۲۔ ایفائے عہد کی اہمیت:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
ایک آیت میں آٹھ احکام ۱۔ ایک فقہی قاعدہ :

عہد و پیمان کی وفا کا مسئلہ جو زیر بحث آیت میں بیان ہوا ہے ،اجتماعی زندگی کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے اور اس کے بغیر کوئی اجتماعی ہم کاری اور تعلق ممکن نہیں ہے اور اگر انسان اسے ہاتھ سے دے بیٹھے تو اجتماعی زندگی اور اس کے ثمرات کو عملی طور پر کھو بیٹھتا ہے ۔ اسی بنا پر اسلامی مصادر او رکتب میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ شاید بہت کم کوئی اور چیز ہو جسے اس قدر وسعت سے بیان کیا گیا ہو کیونکہ اس کے بغیر تو معاشرہ ہر ج مرج اور عدم اطمینان کا شکار ہو جائے گا، جو نوع انسانی کے لئے سب سے بڑی اجتماعی مصیبت ہے ۔
نہج البلاغہ میں مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں حضرت امیر المومنین (علیه السلام) فرماتے ہیں :
فانہ لیس من فرائض اللہ شیء الناس اشد علیہ اجتماعا مع تفرق اھوائھم و تشتت ارائھم من تعظیم الوفا بالعقود، و قد لزم ذٰلک المشرکوں فیھا بینھم دون المسلمین لما استوبلوا من عواقب الغدر۔
دنیا بھر کے لوگوں میں تمام تر اختلافات کے باوجود ایفائے عہد کی طرح کسی اور امر پر اتفاق نہیں ہے ۔ اسی لئے تو زمانہ جاہلیت کے بت پرست بھی اپنے عہد و پیمان کا احترام کرتے تھے ۔ کیونکہ وہ عہد شکنی کے درد ناک انجام کو جان چکے تھے ۔ 2
امیر المومنین (علیه السلام) ہی سے منقول ہے ، آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
ان اللہ لایقبل الا العمل الصالح ولا یقبل اللہ الا الوفاء بالشروط و العھود ۔
خدا اپنے بندوں سے عمل صالح کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور ( اسی طرح ) خدا شرائط اور عہد و پیمان کے ( بارے میں بھی) ایفاء کے علاوہ کچھ قبول نہیں کرتا ۔ (سفینة البحار، ج۲ صفحہ ۲۹۴۔ )
پیغمبر اکرم سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا:
لادین لمن لا عھد لہ (بحار جلد ۱۶ صفحہ ۱۴۴) ۔
جو شخص اپنے عہد و پیمان کا وفا دار نہیں اس کا کوئی دین نہیں ۔
لہٰذا ایفائے عہد ایک ایسی بات ہے جس میں افرادِ انسانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے چاہے طرف مقابل مسلمان ہو یا کوئی غیر مسلم۔ اصطالح کے مطابق یہ انسانی حقوق میں سے ہے نہ کہ برادرونِ دینی کے حقوق میں سے ۔
ایک حدیث میں حضرت امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا :
ثلاث لم یجعل اللہ عز وجل لا حد فیھن رخصة ، اداء الامانة الیٰ البر و الفاجر، و الوفاء بالعھد للبر والفاجر، و بر الوالدین برین کانا او فاجرین ۔
تین چیزیں ایسی ہیں جن کی مخالفت کی خدا نے کسی شخص کو اجازت نہیں دی ۔ ۱۔ امانت کی ادائیگی، ہر شخص کو چاہے وہ نیک ہو یا بد ۔ ۲۔ ایفائے عہد ہر کسی سے چاہے وہ اچھا ہو یا برا اور (اصول کافی جلد ۲ صفحہ ۱۶۲)ماں باپ سے حسن سلوک ، چاہے وہ اچھے ہو ں یا برے۔
یہاں تک کہ ایک رویت میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے :
اگر کوئی شخص اشارے سے بھی کوئی عہد اپنے ذمے لے لے تو اسے وفا کرنا چاہئیے۔
اس روایت کا متن یہ ہے :
اذا اومی احد من المسلمین اواشار الیٰ احد من المشرکین فنزل علی ٰ ذٰلک فھو فی امان ۔3
عہد و پیمان کے بارے میں حکم پر گفتگو ہو چکی جو کہ تمام احکام اور خدائی پیمانوں پر محیط ہے اس کے بعد احکام ِ اسلام کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے ان میں سے پہلا حکم کچھ جانوروں کے گوشت کے حلال ہونے کے بارے میں ہے ، فرمایا گیا ہے : چو پائے( اور ان کے جنین ) تمہارے لئے حلال کئے گئے ہیں

((اٴُحِلَّتْ لَکُمْ بَہیمَةُ الْاٴَنْعامِ ) ۔
انعام “جمع ہے” نعم “کی جس کا معنی ہے اونٹ ، گائے اور گوسفند ۔ 4
بھیمة “ کا مادہ ”بھمة“ ( بر وزن” بھمة “ ) ہے ۔ اس کا معنی ہے ” محکم اور سخت پتھر“ اور ہر چیز جس کا ادراک مشکل ہو اسے ” مبہم “ کہتے ہیں اور وہ تمام جانور جو بول چال نہیں سکتے انھیں بھیمة کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی آواز میں ابہام ہوتا ہے ۔ لیکن عام طور پر یہ لفظ چوپایوں کے بارے میں استعمال ہوتا ہے اور اس میں درندے اور پرندے شامل نہیں ہوتے چونکہ حیوانات کے جنین ( جو مادہ جانور کے پیٹ میں ہوتے ہیں ) بھی ایک قسم کا ابہام رکھتے ہیں اس لئے انھیں بھی ” بھبیمة“ کہا جاتا ہے ۔
اس بنابر” بھیمة الانعام “کا حلال ہونا یا تو تمام چو پایوں کے لئے ہے ( البتہ وہ جانور مستثنیٰ ہیں جن کا ذکر بعد کی آیت میں آئے گا) یا ان بچوں کے حلال ہونے کے معنی میں ہے جو حلال گوشت جانوروں کے شکم میں ہوں ( وہ بچے کہ جن کی خلقت پوری ہوگئی ہے اور کھال او ربال ان پر اگ آئے ہیں ۔ 5
کچھ جانوروں کے حلال ہونے کے بارے میں پہلے سے مشخص تھا مثلاً اونٹ، گائے اور گوسفند ، لہٰذا ممکن ہے کہ اس آیت میں ان کی جنین کی حلیت کی طرف اشارہ ہو لیکن جو بات آیت کے معنی سے زیادہ قریب نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے یعنی ایسے جانوروں کے حلال ہونے کے بارے میں بھی ہے اور ان کی جنین کے حلال ہونے سے متعلق بھی ہے اور اگر ایسے جانوروں کا حکم پہلے سے بھی معلوم تھا تب بھی یہاں مستثنیٰ قرار دیئے جانے والے جانوروں کے حکم سے پہلے مقدمے کے طور پر اس حکم کا تکرار کیا گیا ہے ۔ اس جملے کی تفسیر کے بارے میں جو کچھ ہم کہہ چکے ہیں اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس حکم کا ربط ایفائے عہد کے لازمی ہونے سے اس بنا پر تھا کہ ایفائے عہد ایک کلی بنیاد ہے ۔ یہ کلی بنیاد احکام الہٰی پراس لحاظ سے ایک تاکید ہے کہ احکام الہٰی بھی خدا کے بندوں سے عہد و پیمان کی ایک قسم ہے اس کے بعد پھر کچھ احکام بیان کیے گئے ہیں جن میں بعض جانوروں کے حلال ہونے کا ذکر ہے اور بعض جانوروں کے گوشت کے حرام ہونے کا ذکر ہے ۔
پھر آیت میں چوپایوں کے گوشت کی حرمت کے بارے میں دو استثنائی حکم ہیں : ان جانوروں کے گوشت کو استثناء کرنا حرام ہے جن کی تحریم عنقریب تمہارے لئے بیان کی جائے گی ( إِلاَّ ما یُتْلی عَلَیْکُم) ( یعنی  حج کے مناسک یا عمرہ کے مناسک انجام دینے کے لئے باندھے گئے احرام کی حالت میں شکار کرنا حرام ہے ) (إِلاَّ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اٴَنْتُمْ حُرُمٌ ) ۔ 6
آیت کے آخر میں فرماتا ہے : خدا جو حکم چاہتا ہے ، صادرکرتا ہے  یعنی ۔ خدا چونکہ ہر چیز سے آگاہ ہے اور ہر چیز کا مالک ہے لہٰذا جو حکم بندوں کی مصلحت میں ہو اور حکمت اس کی متقاضی ہو اسے جاری کردیتا ہے ( إِنَّ اللَّہَ یَحْکُمُ ما یُریدُ) ۔

 

۲۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّہِ وَ لاَ الشَّہْرَ الْحَرامَ وَ لاَ الْہَدْیَ وَ لاَ الْقَلائِدَ وَ لاَ آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرامَ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنْ رَبِّہِمْ وَ رِضْواناً وَ إِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا وَ لا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ اٴَنْ صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ اٴَنْ تَعْتَدُوا وَ تَعاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوی وَ لا تَعاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَ الْعُدْوانِ وَ اتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ شَدیدُ الْعِقابِ ۔
ترجمہ
۲۔ اے ایمان والو! شعائر خدا وندی ( او رمراسم حج کو محترم سمجھو اور ان کی مخالفت) کو حلال قرار نہ دو اور نہ ہی حرام مہینہ کو او رنہ بغیر نشانی والی قربانیوں کو اورنہ نشانیوں والی کو اور نہ وہ جنھیں خانہ ٴ خدا کے قصد سے پر وردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے لاتے ہو اور تم حالت ِ احرام سے نکل جاوٴ تو پھر شکار کرنا تمہارے لئے کوئی منع نہیں ہے او روہ گروہ جو مسجد الحرام کی طرف ( حدیبیہ کے سال ) تمہارے آنے میں حائل ہوا تھا ۔
اس کی دشمنی تمہیں تجاوز پر نہ ابھارے اور( ہمیشہ)نیکی اور پرہیز گاری کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور( ہر گز) گناہ اور تجاوزکی راہ ساتھ نہ دو اور خدا سے ڈرو جس کی سزا سخت ہے ۔

 

 

 

 

 


 

 

 

 

 

1-نہج البلاغہ، حضرت علی (علیه السلام) کے خطوط میں سے خط نمبر ۵۳۔
2-مستدرک الوسائل ج۲ ص ۲۵۰۔
3- ” نعم “ اگر مفرد کی صورت میں استعمال ہو تو” اونٹ“ کا معنی دیتا ہے لیکن جمع کی شکل میں ہو تو اونٹ، گائے اور گوسفند بھی اس کے مفہوم میں آجاتے ہیں ( مفردات راغب ، مادہ ” نعم “ “ ) ۔
4-اگر ”بھیمة“کا معنی آیت میں ” حیوانات“ ہو تو ” انعام “ کے ساتھ اس کی اضافت ، اضافت بیانیہ کہلائے گی اوراگر ” جنین “ کے معنی میں ہو تو اس کی اضافت ، اضافت لامیہ ہو گی ۔
5۔ البتہ ” الا مایتلی علیکم “ جملہ استثنائیہ ہے اور ” غیر محلی الصید “ کم کی ضمیر سے حال ہے جو معنی کے لحاظ سے استثناء کا نتیجہ دیتا ہے ۔
 
ایک آیت میں آٹھ احکام ۱۔ ایک فقہی قاعدہ :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma