ایفائے عہدضروری ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
۱۔ ایک فقہی قاعدہ :سورةُ المَائدة

جیسا کہ اسلامی روایات اور بڑے مفسرین کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے ، سورة پیغمبر اکرم پر نازل ہونے والی آخری سورت ہے ( یا آخری سورتوں میں سے ہے ) تفسری عیاشی میں امام محمد باقر (علیه السلام) سے منقول ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (علیه السلام) نے فرمایا: ” سورہٴ مائدہ رحلت ِ پیغمبر سے دو یا تین ماہ پہلے نازل ہوئی ۔ ۱
توجہ رہے کہ اس سورہ میں وضو ، تیمم وغیرہ کے احکام اس کے آخری ہونے کے منافی نہیں ہیں کیونکہ ایسے بہت سے احکام تکرار و تاکید کا پہلو رکھتے ہیں ۔ لہٰذاایسے بعض احکام سورہٴ نساء میں بھی ہیں ۔
یہ جو بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ سورہ ناسخ ہے منسوخ نہیں ، یہ بھی اسی امر کی طرف اشارہ ہے ۔
یہ بات اس بات کی منافی نہیں جو اس تفسیر کی دوسری جلد میں سورہ ٴ بقرہ کی آیت ۲۸۱ کے ذیل میں کی گئی ہے ۔ وہاں اس آیت کے نارے میں کہاگیا ہے کہ روایات کے مطابق مذکورہ آیت پیغمبر پر نازل ہونے والی آخری آیت ہے ۔ یہاں گفتگو سورہ کے بارے میں ہے اور وہاں بات ایک آیت کے متعلق تھی ۔
اس سورہ میں اس کے خاص موقع کے وجہ سے مفاہیم اسلامی بیان کیے گئے ہیں دین سے متعلق آخری پروگراموں کا تذکرہ ہے ۔ اس میں امت کی رہبری اور پیغمبر اسلام کی جانشینی کا ذکر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس سورہ کا آغاز عہد و پیمان کے لازمی ایفا کے حکم سے ہوتا ہے ۔
پہلے جملے میں فرمایا گیا ہے : اے ایمان والو: اپنے عہد و پیمان کے ساتھ ساتھ وفا کرو (۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ ) ۔
یہ اس لئے ہے تاکہ اہل ایمان کے لئے پیمانوں اور وعدوں کا ایفا ضروری قرار دیا جائے جو وہ خدا سے پہلے باند چکے ہیں یا جن کے متعلق اس سورہ میں اشارہ ہوا ہے یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی مسافر اپنے رشتہ داروں اور پیروکاروں سے وداع ہوتے ہوئے آخری لمحوں میں تاکید کرتا ہے کہ میری وصیتوں اور نصیحتوں کو بھول نہ جانا اور جو قول و قرار تم نے میرے ساتھ نابدھے ہیں ان کے وفا دار رہنا ۔
توجہ رہے کہ ” عقود “ ” عقد “ کی جمع ہے ” عقد “ در اصل ایک محکم چیز کے اطراف کو جمع کرنے کے معنی میں ہے اسی مناسبت سے رسی کے دوسروں کو یا دو رسیوں کو ایک دوسرے سے گرہ لگا نے کو ” عقد “ کہتے ہیں بعد ازں اس حسی معنی سے معنوی مفہوم پیدا ہوگیا اور ہر قسم کے عہد و پیمان کو ” عقد“ کہا جانے لگا ۔ البتہ بعض فقہا نے تصریح کی ہے کہ عہد کی نسبت عقد کا مفہوم محدودہے کیونکہ عقدایسے پیمان کو کہتے ہیں جو بہت مستحکم ہو نہ کہ ہ رعہد و پیمان کو ۔لہٰذا اگر بعض روایات میں اور مفسرین کی بعض تحروں میں عقد اور عہد ایک ہی مفہوم میں آئے تو یہ ہماری بیان کردہ بات کے منافی نہیں ہے کیونکہ مقصد ان دو الفاظ کی اجمالی تفسیروں کا بیان کرنا تھا نہ کہ اس کی جزئیات کا تذکرہ منظور تھا ۔
اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اصطلاح کے مطابق” العقود“ ” جمع محلی بہ الف لام “ ہے جو عمومیت کے لئے ہوتی ہے اور جملہ بھی بالکل مطلق ہے لہٰذا مندر جہ بالا آیت ہر طرح کے عہد و پیمان کے وفا کرنے کے واجب ہونے کی دلیل ہے ۔
چاہے یہ محکم عہد و پیمان انسان کا انسان کے ساتھ ہو یا انسان کا خدا کے ساتھ ہو۔ اس طرح یہ تمام خدا ئی اور انسانی اور سیاسی ، اقتصادی، اجتماعی ، تجارتی ، ازدواجی وغیرہ عہد و پیمان پر محیط ہے اور اس کا ایک مکمل وسیع مفہوم ہے ، اس کی نظر تمام انسانی پہلووٴں پر ہے ، چاہے ان کا تعلق عقیدے سے ہو یا عمل سے، وہ فطری عہد و پیمان ہو یا توحیدی، اور چاہے ان کا تعلق ان معاہدوں سے ہو جو لوگ زندگی کے مختلف مسائل میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں ۔
تفسیر روح المعانی میں راغب کے حوالے سے منقول ہے کہ وضع و کیفیت کے لحاظ سے طرفین میں ہونے والے عقد کی تین قسمیں ہں ۔ کبھی عقد خدا اور بندے کے درمیان ہوتا ہے کبھی انسان اور اس کے نفس کے مابین ہوتا ہے او رکبھی عقد انسان دوسرے انسانوں سے باندھتا ہے ۔ ( تفسیر روح المعانی، زیر بحث آیت کے ذیل میں ) ۔
( البتہ عقد کی یہ تینوں قسمیں طرفین کے مابین میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جہاں انسان خود اپنے ساتھ عہد و پیمان باندھتا ہے وہاں وہ اپنے آپ کو دو اشخاص کی طرف فرض کرتا ہے ) ۔
بہر حال آیت کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ اس میں وہ عہد و پیمان بھی آجاتے ہیں جو مسلمان غیر مسلموں سے باندھتے ہیں ۔

 


۱ ۔ تفسیر بر ہان جلد اول صفحہ ۴۳۰۔
 
۱۔ ایک فقہی قاعدہ :سورةُ المَائدة
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma