چندقابل توجہ نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
شانِ نزول وہ معذور جو عشق جہاد میں آنسو بہاتے تھے

مجاہدین کا جذبہ و شہادت: ان آیات سے مجاہدین اسلام کے قوی اور عالی جذبے کا اظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ان کے دلوں میں جہاد و شہادت کا عشق موجزن تھا وہ اس اعزاز کو ہر اعزاز پرمقدم سمجھتے تھے ۔ اسی سے اس وقت اسلام کی تیز رفتار پیش رفت اور اس وقت ہماری پسماندگی کی اہم عوامل سامنے آتے ہیں ۔
ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ جہاد میں شرکت سے معافی پرجن کی آنکھوںمیں بر سات کی جھڑیا لگ جاتی ہیں ان کے ان لوگوں کے برابر ہو جائیں جو جہاد میں شر کت نہ کرنے کے لئے بہانے تراشتے ہیں ۔
اگر ایمان کی وہی روح آج بھی زندہ ہو جائے ، عشق اور جذبہ شہادت دلوں میں پھر سے موجزن ہو جائے تو آج بھی کامیابی اور پیش رفت اسی طرح سے ہو جیسے آغاز اسلام میں تھی بدبختی یہی ہے کہ ہم نے فقط اسلام کا ظاہری لباس پہن رکھا ہے ، اور اسلام ہمارے وجود کی گہرائیوں میں نہیں اترا۔ پھر بھی ہم اپنے آپ کو آغاز اسلام کے مسلمانوں کی طرح کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ۔
۲۔ جہا کے کئی مراحل ہیں : زیر بحث آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو مجاہدین کی ہمکاری سے مکمل طور پر معافی نہیں مل سکتی۔ یہاں تک کہ ج وافراد بیمار ہیں یا نابینا ہیں یا فطری طور پر ہتھیار اٹھانے اور میدان ِ جہاد میں شرکت کی طاقت نہیں رکھتےانھیں بھی چاہئیے کہ وہ زبان سے یا کسی اور طرح سے تبلیغ کے ذریعے مجاہدین کو شوق دلائیں اور ان کی معاونت کریں ایسے لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داری کو فراموش نہیں کرنا چاہئیے او ربالکل ایسے امور سے کنارہ کش نہیں ہو نا چاہیئے۔
در حقیقت جہاد کے کئی مرحلے ہیں اور اس کے ایک مرحلے سے معذور ہونا دوسرے مراحل سے معذور ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔
۳۔ ایک وسیع قانون کا سر چشمہ : ” ما علی المحسنین من سبیل “ ( نیکو کاروں سے مواخذہ کی کوئی راہ نہیں )یہ جملہ فقہی مباحث میں ایک وسیع قانون کا سر چشمہ ہے اس قانون سے علماء نے بہت سے احکام اخذکئے ہیں ۔
مثلاً اگر کسی امین شخص کے ہاتھ سے کوئی امانت بغیر کسی افراط و تفریط کے تلف ہو جائے تو ایسا شخص نقصان کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں دیگر دلائل کے علاوہ اس آیت کو بھی پیش کیا جاتا ہے ۔
البتہ اس میں شک نہیں کہ یہ آیت مجاہدین کے بارے میں ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ آیت کا کسی ایک واقعہ کے بارے میں ہونا اس کی عمومیت کو ختم نہیں کرتا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی ایک مسئلہ کے بارے میں ہونا اسے ہر گز اسی میں محدود نہیں کرتا ۔

۹۴۔ یَعْتَذِرُونَ إِلَیْکُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَیْھِمْ قُلْ لاَتَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَکُمْ قَدْ نَبَّاٴَنَا اللهُ مِنْ اٴَخْبَارِکُمْ وَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۔
۹۵۔ سَیَحْلِفُونَ بِاللهِ لَکُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَیھِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْھُمْ فَاٴَعْرِضُوا عَنْھُمْ إِنّھُمْ رِجْسٌ وَمَاٴْوَاھُمْ جَھَنَّمُ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ۔
۹۶۔ یَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنھُمْ فَإِنَّ اللهَ لاَیَرْضَی عَنْ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ۔
ترجمہ
۹۴۔ جس وقت تم ان کی طرف ( جنھوں نے جہاد سے تخلف کیا ہے ) لوٹ کر آئے تو تم سے عذر خواہی کریں گے کہہ دو کہ معذرت نہ کرو ہم ہر گز تم پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ اللہ نے ہمیں تمہاری خبروں سے آگاہ کیا ہے اور خدا اور اس کا رسول تمہارے اعمال دیکھتا ہے پھر تم اس کی طرف پلٹ جاوٴ گے جو پنہاں اور آشکار سے آگا ہ ہے اور تمہیں اس سے آگاہ کرے گا (اور اس کی جزا دیگا ) جو کچھ تم انجام دیتے تھے ۔
۹۵۔ جب تم ان کی طر ف لوٹ کر گئے تو وہ تمہارے لئے قسم کھائیں گے ان سے اعراض( اور صرف ِ نظر) کرو ۔ تم ان سے اعراض کرو ( اور منہ پھیر لو)کیونکہ وہ پلید ہیں اور ان کے رہنے کی جگہ جہنم ہے ، ان کے اعمال کی سزا میں جو وہ انجام دیتے تھے ۔
۹۶۔ قسم کھا کے تم سے چاہتے ہیں کہ ان سے راضی ہو جاوٴ اگر تم ان سے راضی ہو جاوٴ تو خدا فاسقین کے گروہ سے راضی نہیں ہوگا ۔

 


 

شانِ نزول وہ معذور جو عشق جہاد میں آنسو بہاتے تھے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma