ایک اہم سوال اور اس کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
حلال شکارگوشت کے استعمال میں اعتدال

آیت کے سلسلے میں صرف ایک سوال اب باقی رہ جاتاہے اور وہ یہ ہے کہ اوّل تو مذکورہ بالا اسناد اور آیہ ”یا ایہا الرّسول بلغ ما انزل الیک“ کے ذیل میں پیش کی جانے والی اسناد کے مطابق دونوں آیات واقعہ غدیر سے مربوط ہیں تو پھر ان دونوں کے در میان فاصلہ کیوں رکھا گیاہے۔ ایک سُورہ مائدہ کی تیسری آیت ہے اور دوسری آیت کا نمبر ۶۷ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آیت کا یہ حِصّہ جو واقعہ غدیر سے مربوط ہے، ایسے مطالب سے منسلک کیا گیا ہے جو حلال و حرام گوشت کے بارے میں ہیں اور ان دونوں کے در میان کوئی مناسبت نظر نہیں آتی ۔1
اس کا جواب یہ ہے:
اوّلا ۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآنی آیتیں اور اسی طرح سورتیں تاریخِ نزول کے مطابق جمع نہیں کی گئیں بلکہ مدینہ میں نازل ہونے والی بہت سی سورتیں میں مکّی آیات ہیں اور اس کے برعکس مکّی سُورتیں میں مدنی آیتیں موجود ہیں۔
اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان دو آیات کا ایک دوسرے سے الگ ہوجانا کوئی تعجّب کی بات نہیں ہے (البتہ ہر صُورت کی آیات کو فرمان پیغمبر کے تحت رکھا گیاہے) ہاں البتہ آیات اگر تاریخِ نزول کے مطابق جمع کی گئی ہوتیں پھر یہ فاصلہ ہوتا تو اعتراض کیا جاسکتا تھا ۔
ثانیا ۔ ممکن ہے کہ غدیر سے مربوط آیت کو حلال و حرام غذاؤں سے متعلق آیت میں تحریف ، حذف اور تغیّر سے محفوظ رکھنے کے لیے ہو اکثر ایسا ہوتاہے کہ ایک نفیس چیز کو محفوظ رکھنے کیلیے عام سی چیزوں میں ملا دیا جاتاہے تا کہ اس کی طرف کم توجہ ہو (منور کیجیے گا) ۔
وہ حوادث جو رسول اللہ کی زندگی کے آخری لمحات میں رونما ہوئے اور بعض افراد نے آپ کی طرف سے وصیّت نامہ لکھے جانے کی صریح مخالفت کی ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ (نعوذ باللہ) حتّٰی کہ رسولِ خداکے بارے میں کہا گیا کہ انھیں ہذیان ہوگیاہے۔اور وہ یہ سب باتیں ہماری کے عالم میں کررہے ہیں۔ رسول اللہ کو ایسی ایسی ناموزوں تہمتیں لگائی گئیں۔ اس واقعے کی تفصیل اسلامی دنیا کی مشہور کتب میں موجود ہے اور سنی شیعہ دونوں کی اہم کتب میں یہ واقعہ مذکور2 ہے۔
اسی طرح یہ روایات کتاب صحیح مسلم جز۲ میں آخری وصیّوں کے زیر عنوان صفحہ ۱۴ پر موجود ہے۔
علاوہ ازیں دیگر کتب میں بھی یہ روایات موجود ہے۔ سیّد شرف الدین مرحوم نے المراجعات میں ”رزیہ یوم الخمیس“ کے زیر عنوان یہ روایات نقل کی ہیں۔
یہ واقعہ اس سلسلے میں شاہد ناطق ہے کہ بعض لوگ مسئلہ خلافت اور رسول اللہ جانشینی کے معاملے میں بہت حسّاس تھے اور وہ اس کے انکار کے لیے ہر انتہائی قدم اٹھانے کو تیّار تھے۔
تو کیا ایسے حالات میں ضروری نہیں تھا کہ خلافت سے مربوط اسناد کی حفاظت کی جاتی اور انھیں آنے والے لوگوں تک بحفاظت پہنچانے کا احترام کیا جاتا اور اسے عام مطالب کے ساتھ ملاکر بیان کیا جاتا تا کہ زیادہ سخت مخالفین کی ان پر کم توجہ ہو۔
علاوہ ازیں جیسا کہ ہم جان چکے ہیں کہ اس بات سے متعلق کہ ”الیوم اکملت لکم دینکم“ کے غدیر اور پیغمبر اکرم کی جانشینی کے متعلق نزول سے مربُوط اسناد صرف شیعہ کتب میں موجود نہیں ہیں کہ ان پر کوئی اعتراض ہو بلکہ اہل سنّت کی بہت سی کتب میں بھی یہ روایات موجود ہیں۔ ان میں یہ حدیث مختلف طرق سے تین مشہور صحابہ سے بھی منقول ہے۔
اضطراری کیفیّت میں حرام گوشت کا حُکم
آیت کے آخر میں پھر حرام گوشت سے مربوط مسائل کا ذکر ہے یہاں اضطراری صُورت کے لیے حکم بیان کیا گیا ہے: اور جو لوگ بھوک کی حالت میں حرام گوشت کھانے پر مجبور ہوجائیں جبکہ وہ گناہ کی طرف رغبت نہ رکھتے ہوں تو پھر یہ ان کے لیے حلال ہے کیونکہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے اور ضرورت کے وقت وہ اپنے بندوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا اور نہ انھیں اس پر سزا دیتاہے (فمن اضطر فی مخمصة غیر متجائف لا ثم فان اللہ غفور رحیم) ۔
مخمصة“ کا مادہ ”خمص“ (بر وزن ”لمس“)ہے جس کا معنی ہے دھنں جانا ۔ یہ لفظ سخت بھوک کیلیے بھی استعمال ہوتاہے۔ جبکہ بھوک شکم کے دھنں جانے کا باعث ہوچاہے قحط کے زمانے میں ہویا کوئی انفرادی طور پر اس مشکل صورتِ حال سے دوچار ہوجائے۔
غیر متجائف لا ثم“…کا معنی ہے” گناہ کی طرف میلان یا رغبت نہ رکھتا ہو“ یہ اضطرار کے مفہوم کی تاکید کے طور پر آیاہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ ضرورت کے وقت حرام گوشت کھانے میں تیزی نہ دکھائے اور اسے حلال نہ سمجھنے لگے یا یہ کہ اضطرار کی بنیاد اس نے خود فراہم نہ کی ہو اور یا یہ کہ کسی ایسے سفر میں اس مشکل سے دوچار نہ ہوا ہو، جو اس نے فعل حرام انجام دینے کے لیے اختیار کیا ہو یہ بھی ممکن ہے کہ اس عبادت سے یہ تمام معانی مراد ہوں۔
اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لیے تفسیر نمونہ جلد اول صفحہ ۴۱۳ و صفحہ ۴۱۴ (اردو ترجمہ) کی طرف رجوع فرمائیں۔

 

یَسْئَلُونَکَ ما ذا اٴُحِلَّ لَہُمْ قُلْ اٴُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّباتُ وَ ما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُکَلِّبینَ تُعَلِّمُونَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللَّہُ فَکُلُوا مِمَّا اٴَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَ اذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیْہِ وَ اتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ سَریعُ الْحِسابِ (4)
ترجمہ
۴۔ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال کی گئی ہیں، کہہ دو کہ پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں، نیز ان شکاری جانوروں کا شکار (بھی تمھارے لیے حلال ہے) جنھیں تم نے وہ کچھ سکھا یا جس کی خدا نے تھیں تعلیم دی تھی ۔ بس جو کچھ یہ جانور تمھارے لیے(شکار کرتے ہیں اور) روک رکھتے ہیں وہ کھا لو اور (جب جانور کو شکار کے لیے چھوڑو (تو) اس پر خدا کا نام لیا کرو اور خدا سے ڈرو کیونکہ خدا جلد حساب لینے والاہے۔

شان نزول

اس آیت کے بارے میں کئی ایک شانِ نزول ذکر کی گئی ہیں ان میں سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ زید الخیر اور عدی بن حاتم جو صحابی ٴ ِ رسول تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہم کچھ لوگ ہیں جو شکاری کُتّوں اور بازوں کی مدد سے شکار کرتے ہیں، اور ہمارے شکاری کُتے حلال جنگلی جانوروں کو پکڑ لیتے ہیں ان میں سے بعض تو زندہ ہمارے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور ہم انھیں ذبح کر لیتے ہیں لیکن ان میں سے بعض کُتّوں کی وجہ سے مارے جاتے ہیں اور ہمیں انھیں ذبح کرنے کا موقع نہیں ملتاہم جانتے ہیں کہ خدا نے مردار کا گوشت حرام قرار دیا ہے اب ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
اسی سلسلے میں زیر نظر آیت نازل ہوئی اور انھیں جواب دیا گیا ۔ 3

 

 

 

 

 


 

 

 

 

 

1- یہ رسول تفسیر المنار میں اس آیت سے مربوط مباحث میں اشارتاً مذکور ہے (جلد ۶ ص۴۶۶)
2- یہ حدیث اہل سنت کی مشہور ترین کتاب صحیح بخاری میں کئی مقامات پر نازل ہوئی ہے ان میں سے کتاب المرضی جزء ۴ میں، کتاب العلم جزء اول صفحہ ۲۲ پر۔ کتاب الجہاد، باب جوائز و قدس صفحہ ۱۱۸ جز ۲ میں بہی موجود ہے۔
3- تفسیر قرطبی ج۳، زیر بحث آیت کے ذیل میں۔
حلال شکارگوشت کے استعمال میں اعتدال
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma