کی ذات کی حقیقت کی طرف قدم بڑھائیں گے تو حیرت و سرگردانی کے علاوہ کچھ ہمارے ہاتھ نہیں لگے گا اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اس کی طرف کامل طور سے راستہ کھلا ہوا ہے اور کامل طور سے راستہ بند بھی ہے۔
اس مسئلہ کو ایک واضح مثال سے روشن کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ جاذبہ کی ایک قوت پائی جاتی ہے ، کیونکہ جس چیز کو بھی اوپر سے چھوڑا جائے وہ نیچے گرے گی اور زمین کی طرف جذب ہوگی اور اگر یہ جاذبہ نہ ہوتا تو زمین کے اوپر کسی بھی موجودکو آرام و سکون نہ ملتا۔
جاذبہ سے آشنائی ایسی چیز نہیں ہے کہ فقط دانشمند حضرات اس سے واقف ہیں یہاں تک کہ بچے اور کم عمر کے بچے بھی اس کو بخوبی درک کرتے ہیں ، لیکن حقیقت جاذبہ کیا ہے؟ کیا نامرئی امواج یا ناشناختہ ذرات یا کوئی اور طاقت ہے؟ اور تعجب آور بات یہ ہے کہ جاذبہ کی طاقت کو مادہ کے برخلاف ،ظاہرا یک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں زمان و وقت کی ضرورت نہیں ہے ،بخلاف نور کہ جس کی ہرکت مادہ کی دنیا میں سے زیادہ تیز ہے ، لیکن پھر بھی اس کو فضا میں منتقل ہونے کیلئے کبھی ایک نقطہ سے دوسرے نقط تک پہنچنے میں لاکھوں سال لگ جاتے ہیں۔ لیکن جاذبہ کی طاقت ایک لمحہ میں ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ کی طرف منتقل ہوجاتی ہے یا کم از کم اس کی سرعت اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جس کے بارے میں ہم نے سنا ہے۔
یہ کیسی طاقت ہے جس میں یہ آثار پائے جاتے ہیں؟ اس کی ذات کی حقیقت کیسی ہے؟ کسی کے بھی پاس اس کا واضح جواب موجود نہیں ہے۔
جب جاذبہ کی طاقت کے سلسلہ میں ہمارا علم فقط اجمالی ہے جو کہ ایک مخلوق ہے اور اس کے علم تفصیلی سے ہم بہت دور ہیں تو کس طرح جہان مادہ کے خالق اور ماورائے مادہ جو بے نہایت موجود ہے اس کی ذات کی حقیقت سے باخبر ہوسکتے ہیں؟!اس کے باوجود اس کو ہرجگہ حاضر و ناظر اور ہر موجود کے ساتھ اس دنیا میں مشاہدہ کرتے ہیں۔
با صد ہزار جلوہ برون آمدی کہ من
با صد ہزار دیدہ تماشا کنم تو را
” و من حدہ فقد عدہ“ ایک دقیق نکتہ کی طرف اشارہ ہے جومذکورہ کلام سے واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی خدا کو محدود سمجھے، تو وہ اس کے لئے عدد کا قائل ہوگیایا دوسرے لفظوں میں یہ کہاجائے کہ شریک کے وجود کو اس کے لئے ممکن سمجھا۔ کیونکہ جو چیز ہر لحاظ سے نامحدود ہو تی ہے اس کا کوئی شریک اور شبیہ و نظیر نہیں ہوتاہے لیکن اگر محدود ہو(چاہے اس کی جتنی بھی عظمت اور بزرگی پائی جاتی ہو) تو اس کی شبیہ و نظیر اس کی ذات سے الگ تصور کی جاتی ہے ، دوسرے لفظوں میں دو یا چند محدود موجود(جتنی بھی بڑی ہوں)کاملا ان کا ممکن ہونا قابل قبول ہے لیکن ہر لحاظ سے نامحدود چیز کے لئے دوسرا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ جس چیز کا بھی تصور کریں وہ اس کی ذات کی طرف پلٹتی ہے۔

تیسرا حصہسوال
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma