توسل کی حقیقت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
قرآن اور توسلچند اہم نکات

اس آیت میں روئے سخن اہل ایمان کی طرف ہے اور نجات کے لئے انھیں تین حکم دیئے گئے ہیں پہلے فرمایا گیا ہے ۔
اے ایمان والو! تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کر(یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ ) ۔
اس کے بعد حکم دیا گیا ہے تقرب الہٰی کا وسیلہ اختیار کرو( وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَةَ) آخر میں راہ خدا میں جہاد کا حکم دیا گیا ہے ( وَجَاہِدُوا فِی سَبِیلِہِ)ان سب احکام پر عمل کا نتیجہ ہو گا کہ تم نجات پا جاوٴ گے (لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ) ۔
اس آیت میں جس موضوع کو زیر بحث لایا جانا چاہئیے وہ اس میں اہل ایمان کو وسیلہ تلاش کرنے کے لئے دیا جانے والا حکم ہے ۔
” وسیلہ “ قرب حاصل کرنے کو کہتے ہیں یا اس چیز کو کہتے ہیں جو لگاوٴ اور رضا و رغبت سے دوسرا کا قرب حاصل کرنے کا باعث بنے لہٰذا آیت میں لفظ ”وسیلہ “ ایک وسیع مفہوم کو حامل ہے اس کے مفہوم میں ہر وہ کام اور چیز شامل ہے جو پر ور دگار کی بار گاہِ مقدس سے قریب ہونے کا باعث ہو اس میں اہم ترین خدا اور پیغمبر اکرم پر ایمان لانا او رجہاد کرنا، ،نیز نماز، زکوٰة،روزہ اور خانہ خدا کا حج ، اسی طرح صلہ رحمی، راہ خدا میں پنہاں ویا آشکار خرچ کرنا اور ایسا اچھا اور نیک کام اس کے مفہوم میں داخل ہے ہے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے :
ان افضل ماتو سل بہ المتوسلون الیٰ اللہ سبحانہ و تعالیٰ الایمان بہ و برسلہ والجھاد فی سبیلہ فانہ ذروة الاسلام، وکلمة الاخلاص فانھا الفطرة و اقام الصلوٰة فانھا الملة و ایتاء الزکوٰة فانھا فریضة واجبة و صوم شھر رمضان فانہ جنة من العقات وحج البیت و اعتمارہ فانھما ینتفیان و یرحضان الذنب، وصلة الرحم فانھا مثراة فی المال و مغساة فی الاجل، و صدقہ السر فانھا تکفر الخطینة و صدقة العلانیة فانھا تدفع میّة السوء و صنائع المعروف فانھا تقی مصارع الھوان۔
یعنی بہترین چیز اجس کے ذریعے اور وسیلے سے تقرب ِ الہٰی حاصل ہو سکتا ہے وہ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لانا اور جہاد کرنا ہے کہ جو ہسارِ اسلام کی چوٹی ہے اسی طرح جملہٴ اخلاص ( لاالہ الااللہ ) کہ جو وہی فطرتِ توحید ہے اور نما ز قائم کرنا کہ جو آئین اسلام ہے اور زکوٰة کہ جو واجب فریضہ ہے او رماہ رمضان کے روزے کہ جو گناہ اور عذاب ِ خدا کے سامنے سپر ہیں اور حج و عمرہ کہ جو فقرو فاقہ اور پریشانی کو دور کرتے ہیں اور گناہوں کو دھو ڈالتے ہیں اور صلہ رحمی کہ جو مال و ثروت کو زیادہ اور زندگی کو طویل کرتا ہے اور مخفی طور پر خرچ کرنا کہ جو گناہوں کی تلافی کا باعث بنتا ہے اور ظاہری طور پر خرچ کرنا کہ جو ناگہانی اور بری موت کو دور کرتا ہے اور نیک کہ جو انسان کو ذلت و خواری کے گڑھے میں گرنے سے بچا تے ہیں ( سب تقرب الہٰی کا وسیلہ ہیں )
یہ یاد وہانی ضروری ہے یہاں یہ مقصد ہر گز نہیں کہ کوئی چیز ذات ِ پیغمبر یا امام سے مستقل طور پر مانگی جائے بلکہ مراد اعمال ِ صالح بجا لانا ہے پیغمبر و امما کی پیروی کرنا ہے ، ان کی شفاعت کا حصول ہے یا پھر ان کے مقام و مکتب کا واسطہ دینا ہے ( جوکہ خود ایک قسم کا احترام ہے اور اس سے واسطہ دینے والے کی نظر میں ان کی حیثیت و مقام کی اہمیت ظاہر ہو تی ہے اور یہ بھی ایک قسم کی خدا کی عبادت ہے ) اور اس ذریعے خدا سے مانگا جائے تو اس میں کوئی بوئے شرک نہیں اور نہ ہی یہ قرآن کی دوسری آیات کے خلاف ہے اور نہ ہی یہ زیر بحث آیت کے عمومی مفہوم سے متجا وز ہے ( غور کیجئے گا) ۔
انبیاء، آئمہ اور خدا کے نیک بندوں کی شفاعت بھی کہ جو صراحت ِ قرآنی کے مطابق تقرب ِ الہٰی کا ذریعہ ہے وسیلہ کے وسیع مفہوم میں داخۺ ہے ۔ اسی طرح پیغمبر اور امام کی پیروی بھی بار گاہ ِ الہٰی کی قربت کا موجب ہیں یہاں تک کہ خدا کو انبیاء، آئمہ اور صالحین کے مرتبہ و مقام کا واسطہ بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے کیونکہ ان کا ذکر در اصل ان کے مقام او رمکتب کو اہمیت دینے کے مترادف ہے ۔
جن لوگوں نے زیر نظر آیت کو ان کے مفاہیم میں سے کسی ایک کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے ان کے پاس در حقیقت اس تخصیص کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ کیونکہ جیسے ہم کہہ چکے ہیں لغوی مفہوم کے لحاظ سے ہر چیز جو تقرب کا سبب بنے ” وسیلہ “ ہے ۔

 

قرآن اور توسلچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma