ہدف اور خدا پر ہر چیز قربان ہے ۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
صرف کثرت کسی کام کی نہیںدو اہم نکات

آخری وسوسہ اور بہانہ جو بت پرستوں کے مقابلے میں حکم جنگ کے بارے میں ہوسکتا ہے اور بعض تفاسیر کے مطابق پیدا ہوا، یہ تھا کہ وہ سوچتے تھے کہ ایک طرف مشرکین اور بت پرستوں کے درمیان ان کے قریبی عزیز اور وابستہ لوگ موجود تھے ۔ کبھی باپ مسلمان ہوجاتا اور بیٹا مشرک رہ جاتا اور کبھی برعکس اولاد راہِ خدا پر چل نکلتی اور باپ اسی طرح شرک تاریکی میں رہ جاتا، یونہی بھائیوں، میان بیوی اور خاندان کے بارے میں صورت تھی، اب اگر تمام مشرکین کے ساتھ جنگ کرنا مقصود ہوتا تو پھر اس کا تقاضا یہ ہوتا کہ اپنے رشتہ داروں اور قوم وقبیلہ کو بھول جائیں ۔
دوسری طرف ان کا زیادہ تر سرمایہ اور تجارت مشرکین کے ہاتھ میں تھا لہٰذا وہ مکہ آتے جاتے اور اس کی ترقی کے لئے کام کرتے ۔
تیسری بات یہ تھی کہ مکہ میں ان کے گھر تھے جو اچھی حالت میں نسبتاً آباد تھے کہ جو ہوسکتا تھا کہ مشرکین سے جنگ کی صورت میں ویران ہوجائیں یا ممکن تھا کہ مراسم حج سے مشرکین کے معطل ہوجانے کی وجہ سے ان کی کوئی قدر وقیمت نہ رہتی اور وہ بے سود ہوجاتے ۔
مندرجہ بالا آیت کی نظر ایسے اشخاص ہی کی طرف ہے اور دو ٹوک انداز میں انھیں صریح جواب دیتی ہیں، پہلے فرمایا گیا ہے: اے ایمان والو! جب تمھارے باپ اور بھائی کفر کوایمان پر مقدم رکھیں تو انھیں اپنا دوست، مددگار ولی اور سرپرست قرار نہ دو (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَتَّخِذُوا آبَائَکُمْ وَإِخْوَانَکُمْ اٴَوْلِیَاءَ إِنْ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْإِیمَانِ) ۔
پھر تاکید کے طور پر مزید کہا گیا ہے: تم میں سے جو لوگ مدد اور دوستی کے لئے ان کا انتخاب کریں وہ ستمگر ہیں (وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاٴُوْلٰئِکَ ھُمْ الظَّالِمُونَ) ۔
اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ انسان حق سے بیگانوں اور حق کے دشمنوں سے دوستی رکھ کر اپنے اوپر، اس معاشرے پر جس میں وہ رہتا ہے اور خدا کے بھیجے ہوئے رسول پر ظلم کرے ۔
اگلی آیت میں اس امر کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر اس کی تشریح تاکید اور تہدید کی صورت میں کی گئی ہے، روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے فرمایا گیاہے: ان سے کہہ دو اگر تمھارے باپ، اولاد، بھائی، ازواج، خاندان اور قبیلہ اور تمھارے جمع کردہ اموال اور تجارت جس کے مندا پڑجانے تمھیں خوف ہے اور اچھے امکانات جو تمھیں پسند ہیں تمھاری نظر میں خدا، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو کہ خدا کی طرف سے سزا اور عذاب تمھیں آلے (قُلْ إِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ وَاٴَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَاٴَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَاٴَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوھَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَا اٴَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنْ اللهِ وَرَسُولِہِ وَجِھَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَاٴْتِیَ اللهُ بِاٴَمْرِہِ) ۔
ان امور کو رضائے الٰہی اور جہاد پر ترجیح دینا چونکہ ایک قسم کی نافرمانی اور واضح فسق ہے اور مادی زندگی کے زرق وبرق سے دلبستگی رکھنے والے ہدایت الٰہی کی اہلیت نہیں رکھتے لہٰذا آیت کے آخر میں مزید ارشاد ہوتا ہے: خدا فاسق گروہ کو ہدایت نہیں کرتا (وَاللهُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ) ۔
تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں اس طرح منقول ہے:
لما اذن امیرالمومنین ان لا یدخل المسجد الحرام مشرک بعد ذٰلک جزعت قریش جزعاً شدیداً وقالوا ذھبت تجارتنا، وضعت عیالنا، وخرجت دورنا، فانزل الله فی ذٰلک (یا محمد)إِنْ کَانَ آبَائُکُمْ--- “
جب حضرت امیر المومنین علی(ع) نے (مراسم حج کے دوران) اعلان کیا کہ اس کے بعد کوئی مشرک مسجد الحرام میں داخلے کا حق نہیں رکھتا تو قریش (کے مومنین) نے فریان بلند کی اور کہنے لگے: ہماری تجارت ختم ہوگئی اور ہمارے اہل وعیال تباہ ہوگئے اور ہمارے گھر ویران ہوگئے، اس پر آیت ننازل ہوئی ”إِنْ کَانَ آبَائُکُمْ--- “
مندرجہ بالا آیات میں اصلی سچّے ایمان کوشرک ونفاق سے آلودہ کو الگ الگ کرکے دکھایا گیا ہے اور حقیقی مومنین اور ضعیف الایمان افراد کے درمیان حد فاصل مقرر کردی گئی ہے اور صراحت سے کہا گیا ہے کہ ہشت پہلو مادی زندگی کا سرمایہ کہ جس کے چار حصّے نزدیکی رشتہ داروں (ماں باپ، اولاد، بہن بھائیوں اور میان بیوی) سے مربوط ہیں، ایک حصّہ گروہ اجتماعی اور عشیرہ وقبیلہ سے، ایک حصّہ جمع کردہ اموال سے، ایک حصّہ اچھے مکانوں سے مربوط ہے انسان کی نظر میں خدا، رسول، جہاد اور فرمانِ خدا کی اطاعت سے بڑھ کر قیمتی اور گراں بہا ہے یہاں تک کہ وہ ان چیزوں کو دین پر قربان کرنے کو تیار نہیں تو معلوم ہوتا ہے اس میں حقیقی اور کامل ایمان پیدا نہیں ہوا ۔
حقیقتِ ایمان ور وح ایمان اپنی تمام قدروں کے ساتھ اسی دن روشن ہوگی جس روز ایسی فداکاری اور قربانی میں کوئی شک وشبہ نہ رہے ۔
علاوہ ازیں جو لوگ ایسے ایثار وفداکاری پر آمادہ نہیں ہیں درحقیقت اپنے اوپر معاشرے پر ظلم کرتے ہیں یہاں تک کہ جس چیز سے وہ ڈرتے ہیں اسی میں جاکریں گے کیونکہ جو قوم تاریخ کے ایسے لمحوں اور مقامات پر ایسی فداکاریوں کے لئے تیار نہیں ہے جلد یا دیر اسے شکست سے دوچار ہونا پڑے گا اور وہی عزیز واقارب اور مال ودولت جن سے دلبستگی کی وجہ سے حہاد سے اجتناب کرتے ہیں خطرے میں پڑجائیں گے اور دشمن کے جنگل میں نیست ونابود ہوجائیںگے ۔

قابل توجہ نکات

۱۔ ہدف عزیز تر ہو:
جو کچھ آیاتِ بالا میں فرمایا گیا ہے اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ عزیز واقارب سے دوستی اور محبت کے رشتے توڑلیے جائیں اور اقتصادی سرمائے کی پرواہ نہ کی جائے اور نہ یہاں انسانی جذبات کو ترک پر ابھارا گیا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جب زندگی میں دوراہا آجائے تو بیوی، اولاد، مال ودولت، مقام ومنزلت، گھر اور گھرانے کے عشق کو حکمِ خدا کے اجراء اور جہاد کی طرف رغبت سے مانع نہیں ہوچاہیے اور ان چیزوں کو انسان کے مقدس ہدف اور مقصد میں حائل نہیں ہوچاہیے ۔
لہٰذا اگر دوراہاے پر نہ کھڑا ہو اور ان دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مرحلہ نہ ہو تو پھر دونوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔
سورہٴ لقمان کی آیہ۱۵ میں بت پرست ماں باپ کے میں ہے:
<وَإِنْ جَاھَدَاکَ عَلی اٴَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَاتُطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا
اگر وہ اصرار کریں کہ تو جس چیز کو خدا کا شریک نہیں جانتا اسے خدا کا شریک قرار دے تو ہرگز ان کی اطاعت نہ کرنا لیکن دنیاوی زندگی میں ان سے اچھا سلوک کرو۔
۲۔ ”فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَاٴْتِیَ اللهُ بِاٴَمْرِہِ“کا ایک اور مفہوم :
اس کی ایک تو تفسیر وہی ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں یعنی خدا کی طرف سے ایسے لوگوں کے لئے تہدید ہے جو اپنے مادی مفاد کو رضائے الٰہی پر مقدم شمار کرتے ہیں اور چونکہ یہ تہدید اجمالی طور پر بیان کی ہوئی ہے لہٰذا اس کا اثر بیشتر اور زیادہ وحشت انگیز ہے اور یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے انسان اپنے کسی ماتحت سے کہے کہ اگر تو نے اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کی تو میں بھی اپنا کام کروں گا ۔
اس جملے کی تفسیر میں ایک اور احتمال بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا کہتا ہے کہ اگر تم اس قسم کے ایثار کے لئے تیار نہ ہوئے تو خدا اپنے پیغمبر کی فتح وکامرانی کا حکم اس راستے سے دے گا جسے وہ جانتا ہے اور جس طریقے سے اس نے ارادہ کیا ہے اس کی مدد کرے گا، جیسے سورہٴ مائدہ کی آیت ۵۴ میں ہے:
<یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّونَہُ---
اے ایمان والو! تم میں سے جوشخص اپنے دین سے مرتد ہوجائے وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا کیونکہ خدا عنقریب ایک گروہ لائے گا جو خدا سے محبت کرتا ہے اور خدا بھی اس گروہ سے محبت کرتا ہے ۔
۳۔ ماضی اور حال میں اس حکم کی کیفیت:
ہوسکتا ہے کچھ لوگ یہ خیال کریں کہ جو کچھ ابا آیت میں بیان ہوا ہے وہ پہلے مسلمانوں سے مخصوص ہے اور اس کا تعلق گذشتہ تاریخ سے ہے حالانکہ یہ بہت بڑا اشتباہ ہے، یہ آیات گذشتہ، آج اور آئندہ سب ادوار کے مسلمانوں پر محیط ہیں، اگر وہ جہاد اور فداکاری کے لئے محکم ایمان نہ رکھتے ہوں، تیار نہ ہوں، ضرورت کے وقت ہجرت پر تیار نہ ہوں اور اپنے مادی مفاد کو رضائے الٰہی پر مقدم سمجھیں اور بیوی، اولاد، مال ودولت اور عیشِ حیات سے زیادہ دلبستگی کی وجہ سے ایثار وقربانی سے کوئی تعلق نہ رکھتے ہوں تو ان کا مستقبل تاریک ہے نہ صرف مستقبل بلکہ اُن کا حال بھی خطرے میں ہے اور ان کا سب گذشتہ افتخار، میراث اور امتیاز ختم ہوجائے گا، ان کی زندگی کے منابع اور مراکز دوسروں کے ہاتھ لگ جائیں گے اور ان کے لئے زندگی کا کوئی مفہوم نہیں ہوگا کیونکہ زندگی ایمان اور ایمان کے زیر سایہ جہاد سے عبارت ہے ۔
مندرجہ بالا آیات کی ایک شعار کے طور پر تمام مسلمانوں بچوں اور نوجوانوں کو تعلیم دی جانا چاہیے اور ان میں فداکاری، مبارزہ اور ایمان کی روح زندہ ہونا چاہیے، انھیں چاہیے کہ وہ اپنی میراث کی حفاظت کریں ۔


۲۵ لَقَدْ نَصَرَکُمْ اللهُ فِی مَوَاطِنَ کَثِیرَةٍ وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ اٴَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْکُمْ الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ
۲۶ ثُمَّ اٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَہُ عَلیٰ رَسُولِہِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِینَ وَاٴَنزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْھَا وَعَذَّبَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَذٰلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ
۲۷ ثُمَّ یَتُوبُ اللهُ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ عَلیٰ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ
ترجمہ
۲۵۔ خدا نے بہت سے میدانوں میں تمھاری مدد کی (اور تم دشمن پر کامیاب ہوئے) اور حنین کے دن (بھی مدد کی) جبکہ تمھارے لشکر کی کثرتِ تعداد نے تمھیں گھمنڈ میں ڈال دیا لیکن (اس کثرت نے) تمھاری کوئی مشکل حل نہ کی اوز مین پوری وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تو (دشمن کو) پشت دکھاکر بھاگ کھڑے ہوئے ۔
۲۶۔ پھر خدا نے اپنی ”سکینة“ اپنے رسول اور مومنین پر نازل کی اور ایسے لشکر بھیجے جنھیںتم نہیں دیکھتے تھے اور کافروں کو عذاب دیا اور یہ ہے کافروں کی جزا ۔
۲۷۔ پھر خدا جس شخص کی چاہے (اور اسے اہل دیکھے) توبہ قبول کرتا ہے اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

 

صرف کثرت کسی کام کی نہیںدو اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma