حد سے بڑھ جانے والے پیمان

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
دشمن سے جنگ کرنے سے کیوں ڈرتے ہوشدّت عمل اور سختی ساتھ ساتھ

جیسا کہ آپ گذشتہ آیات میں دیکھ چکے ہیں کہ ایک خاص گروہ کے علاوہ اسلام نے تمام مشرکین اور بت پرستوں کے معاہدوں کو فسخ کردیا، انھیں صرف چار ماہ کی مہلت دی گئی تاکہ وہ اپنا ارادہ واضح کرلیں، اب ان محل بحث آیات میں اس کام کی علت بیان کی گئی ہے، پہلے استفہامِ انکاری کے طور پر قرآن کہتا ہے: کیسے ممکن ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے ہاں مشرکوں کا کوئی پیمان ہو (کَیْفَ یَکُونُ لِلْمُشْرِکِینَ عَھْدٌ عِنْدَ اللهِ وَعِنْدَ رَسُولِہِ) یعنی وہ ان اعمال اور ایسے غلط افعال کے ہوتے ہوئے یہ توقع نہ رکھیں کہ پیغمبر یک طرفہ طور پر ان کے معاہدوں کی پابندی کریں گے، اس کے بعد فوراً ایک گروہ جو ان کے غلط کردار اور پیمان شکنی میں شریک نہیں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہا گیاہے : مگر وہ لوگ کہ جن کے ساتھ تم نے مسجد الحرام کے پاس عہد کیا (إِلاَّ الَّذِینَ عَاھَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) ”جب تک یہ لوگ تمھارے ساتھ کئے گئے اپنے معاہدے کے وفادار ہیں تو تم بھی عہد نبھاوٴ (فَمَا اسْتَقَامُوا لَکُمْ فَاسْتَقِیمُوا) کیونکہ خدا پیہیزگاروں اور ان لوگوں کو جو ہر قسم کی پیمان شکنی سے اجتناب کرتے ہیں دوست رکھتا ہےں (لَھُمْ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ) ۔
اگلی آیت میں یہی بات زیادہ صراحت اور تاکید سے بیان ہوئی ہے اور دوبارہ استفہام انکاری کی صورت میں کہا گیا ہے، کیسے ممکن ہے کہ ان کے پیمان کا احترام کیا جائے حالانکہ اگر وہ آپ پر غالب آجائیں تو نہ تو تم سے کسی رشتہ داری کا لحاظ کریں گے اور نہ عہد وپیمان کا پاس کریں گے (کَیْفَ وَإِنْ یَظْھَرُوا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوا فِیکُمْ إِلًّا وَلَاذِمَّةً) ۔
”الّ“ رشتہ داری اور عزیز داری کے معنی میں ہے، بعض نے اس کا معنی ”عہد و پیمان“ بیان کیا ہے، پہلی صورت میں مراد یہ ہے کہ قریش اگرچہ رسول الله اور کچھ مسلمانوں کے رشتہ دار تھے لیکن جب وہ خود اس بات کی درّہ بھر پرواہ بھی نہیں کرتے اور رشتہ داری کا احترام نہیں کرتے تو پھر کیسے یہ توقع رکھتے ہیں کہ رسول الله اور مسلمان ان کا لحاظ کریں اور دوسری صورت میں لفظ ”ذمّہ“ کی تاکید ہے کہ جو عہدو پیمان کے معنی میں شمار ہوتا ہے ۔
راغب کتاب مفردات میں اس لفظ کی اصل ”الیل“ بمعنی درخشندگی اور روشنائی قرار دیتا ہے کیونکہ مستحکم معاہدے اور نزدیک کی رشتہ داریاں خاص درخشندگی کی حامل ہوتی ہے ۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے: ان کی دلنشیں باتوں اور بظاہر خبوبصورت الفاظ سے کبھی دھوکا نہ کھانا کیونکہ ”وہ چاہتے ہیں کہ تمھیں اپنے منھ سے راضی کریں لیکن ان کے دل اس کا انکار کرتے ہیں (یُرْضُونَکُمْ بِاٴَفْوَاہِھِمْ وَتَاٴْبیٰ قُلُوبُھُمْ) ۔ ان کے دل کینہ، انتقام جوئی، سنگدلی، عہد شکنی اور رشتہ داری سے بے اعتنائی سے معمور ہیں اگرچہ وہ اپنی زبان سے دوستی اور مجبت کا اظہار کرتے ہیں ۔
آیت کے آخر میں اس امر کی بنیاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے: اور ان میں سے زیادہ تر فاسق اور نافران ہیں (وَاٴَکْثَرُھُمْ فَاسِقُونَ) ۔
اگلی آیت میں ان کے فسق اور نافرمانی کی اس طرح وضاحت کی گئی ہے: انھوں نے آیاتِ خدا کا کم قیمت پر سودا کیا ہے اور اپنے وقتی مادی اور حقیر مفادات کے لئے لوگوں کو راہِ خدا سے باز رکھا ہے (اشْتَرَوْا بِآیَاتِ اللهِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِہِ) ۔
ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ ابوسفیان نے ایک کھانا تیار کیا اور کچھ لوگوں کو دعوت دی تاکہ اس طریقے سے رسول الله کے خلاف ان کی عداوت کو ابھار سکے ۔
بعض مفسّرین نے مندرجہ بالا آیت کو اس واقعے کی طرف اشارہ سمجھا لیکن ظاہر یہ ہے کہ ایک وسیع مفہوم ہے جس میں یہ واقعہ اور ان بت پرستوں کے دیگر واقعات بھی شامل ہیں کہ جنھوں نے اپنے وقتی مفادات کا حفاظت کے لئے آیاتِ خدا سے آنکھیں پھیرلی تھیں ۔
بعد میں مزید فرمایا گیا ہے: مشرک کیسا بُرا عمل بجالاتے ہیں (إِنَّھُمْ سَاءَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ) ۔ انھوں نے خود کو بھی سعادت ہدایت اور خوش بختی سے محروم کیا اور دوسروں کے لئے بھی سدِّراہ ہوئے اور اس سے بدتر کونسا عمل ہوگا کہ انسان اپنے گناہ کا بوجھ بھی اپنے دوش پر لے لے اور دوسروں کے گناہوں کا وزن بھی خود ہی اٹھالے ۔
زیرِ نظر آخری آیت میں گذشتہ گفتگو کی پھر تاکید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے: یہ مشرک ایسے ہیں کہ اگر ان کے ہاتھ پہنچ سکیں تو کسی صاحبِ ایمان شخص کے بارے میں یہ رشتہ داری اور پیمان کا تھوڑا سا پاس نہیں کریں گے (لَایَرْقُبُونَ فِی مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَاذِمَّةً) ۔
”کیونکہ اصولی طور پر یہ لوگ تجاوز اور زیادتی کرنے والے ہیں (وَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُعْتَدُونَ) ۔ صرف تمھارے بارے میں ہی ان کا یہ رویہ نہیں بلکہ جس شخص پر بھی ان کا بس چلے گا یہ دستِ تجاوز دراز کریں گے ۔
مندرجہ بالا آیت کا مضمون اگرچہ گذشتہ آیات کی بحث کی تاکید معلوم ہوتا ہے لیکن پھر بھی ایک فرق اور اضافہ موجود ہے اور وہ یہ کہ گذشتہ آیات میں گفتگو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے اصحاب اور ان مسلمانوں کے بارے میں تھی جو آپ کے گرد وپیش تھے لیکن اس آیت میں ہر صاحبِ ایمان شخص کے بارے میں بات ہورہی ہے، یعنی صرف تم ان کی نگاہ میں کوئی خصوصیت نہیں رکھتے بلکہ جو شخص مومن ہو اور آئینِ توحید کا پیرو ہو یہ اس کے سخت دشمن ہیں اور پھر کسی چیز کا لحاظ نہیں کرتے لہٰذا اصل میں ایمان اور حق کے دشمن ہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے قرآن بعض گذشتہ اقوام کے بارے میں کہتا ہے:
<وَمَا نَقَمُوا مِنْھُمْ إِلاَّ اٴَنْ یُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ
”وہ صرف اس بناپر مومنین پر سختی کرتے تھے کہ وہ عزیز وحمید خدا پر ایمان رکھتے ہیں“(بروج/۸)

دو اہم نکات

۱۔ ”إِلاَّ الَّذِینَ عَاھَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ“ سے کون مراد ہیں؟
اس جملے میں معاہدے فسخ کرنے کے اعلان سے ایک گروہ کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، اس سے کونسا گروہ مراد ہے، اس سلسلے میں مفسّرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن گذشتہ آیات کی طرف توجہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے وہی قبائل مراد ہیں جو اپنے عہدوپیمان کے وفادار رہے یعنی بنوضمرہ اور بنو خزیمہ وغیرہ سے جیسے قبائل۔
درحقیقت یہ جملہ گذشتہ آیات کی تاکید کی حیثیت رکھتا ہے یعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بیدار رہیں اور ان گروہوں کا معاملہ ان سے مختلف رکھیں جن کے معاہدے فسخ ہوگئے ہیں ۔
ریا یہ سوال کہ جو کہا گیا ہے کہ ”جنھوں نے مسجد الحرام کے پاس معاہدہ کیا ہے“ اس سے کیا مراد ہے؟
ممکن ہے کہ یہ اس بناپر ہو کہ صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں نے مشرکین مکہ کے ساتھ سرزمین حدیبیہ پر جو معاہدہ کیا تھا اس میں مشرکین عرب میں سے دوسرے گروہ بھی شامل ہوگئے تھے مثلاً وہ قبائل جن کی طرف سطور بالا میں اشارہ ہوا ہے اور یہ مقام مکہ سے پندرہ میل کے فاصلہ پر ہے اور یہ معاہدہ ۶/ہجری میں ہوا مشرکین نے اس معاہدے کے ذریعے مسلمانوں سے ترک مخاصمت کا عہد کیا لیکن مشرکین قریش نے اپنا معاہدہ توڑدیا اور پھر فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوگئے جبکہ ان سے وابستہ دوسرے گروہ مسلمان تو ہوئے مگر معاہدہ بھی نہ توڑا اور چونکہ سرزمین مکہ اپنے اطراف میں ایک وسیع علاقہ پر مشتمل ہے جس کا نصف قطر تقریباً ۴۸ میل بنتا ہے لہٰذا یہ تمام علاقے مسجد الحرام کا جزء سمجھے جاتے ہیں چنانچہ سورہٴ بقرہ کی آیہ۱۹۶ میں حج تمتع اور اس کے احکام کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
<ذٰلِکَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ اٴَھْلُہُ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
”یہ احکام اس شخص سے مربوط ہیں کہ جس کا گھر اور گھر والے مسجد الحرام کے پاس نہ ہوں“
روایات اور فقہا کے فتاویٰ کے تصریح کے مطابق حج تمتع کے حکام ان لوگوں کے لئے ہیں کہ جن کا فاصلہ مکہ سے ۴۸ میل سے زیادہ ہو، اس بناپر کوئی مانع نہیں کہ صلح حدیبیہ جو مکہ سے ۱۵ میل کے فاصلے پر انجام پائی ”عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ“ کے عنوان سے ذکر ہو۔
رہی وہ بات جو بعض مفسرین نے کہی ہے کہ مندرجہ بالا استثناء مشرکینِ قریش سے مربوط ہے اور قرآن مجید نے ان کے معاہدے کو جو انھوں نے حدیبیہ میں کیا تھا محترم شمار کیا ہے، درست نظر نہیں آتی کیونکہ پہلے مشرکین قریش کی معاہدہ قطعی اور مسلم تھی، اگر وہ پیمان شکن نہیں تھے تو پھر کون پیمان شکن تھا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ حدیبیہ کا واقعہ ہجرت کے چھٹے سال کا ہے جبکہ مشرکینِ قریش نے آٹھویں سال فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اس لئے مندرجہ آیات جو ہجرت کے نویں سال میں نازل ہوئیں وہ ان کے متعلق نہیں ہوسکتیں ۔
۲۔ کیا پیمان شکنی کے ارادے پر ہی ایمان لغو کردیا گیا؟
جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ مندرجہ بالا آیات سے یہ مراد نہیں ہے انھوں نے صرف پیمان شکنی کا ارادہ ہی کیا تھا اور جب مسلمانوں کو طاقت وقدرت حاصل ہوگئی تو مشرکین کا پیمان شکنی کا ارادہ ہی معاہدے کے لغو قرار دیئے جانے کا جواز بن گیا وہ بارہا اپنے اسی طرز فکر کا عملی مظاہرہ کرچکے تھے کہ جب بھی انھیں موقع ملے گا تو وہ معاہدے کی طرف توجہ کئے بغیر مسلمانوں پر ضربِ کاری لگائیں گے اور یہی صورت حال معاہدے کو لغو کرنے کے لئے کافی ہے ۔
 

۱۱ فَإِنْ تَابُوا وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّکَاةَ فَإِخْوَانُکُمْ فِی الدِّینِ وَنُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ
۱۲ وَإِنْ نَکَثُوا اٴَیْمَانَھُمْ مِنْ بَعْدِ عَھْدِھِمْ وَطَعَنُوا فِی دِینِکُمْ فَقَاتِلُوا اٴَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّھُمْ لَااٴَیْمَانَ لَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَنتَھُونَ
۱۳ اٴَلَاتُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَکَثُوا اٴَیْمَانَھُمْ وَھَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَھُمْ بَدَئُوکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ اٴَتَخْشَوْنَھُمْ فَاللهُ اٴَحَقُّ اٴَنْ تَخْشَوْہُ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ
۱۴ قَاتِلُوھُمْ یُعَذِّبْھُمْ اللهُ بِاٴَیْدِیکُمْ وَیُخْزِھِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْھِمْ وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ
۱۵ وَیُذْھِبْ غَیْظَ قُلُوبِھِمْ وَیَتُوبُ اللهُ عَلیٰ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ
ترجمہ
۱۱۔ اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی ہیں اور ہم اپنی آیات کی تشریح ایسے لوگوں کے لئے کرتے ہیں جو جانتے ہیں ۔
۱۲۔ اور اگر وہ معاہدے کے بعد عہدو پیمان کو توڑدیں اور تمھارے دین پر طعن وطنز کریں تو آئمہٴ کفر سے جنگ کرو اس لئے کہ ان کا کوئی عہدو پیمان نہیں، شاید وہ دستبردار ہوجائیں ۔
۱۳۔ کیا اس گروہ کے ساتھ کہ جس نے اپنا عہدو پیمان توڑدیا ہے اور جو (شہر سے) پیغمبرکے اخراج کا پختہ ارادہ کرچکے ہیںتم جنگ نہیں کرتے ہو حالانکہ پہلے انھوں نے (تم سے جنگ کی )ابتداء کی تھی، کیا ان سے ڈرتے ہو جبکہ خدا زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔
۱۴۔ ان سے جنگ کرو کہ خدا انھیں تمھارے ہاتھوں سزا دینا چاہتا ہے اور انھیں رسوا کرے گا اور مومنین کے ایک گروہ کے سینہ کو شفا بخشے گا (اور ان کے دل پر مرہم رکھے گا)
۱۵۔ اور ان کے دلوںں کے غیظ وغضب کو لے جائے گا اور خدا جس شخص کی چاہتا ہے (اور اسے اہل سمجھتا ہے) توبہ قبول کرلیتا ہے اور خدا عالم وحکیم ہے ۔

 

دشمن سے جنگ کرنے سے کیوں ڈرتے ہوشدّت عمل اور سختی ساتھ ساتھ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma