خداوند عالم کے صفات اور توحید ذات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
سوالدوسرا حصہ

حقیقت میں یہ حصہ خدا شناسی کا ایک کامل نصاب ہے۔ امیرالمومنین (ع)نے اس حصہ میں بہت مختصر اور پرمعنی عبارتوں میںخداوند عالم کی اس طرح پہچان کرائی ہے کہ اس سے زیادہ کا تصور ممکن نہیں ہے اور اگر توحید اور خدا شناسی کے تمام دروس کو ایک جگہ جمع کردیاجائے تو کوئی چیز اس سے زیادہ نہیں ہوگی۔
اس حصہ میں خداوند عالم کی معرفت اورشناخت کے لئے پانچ مرحلہ ذکر فرمائے ہیں جن کو اس طرح سے خلاصہ کیاجاسکتا ہے:
۱۔ اجمالی اور ناقص شناخت۔ ۲۔ مفصل شناخت ۳۔ توحید ذات اورصفات ۴۔ اخلاص ۵۔ تشبیہ کی نفی۔
اس مرحلہ کے آغاز میں فرماتے ہیں : دین کی ابتداء ، اس کی معرفت اور شناخت ہے( اول الدین معرفتہ )
بغیر کسی و شک شبہ کے یہاں پر دین سے مراد تمام عقاید، وظایف الہی اور اعمال و اخلاق دین ہے اور واضح ہے کہ اس مجموعہ کا آغاز اور اس کا اصلی ستون ”اللہ کی معرفت“ ہے، اس بناء پر خدا کی شناخت بھی پہلا قدم ہے اور تمام اصول و فروع دین کیلئے اصلی ستون ہے جس کے بغیر یہ بہترین درخت کبھی بھی ثمر آور نہیں ہوسکتا۔
بعض لوگوں کو جو نظریہ ہے کہ خدا کی معرفت سے پہلے بھی کسی چیز کا وجود پایا جاتا ہے اور وہ دین کے متعلق تحقیق اور مطالعہ وغیرہ ہے ، یہ لوگ بہت بڑی غلطی پر ہیں۔ کیونکہ تحقیق کا واجب ہونا سب سے پہلے واجبات میں سے ہے لیکن خدا کی شناخت دین کا پہلا ستون ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ تحقیق ، مقدمہ ہے اور شناخت خدا ذی المقدمہ کا پہلا مرحلہ ہے(۱)۔
یہ نکتہ بھی معلوم ہے کہ اجمالی معرفت، آدمی کی فطرت میں سمائی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ تبلیغ کی بھی ضرورت نہیں ہے ، جس چیز کے لئے پیغمبران الہی، مبعوث ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ اجمالی معرفت اور شناخت، تفصیلی اور کامل شناخت میں تبدیل ہوجائے اور اس کی شاخیں اور پتے رشد و نمو کریںاور اس کے اطراف میںجو مزاحم گھانس پھونس ، شرک آلود افکار کی صورت میں جمع ہوگئے ہیں ان کو دورکیا جائے۔
دوسرے مرحلہ میں فرماتے ہیں: کمال معرفت اس کی ذات پاک کی تصدیق ہے(و کمال معرفتہ التصدیق بہ
تصدیق اور معرفت میں کیا فرق ہے اس کے متعلق مختلف تفسیریں موجود ہیں۔ معرفت و شناخت تفصیلی ہے یا معرفت خدا وند عالم سے متعلق علم و آگاہی کی طرف اشارہ ہے، لیکن تصدیق، ایمان کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ علم ، ایمان سے جدا ہے ، ممکن ہے کہ انسان کو کسی چیز کا یقین ہو لیکن اس پر قلبی ایمان نہ ہو(یعنی اس کے مقابل میں سرتسلیم خم کرنا اوردل میں اس کو جگہ دینایا با الفاظ دیگر اس پر اعتقاد رکھنا)۔
بعض مرتبہ بزرگ علماء ان دونوں کو ایک دوسرے جدا کرنے کیلئے سادہ مثالیں پیش کرتے ہیں: بہت سے افراد ایسے ہیں جو رات کو تاریک اور خالی کمرہ میں مردہ کے پاس ٹہرنے سے ڈرتے ہیں جبکہ انہیں یقین ہے کہ وہ مرچکا ہے لیکن ان کے دل کی گہرائیوں میں یہ علم نفوذ کرچکا ہے اور ان کو وہ ایمان اور یقین حاصل نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ وحشت پیدا ہورہی ہے۔
دوسرے لفظوں میں علم کسی چیز سے متعلق یقینی آگاہی کا نام ہے لیکن ممکن ہے کہ اس میں سطحی پہلو پایا جاتا ہو اور انسان و روح کے وجود کی گہرائیوں میں اس نے نفوذ نہ کیا ہو لیکن جب اس کی روح کی گہرائیوں میں نفوذ کرجائے تو یقین کے مرحلہ میں پہنچ جاتا ہے اور انسان اس کے اوپر اپنے دل کی بنیاد کو رکھ دیتا ہے اور اس کو قبول کرلیتا ہے تو اس کو ایمان کا نام دیدیتا ہے۔
تیسرے مرحلہ میں فرماتے ہیں: کمال تصدیق وہی اس کی توحید ہے،( وکمال التصدیق بہ توحیدہ
جس وقت انسان خدا کو تفصیلی معرفت یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ استدلال و برہان کے ذریعہ پہچان لے تو ابھی وہ توحید کامل کے مرحلہ تک نہیں پہنچا ہے ۔ توحید کامل یہ ہے کہ اس کی ذات کو ہر طرح کی شبیہ و نظیراور مانندو مثل سے پاک و منزہ سمجھے۔
کیونکہ اگر کوئی اس کے لئے شبیہ و نظیر کو قبول کرلے تو حقیقت میں اس نے جس چیز کو پہچانا ہے وہ خدانہیں تھااس لئے کہ خداوند عالم کا وجود ہر جہت سے نامحدود اور ہر چیز سے بے نیاز ہے ۔ اور جو چیز کسی سے مشابہ یا نظیر ومثل رکھتی ہو وہ محدود ہے، کیونکہ ان دو شبیہ میں سے ہر ایک کا وجوددوسرے سے جدا ہے اور ایک دوسرے کے کمالات ان میں نہیں پائے جاتے ، لہذا جب جس وقت اس کی ذات کی تصدیق، مرحلہ کمال تک پہنچ جائے اور انسان اس کو یکہ و تنہاسمجھ لے ، عدد کے اعتبار سے یکہ و تنہانہیں بلکہ یکہ و تنہا بمعنائے اس کا کوئی شریک نہ ہو اس کا کوئی شبیہ و نظیر نہ ہو۔
اس کے بعد چوتے مرحلہ میں قدم رکھتے ہوئے اخلاص سے متعلق فرماتے ہیں: کمال توحید اس کے لئے اخلاص اور تنزیہ ہے ( و کمال توحیدہ الا.خلاص لہ)۔
اخلاص کا مادہ خلوص ہے جس کے معنی خالص کرنے ، صاف کرنے اور دوسری چیزوں سے پاک و صاف کرنے کے ہیں۔
یہاں پراخلاص سے مراد ، عملی، قلبی یا اعتقادی اخلاص ہے اس متعلق نہج البلاغہ کے شارحین میں اختلاف ہے۔ اخلاص عملی سے منظور یہ ہے کہ ہر شخص میں پروردگار عالم کی بے انتہاء توحیدپائی جاتی ہو، صرف اسی کو پرستش و عبادت کے لائق سمجھتا ہواور ہرچیز میں اس کے کام کی علت ، خدا ہو۔ یہ وہی چیز ہے کہ عبادت میں اخلاص کی بحث میں فقہاء اس کے اوپر تکیہ کرتے ہیں۔ آیة اللہ خوئی(رضوان اللہ تعالی علیہ)اس تفسیر کو ایک قول کے عنوان سے کہنے والے کا نام بیان کئے بغیر ذکر کرتے ہیں(2)۔
لیکن یہ احتمال بہت بعید ہے کیونکہ اس جملہ سے پہلے اور بعد والے جملے سب کے سب عقایدی مسائل کو بیان کررہے ہیں اور واضح ہے کہ یہ جملہ بھی اخلاص عقایدی کو بیان کررہا ہے۔
اخلاص قلبی ، یا ”شارح بحرانی ابن میثم“ کے بقول ، زہد حقیقی یہ ہے کہ اس کا پورا دل خداوند عالم کی طرف متوجہ ہو اور اس کے علاوہ کسی کے بارے میں نہ سوچے اور ماسوی اللہ اس کو اپنے میں مشغول نہ کرے(3)۔ اگر چہ یہ بہت بلند و بالا مقام ہے لیکن پھر بھی یہ ان تمام جملوں سے سازگار نہیں ہے اور بعید ہے کہ اس جملہ سے مراد یہ ہو، صرف جو مفہوم اس سے مناسب ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اعتقاد کو پروردگار کی بانسبت خالص کرے، یعنی اس کو ہر طرح سے یکہ، بے نظیراور ترکیب سے پاک و منزہ شمار کرنا۔
پانچویں جملہ میں امام(ع)نے اس معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور بہت خوبصورت پیرایہ میں اس کی وضاحت کی ہے، آپ فرماتے ہیں: اور کمال تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے ممکنات کے صفات کی نفی کی جائے ( و کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ )۔
دوسرے الفاظ میںیہ کہا جائے کہ پہلے مرحلہ میں اخلاص کو بہ طور اجمال بیان کیا تھا اور یہاں پر جب اخلاص اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو تفصیلی طور پر اس کو بیان کرتے ہیں اور واضح طور پر روشن ہوجاتا ہے توحید میں اخلاص کیلئے ان تمام صفات کی نفی جائے جو مخلوق میںپائی جاتی ہیں، چاہے یہ صفات مرکب ہوں یا مرکب نہ ہوں۔ چاہے یہ کہ ہم جانتے ہیں کہ تمام ممکنات حتی عقول و نفوس مجردہ بھی حقیقت میں مرکب(کم سے کم وجود اور ماہیت سے مرکب)ہیں یہاں تک کہ مجردات، یعنی موجودات مافوق مادہ بھی اس ترکیب سے جدانہیں ہیں، لیکن موجودات مادی، سب میں اجزائے خارجی پائے جاتے ہیں لیکن خدا وند عالم کی ذات میں نہ جزائے خارجی پائے جاتے ہیں اور نہ اجزائے عقلی، نہ خارج میں تجزیہ کے قابل ہیں اور نہ فہم و ادراک میں۔ اور جو بھی اس حقیقت کی طرف توجہ نہ کرے وہ خالص توحید کو حاصل نہیں کرسکا لہذا یہاں سے واضح ہوجاتا ہے جو آپ نے فرمایا: اس کی توحید کا کمال یہ ہے کہ اس سے صفات کی نفی کی جائے ، صفات کمالیہ کی نفی مراد نہیں ہے کیونکہ تمام صفات کمالیہ چاہے وہ علم ہو یا قدرت ، حیات اور اس کے علاوہ کوئی اور صفات کیونکہ یہ سب خدا کے صفات ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ صفات ہیں جن کی ہمیں عادت ہوگئی ہے اور ہم نے ان کو پہچان لیا ہے یعنی مخلوقات کی صفات جن میں نقص ملا ہوا ہے۔ مخلوقات میں علم و قدرت پایا جاتا ہے لیکن ناقص و محدود علم اور قدرت پایا جاتا ہے اور اس میں جہل و کمزوری پائی جاتی ہے جبکہ خدا وند عالم کی ذات ایسے علم و قدرت سے پاک و منزہ ہے۔
ان باتوں پرامام علیہ السلام کا وہ جملہ گواہ ہے جو آپ نے اس خطبہ کے ذیل میں فرشتوں سے متعلق فرمایا ہے: ” لایتوھمون ربھم بالتصویر ولا یجرون علیہ صفات المصنوعین“۔وہ کبھی بھی اپنے پروردگار کو وہم کی وقت سے نہیں دیکھتے اورخدا وند عالم میں مخلوقات کے صفات کے قائل نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ مخلوقات کے صفات ہمیشہ اس کی ذات سے جدا ہیں، یادوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ان کے صفات ، زاید برذات ہیں۔ انسان ایک چیز ہے اور اس کا علم و قدرت ایک دوسری چیز ہے اس بناء پر اس کاوجود ان دو چیزوں سے مرکب ہے، جب کہ خدا کے صفات ، عین ذات ہیں اوران میںکسی طرح کی کوئی ترکیب نہیں پائی جاتی۔
حقیقت میں توحید اور خدا شناسی کے راستہ میں سب سے بڑاخطرہ یہ ہے کہ انسان ”قیاس“ میں نہ پڑ جائے یعنی خدا کے صفات کا مخلوقات کے صفات سے مقائسہ کرے کہ جو مختلف طرح کے نقائص سے ملا ہوا ہے اور یا صفات زاید بر ذات کے وجود کا اعتقاد رکھنا ہے جیساکہ اشاعرہ(مسلمانوں کا ایک گروہ) اس عقیدہ میں گرفتار ہیں(4)۔
اسی دلیل کی بناء پر امام علیہ السلام بعد والے جملہ میں فرماتے ہیں:کیونکہ ہر صفت(ان صفتوں میں سے)گواہی دیتی ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہرموصوف(ممکنات میں سے) گواہی دیتا ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی اور چیز ہے(لشھادة کل صفة انھا غیر الموصوف و شھادة کل موصوف انہ غیر الصفة
آپ کا یہ بیان حقیقت میں ایک واضح منطقی دلیل ہے جس میں فرمایا ہے : صفات زاید بر ذات گواہی دیتے ہیں کہ وہ موصوف سے جداہیں اور ہر موصوف گواہی دیتا ہے کہ وہ صفت کے ساتھ دو ہیں، لیکن یہ بات کہ اس کے صفات کو عین ذات سمجھیں اور معتقد ہوجائیں کہ خداوند ذاتی ہے جس کا تمام علم، قدرت، حیات، ازلی اور ابدی ہے، اگرچہ ایسے معانی کو ہمارے لئے درک کرنا جبکہ ہمیں مخلوقات کے صفات کی عادت ہوگئی ہے اور انسان کو ایک چیز اور اس کے علم و قدرت کو اس کی ذات پر زاید سمجھتے ہیں ،بہت دشوار ہے ، (کیونکہ انسان جس وقت پیدا ہوا تو نہ علم رکھتاتھا اور نہ قدرت ، اس کے بعد وہ صاحب علم و قدرت ہوگیا)۔
اس کے بعد اپنی بات کو کامل کرتے ہوئے ایک مختصر اور پرمعنی جملہ کا اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لہذا جس نے ذات الہی کے علاوہ (مخلوق کے صفات کی طرح ) اس کے صفات مانے اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیااور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا وہ دوئی(دوگانگی) کا قائل ہوگیا اور جو دوئی(دوگانگی)کا قائل ہوا وہ اس کے لئے اجزا کا قائل ہوگیا اور جو اس کے لئے اجزاء کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا(اس نے خدا کو نہیں پہچانا)(فمن وصف اللہ سبحانہ فقد قرنہ ومن قرنہ فقد ثناہ و من ثناہ فقد جزاہ و من جزاہ فقد جھلہ
حقیقت میں امام علیہ السلام کا کلام اس معنی کو بتاتا ہے کہ مخلوقات کے صفات کو خداوندعالم کے لئے ثابت کرنے کا لازمہ اس کے وجود میں ترکیب کا سبب ہے، یعنی جس طرح انسان ذات اور صفات سے مرکب ہے وہ بھی اسی طرح مرکب ہوجائے اور یہ معنی واجب الوجود ہونے کے لئے سازگار نہیں ہیں، کیونکہ ہر مرکب اپنے اجزاء کا محتا ج ہے اور محتاج ہونا واجب الوجود کے لئے صحیح نہیں ہے۔
اس عبارت کے لئے دوسری دو تفسیریں اور بیان ہوئی ہیں:
اول : جب بھی اس کے صفات کو اس کی ذات کا غیر سمجھیں تو لا محالہ اس کی ذات مرکب ہوجائے گی ،کیونکہ ذات اور صفات کو جب دو فرض کریں گے تو ان میں ایک چیز مشترک پائی جائے گی اور ایک اس کو امیتازدینے والی(جس کو ”ما بہ الامتیاز“اور ”مابہ الاشتراک“ سے تعبیر کیاجاتا ہے)کیونکہ دونوں وجود اور ہستی میں شریک ہیں اور در عین حال ایک دوسرے سے جدابھی ہیں اور اس صورت میں اس کی ذات کو دو پہلو سے مختلف سمجھیں۔
دوم : ہم جانتے ہیں کہ خداوندعالم کی وحدت ذات ، وحدت عددی کے معنی میں نہیں ہے بلکہ خدا کی ذات میں وحدت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی شبیہ ونظیر نہیں ہے۔ اصولی طور پر ایک بے نہایت وجود ہر لحاظ سے کسی بھی چیز سے مشابہ نہیں ہوسکتا اور اگر خدا کے صفات کو اس کی ذات کی طرح ازلی، ابدی اور بے نہایت سمجھیں تو ہم نے اس کو محدود بھی کردیا ہے اور اس کے لئے شبیہ و نظیر کے بھی قائل ہوگئے ہیں(غور و فکر کریں)۔
حقیقت میں امام علیہ السلام نے اخلاص کی وضاحت میں جو باتیں بیان فرمائی ہیں وہ اسی معنی کو بتارہی ہیں، امام فرماتے ہیں: لہذا جس نے ذات الہی کے علاوہ (مخلوق کے صفات کی طرح ) اس کے صفات مانے اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیااور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا وہ دوئی(دوگانگی) کا قائل ہوگیا اور جو دوئی(دوگانگی)کا قائل ہوا وہ اس کے لئے اجزا کا قائل ہوگیا اور جو اس کے لئے اجزاء کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا(اس نے خدا کو نہیں پہچانا)کیونکہ اس نے خدا کو اپنے جیسا (ترکیب و محدودیت کے لحاظ سے)تصور کرلیا اور اس کا نام خدا رکھ دیا۔
امام علیہ السلام اپنے بیان کو کامل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور جو اس کو نہیںپہچانتا وہ اس کو قابل اشارہ سمجھتا ہے اور جو اس کو قابل اشارہ سمجھتا ہے اس نے اس کی حد بندی کردی اور جو اسے محدود سمجھا اس نے اس کو شمار کرنے کے قابل سمجھ لیا(اور شرک کی وادی میں غلطاں ہوگیا)!(و من جھلہ فقد اشار الیہ و من اشارہ الیہ فقد حدہ و من حدہ فقد عدہ۔)
یہاں پر ”خدا کی طرف اشارہ “کرنے سے کیا منظور ہے اس میں دو احتمال پائے جاتے ہیں: اول : یہ ہے کہ اشارہ عقلی مراد ہے اور دوسرے یہ کہ اشارہ عقلی اور اشارہ حسی دونوں پائے جاتے ہیں۔
زیادہ وضاحت یہ ہے کہ جب انسان خدا کو اس کی نامحدود اور نامتناہی حقیقت کو نہ سمجھیں تو اس نے اپنے ذہن میںاس کا ایک خاص محدود تصور کرلیا اور دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ اس عقلی اشارہ کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے اس حالت میں فطری طور پر اس کو محدود سمجھا کیونکہ نامحدود ونامتناہی خود محدود و متناہی انسان کیلئے قابل درک و تصور نہیں ہے ، انسان اس چیز کو درک کرتا ہے جس کا اس کو احاطہ ہوتا ہے اور اس کی محدود فکر میں پایا جاتا ہے اور اس طرح کی چیز یقینا محدود ہے۔
اس صورت میں خدا وند عالم معدودات اور شمار کی جانے والی اشیاء کی فہرست میں قرار پائے گا، کیونکہ محدود ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ دوسری موجود کے ممکن ہونے کا تصور دوسری جگہ پر اس کے جیسا ہی ہے۔ صرف تمام جہات سے نامحدود ہے جس کا کوئی دوسرا نہیں ہے اور یہ عدد و شمارمیںنہیں آسکتا۔
اس طرح ”مولی الموحدین“ نے توحید کی حقیقت کو مختصر عبارت میں اس کے تمام معنی کے ساتھ منعکس کردیا ہے اور خدا وند عالم کو خیال و قیاس اور گمان ووہم سے بالاتر بیان کیا ہے۔
یہ وہی چیز ہے جس کو امام محمد باقر(علیہ السلام)نے بہت خوبصورت عبارت میں بیان کیا ہے، آپ فرماتے ہیں: ” کل ما میزتموہ باوھامکم فی ادق معانیہ مخلوق مصنوع مثلکم مردود الیکم“ہر چیز کو جب تم اپنے وہم و گمان اور فکر میں تصور کرو گے چاہے وہ جتنی بھی دقیق اور ظریف ہو پھر بھی تمہاری مخلوق ہوگی اور تمہاری طرف پلٹے گی(اور وہ خود تمہاری بنائے ہوئی ہوگی اور تمہارے وجود سے ہماہنگ ہوگی اور خدا اس سے بزرگ ہے کہ کسی مخلوق سے ہماہنگ ہو)(5)۔
یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ : ”اشارہ“، عقلی اشارہ کو بھی شامل ہو اور حسی کو بھی۔ کیونکہ خداوند عالم کی جسمانیت کا اعتقاد بھی جہل ہے اور اس کا نتیجہ اس کی ذات کو محدود کرنا ہے اور اس کی ذات کو شمار کرنے، شریک، مثل اور اس کے لئے کسی نظیر کا قائل ہونا ہے۔



۱۔ مشہور دانشمند مرحوم ”مغنیہ“نے اپنی شرح ”فی ظلال نہج البلاغہ“ میں نے اس کوخدا کے اوامر و نواہی کی اطاعت اورپیروی کے معنی میں بیان کیا ہے اور آیة اللہ خوئی (رضوان اللہ تعالی علیہ)نے بھی ان سے پہلے اسی معنی کوانتخاب کیا ہے۔ اگر اطاعت سے ان کی مراد وسیع ہے یعنی اعتقادی امور کو بھی شامل ہے تو یہ معنی صحیح ہیں اور اگر صرف عملی امور کو شامل ہے تو مذکورہ اشکال ان پر بھی وارد ہوتا ہے۔
2۔ منھاج البراعة، ج۱، ص ۳۲۱۔ شارح خوئی کے نقل کرنے کے مطابق، صدر الدین شیرازی نے بھی شرح کافی میں اسی عقیدہ کو بیان کیا ہے۔
3۔ شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص ۱۲۲۔
4۔ ابو الحسن اشعری کے ماننے والوں کو اشاعرہ کہتے ہیںیہ لوگ معانی پر اعتقاد رکھتے ہیں اور معانی سے ان کی مراد یہ ہے کہ صفات کے مفہوم جیسے عالمیت، غالبیت وغیرہ خدا وند عالم کی قدیم اور ازلی ذات کی طرح ہیں اور در عین حال اس کی ذات سے جدا ہیں اس طرح یہ لوگ چند امر ازلی کے وجود پر اعتقاد رکھتے ہیں، یا اصطلاحا یہ کہا جائے کہ تعدد قدماء کے قائل ہیں، یہ ایسا عقیدہ ہے جو توحید خالص سے سازگار نہیں ہے لہذا اہل بیت(علیہم ا لسلام)کے ماننے والے(چونکہ انہوں نے اہل بیت ہی سے علم حاصل کیاہے)(اس طرح کی باتوں کو جو اس خطبہ، پوری نہج البلاغہ اور معصومین(علیہم السلام)کے کلام میں بیان ہوئی ہیں)معانی کو صفات زائد بر ذات سمجھتے ہیں اور اس کی نفی کرتے ہیں ۔
5۔ بحار الانوار، جلد ۶۶، ص ۲۹۳۔
 
سوالدوسرا حصہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma