یہودیوں کی تحریف

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
دائمی دشمن”لعن “ لغت میں دھنکار نے اور دور کرنے کے معنی میں ہے

وہ تمام آیات جو قرآن مجید میں یہودیوں کی تحریفات کے بارے میں آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی آسمانی کتاب میں کیسا کیسا تغیر و تبدل کرتے تھے ۔
بعض اوقات وہ تحریف معنوی کا ارتکاب کرتے تھے یعنی اپنی آسمانی کتاب کی آیات کی حقیقی معافی کے خلاف تفسیر کرتے تھے الفاظ نہں بدلتے تھے معافی بدل دیتے تھے ۔
کبھی تحریف لفظی کا ارتکاب کرتے تھے ۔ استہزاء و مسخرہ پن کرتے ہوئے” سمعا و اطعنا“ ( ہم نے سنا اور اطاعت کی )کہنے کے بجائے ” سمعنَا و عصینا“ ( ہم نے سنا اور مخالفت کی ) کہتے تھے ۔
بعض اوقات وہ آیات کا کچھ حصہ چھپادیتے ۔ جو کچھ ان کے مزاح کے مطابق ہوتا اسے ظاہر کرتے اور جو مخالف ہوتا اسے مخفی رکھتے ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات آسمانی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی اس کے ایک حصے پر ہاتھ رکھ دیتے تھے تاکہ دوسری طرف والا غافل رہے اور اسے پڑھ نہ سکے۔ جیسا کہ سورہٴ مائدہ کی آیہ ۴۱ کے ذیل میں ابن صوریا کے ذکر میں آئے گا ۔
کیا خدا کسی کو سنگدل بنا تا ہے
زیر بحث آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک گروہ کی سندگدلی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے ہم جانتے ہیں کہ سنگدلی اور عدم انعطاف حق سے انحراف اورگناہوں کا سر چشمہ بن جاتا ہے یہاں سوال ابھرتا ہے کہ جب اس کام کا فاعل خدا ہے تو ایسے اشخاص اپنے اعمال کے جواب وہ کیسے ہو سکتے ہیں اور کیا یہ ایک طرح سے جبر و اکراہ نہیں ؟
قرآن کی مختلف آیات، یہاں تک کہ زیر نظر آیت میں بھی غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بہت سے مواقع پر لوگ اپنے برے اعمال کے باعث خدا تعالیٰ کے لطف اور ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں در حقیقت ان کا عمل ہی ان کے فکری و اخلاقی انحراف کی بنیاد بنتا ہے اور وہ اپنے ان اعمال کے نتائج سے کسی طور بھی کنارہ کش نہیں ہوسکتے لیکن ہر سبب کا اثر چونکہ خدا کی طرف سے ہے لہٰذا قرآن میں ایسے آثار کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے ، جیسے زیر نظر آیت میں ہے : انھوں نے چونکہ پیمان شکنی کی لہٰذا ہم نے ان کے دلوں کو سخت او رناقابلِ انعطاف بنادیا ۔ سورہٴ ابراہیم آیت ۲۷ میں ہے
ویُضل اللہ الظالمینَ۔
اور خدا ظالموں کو گمراہ کرتا ہے ۔
اسی طرح سورہٴ توبہ آیت ۷۷ میں بعض عہد شکنی کرنے والوں کے بارے میں ہے :
فاعقبتم نفاقا فی قلوبھم الیٰ یوم یلقونہ بما اختلفوا اللہ ما وعدوہ بما کانوں یکذبون۔
ان کی پیمان شکنی اور جھوٹ کی وجہ سے خدا نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا ۔
اس طرح کی تعبیرات قرآن میں بہت ہیں ۔
واضح ہے کہ یہ برے آثار جن کا سرچشمہ خود انسان کا عمل ہے انسان کے اختیار اور ارادہ کی آزادی کے منافی ہر گز نہیں ہیں کیونکہ اس کی بنیادخود اسن نے فراہم کی ہے اور اس نے جان بوجھ کر اس وادی میں قدم رکھا ہے اور یہ اس کے اعمال کا قہری نتیجہ ہے ۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص جان بوجھ کر شراب پئے اور جب وہ مست ہو جائے اورجرائم کرنے لگے تو یہ ٹھیک ہے کہ نشے کی حالت میں وہ خود اختیار نہیں رکھتا لیکن چونکہ اس نے اس کے اسباب خود پیدا کیے ہیں اور وہ جانتا ہے کہ نشے کی حالت میں اس سے ایسے افعال سر زد ہو سکتے ہیں کہ لہٰذا وہ اپنے افعال کا جواب وہ ہے  اس طرح ایسے مواقع پر اگر کہا جائے کہ چونکہ انھوں نے شراب پی ہے اور ہم نے ان کی عقل ختم کردی ہے اور ان کے اعمال کی وجہ سے ہم نے جرائم میں مبتلا کردیا ہے  کیا اس بات میں کو ئی اشکال اور جبر کا پہلو ہے ؟
خلاصہ یہ ہے کہ تمام ہدایتیں اور گمراہیاں جنہیں قرآن میں خدا کی طرف منسوب کیا گیا ہے یقینا یہ خود انسان کے خود وہ افعال کی وجہ سے ہے اور انہی کے باعث وہ ہدایت کرے اور دوسرے کو گمراہ کردے ۔ 1

 

۱۴۔ وَمِنْ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَی اٴَخَذْنَا مِیثَاقَہُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ فَاٴَغْرَیْنَا بَیْنَہُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَسَوْفَ یُنَبِّئُہُمْ اللهُ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ۔
ترجمہ
۱۴۔اور لوگ ( مسیح کی دوستی اور ) نصرانیت کا دعویٰ رکھتے ہیں ، ان سے ( بھی ) ہم نے عہد و پیمان لیا ، لیکن ان لوگوں نے بھی اس چیز کا ایک حصہ فراموش کردیا جو انھیں دی گئی تھی لہٰذا ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لئے عداوت ڈال دی اور جو کچھ انھوں نے انجام دیا عنقریب خدا انھیں اس کے ( نتائج کے ) بارے میں آگاہ کرے گا ۔

 

 

 

 

 


 
1-تفسیر نمونہ جلد اوّل ص ۱۴۰( اردو ترجمہ ) میں اس بارے میں مزید توضیح کی جاچکی ہے ۔

 

دائمی دشمن”لعن “ لغت میں دھنکار نے اور دور کرنے کے معنی میں ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma