چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
شان ِ نزول منافق کم ظرف ہوتے ہیں

۱۔ ”فَاٴَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوبِہِمْ “سے بخوبی روشن ہے کہ بہت سے گناہوں اور برائیاں یہاں تک کہ کفر و نفاق ایک دوسرے کی علت اور معلوم ہیں کیونکہ مندرجہ بالا جملہ صراحت کے ساتھ بتاتاہے کہ ان کا بخل اور وعدہ شکنی اس بات کا سبب بنی ہے کہ نفاق ان کے دلوں میں طرح طرح کی سازشوں اور فتنوں کا بیج بوئے ۔ یہی صورت دوسرے گناہوں اور غلط کاموں کی ہے ۔ اس لئے بعض کتب میں ہے کہ کبھی کبھی بڑے گناہوں کی وجہ سے انسان دنیا سے بے ایمان ہو کر اٹھتا ہے ۔
۲۔ ” یوم یلقونہ“ جس کی ضمیر ” خد اکی طرف لوٹتی ہے ، سے مراد قیامت کا دن ہے کیونکہ ”لقآء اللہ “ اور اسی قسم کی دوسری تعبیریں عام طور پر قرآن میں قیامت ہی کے بارے میں آئی ہیں یہ درست ہے کہ موت واقع ہونے کے ساتھ ہی عمل کا دور شروع ختم ہو جاتا ہے اور اچھے برے کاموںکا نامہ عمل بند ہ وجاتا ہے لیکن ان کے آثار اسی طرح قیامت تک باقی رہیں گے ۔
البتہ بعض مفسریں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” یلقونہ“ کی ضمیر بخل کی طرف لوٹ تی ہے یعنی جب تک وہ اپنے بخل کا نتیجہ دیکھیں گے سز ا پائیں گے۔
اسی طرح یہ احتمال بھی ہے کہ پروردگار کی ملاقات سے مراد موت کا لمحہ ہے مگر یہ سب احتمالات آیت کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہیں اور ظاہری مفہوم وہی ہے جو ہم لکھ چکے ہیں ۔
اس چیز کے بارے میں کہ پروردگار عالم کی ملاقات سے کیا مراد ہے ۔ سورہٴ بقرہ کی آیت۴۶ کے ضمن میں جلد اوّل ( ص ۱۸۳ اردو ترجمہ ) میں ہم نے بحث کی ہے اسے ملاحظہ کیجئے ۔
۳۔ زیر نظر آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتوتا ہے کہوعدہ توڑنا اور جھوٹ بولنا منافقوں کی صفاست ہیں اور یہ منافق ہی ہیں جو خدا کے ساتھ اپنے وعدوں کی بڑی تاکید کے ساتھ باندھتے ہیں پھر انھیں پاوٴں کے نیچے روند ڈالتے ہیں یہاں تک کہ اپنے پروردگار سے جھوٹ بولتے ہیں ۔
ایک مشہور حدیث جو رسول اکرم سے منقول ہے بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے ۔ حضور نے فرمایا :
للمنافق ثلاث علامات اذا حدث کذب و اذا وعدہ خلف و اذا ائتمن خان
منافق کی تین علامتیں ہیں ۔ ۱ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ۔ ۲ جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا ۔
۳۔ جب اس کے پاس امانترکھیں تو اس میں خیانت کرتا ہے ۔ ۱
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ بالا داستان ( ثعلبہ کا واواقعہ) میں تینوں نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس نے جھوٹ بولا ، وعدہ توڑا اور اس مال میں سے جو خدا نے اپنی امانت کے طور پر دی اتھا خیانت بھی کی ۔
مندرجہ بالا حدیث زیادہ تاکید کے ساتھ کتاب کافی میں حضرت امام جعفر صادق - ذریعے حضرت رسول اکرم سے مروی ہے ، آپ فرماتے ہیں :۔
ثلاث من کن فیہ کان منافقاً و ان صام و صلی وزعم انہ مسلم من اذاائتمن خان اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف
جس شخص میںیہ تین چیزیں ہوں وہ منافق ہے چاہے وہ روزہ اور نماز کا پابند ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے۔ ۱۔ امانت میں خیانت کرے ۔ ۲۔ بات کرے تو جھوٹ بولے اور ۳۔ وعدہ کرکے پھر جائے ۔ ۲
ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی کبھی ایسے گناہ بعض ایماندار لوگوں سے بھی ہوں مگر پھر وہ توبہ کرلیں ۔ لیکن ان گناہوں کا تسلسل اور ہمیشگی روح، نفاق او رمنافقت کی نشانی ہے ۔
۴۔ اس نکتہ کو ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے کہ جو کچھ ہم نے مندرجہ بالا آیتوں میں پڑھا ہے وہ صرف ایک گذرے ہوئے زمانہ سے متعلق تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی اخلاقی اور اجتماعی حقیقت کا بیان ہے جس کے بے شمار نمونے ہر زمانے اور ہرمعاشرے میں کسی استثناء کے بغیر پائے جاتے ہیں ۔
اگر ہم اپنے آس پاس نگاہ ڈالیں ( یہاں تک کہ ہم اپنے آپ کو دیکھیں ) تو ”ثعلبہ بن ھاطب“ کے اعمال اور اس کی سوچ کے نمونے ہمیں مختلف مذہبی چہروں میں ملیں گے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو عام حالات یا گربت میں پکے او رمخلص مومنین کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں تمام مذہبی پرگراموں میں شرکت کرتے ہیں ، ہر اصلاحی پرچم کے نیچے ماتم کرتے ہیں اور حق و صداقت کی آواز بلند کرنے والے کا ساتھ دیتے ہیں ، نیک کام کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں ہر فساد اور برائی کا مقابلہ کرنے کے لئے آواز بلند کرتے ہیں ۔ لیکن جب دن بدلتے ہیں اور صاحب ثروت ہوجاتا ہیں ،کوئی عہدہ یامقام انھیں حاصل ہو جاتا ہے تو اچانک ان کا چہرہ بدل جاتا ہے خدا ور دین کے بارے میں ان کا شور اور عشق سوزاں مدھم پڑجاتا ہے اور اب وہ اصلاحی اور تربیتی پرگروموں میں نظر نہیں آتے۔ نہ حق کے لئے گر یبان چاک کرتے ہیں اور نہ اب وہ باطل کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔
پہلے جب ان کی حیثیت نہ تھی اور نہ معاشرے میں انھیں کوئی مقام حاصل تھا تو خدا او رمخلوق ِ خدا کے ساتھ طرح طرح کے وعدے کرتے تھے کہ اگر کسی دن ہمیں وسائل مل گئے اور ہم کسی مقام پر پہنچ گئے تو یہ کردیں گے اور وہ کردیں گے ۔ یہاں تک کہ وہ صاحب ِ ثروت و اقتدار پر اپنے فرائض انجام نہ دینے پرہزاروں اعتراض کرتے تھے لیکن جس روز جب خود ان کی حالت بدلی تو سب عہدو پیمان بھول گئے اور سب اعتراضات اور نکتہ چینیاں برف کی طرح پانی ہو گئیں ۔
بے شک یہ کم ظرفی منافقوں کی ایک واضح صفت ہے ۔ نفاق ، دوزخی شخصیت اور دوغلہ پن کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ۔ اس قسم کے لوگوں کی تاریخِ حیات، شخصیت کی دورنگی اور دورخی کا بہترین نمونہ ہے ۔ اصولی طور پر صاحب ِ ظرف انسان میں دوغلہ پن نہیں پایا جاتا۔ نیز اس میں شک نہیں کہ ایمان کی طرح نفاق کے بھی کئی مراحل نہیں ۔ بعض لوگوں کی روح میں یہ بری عادت اس طرح راسخ ہو جاتی ہے کہ ان کے دل میں خدا پر ایمان کی طرح نفاق کے بھی کئی مراحل ہیں ۔ بعض لوگوں کی روح یہ بری عادت اس طرح راسخ ہو جاتی ہے کہ ان کے دل میں خدا پر ایمنا کوئی اثر باقی نہیں رہتا اگر چہ وہ اپنے آپ کو مومنین کی صف میں شامل سمجھتے ہیں ۔
جو شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے جبکہ ظاہراً وہ سچا ہے کیا وہ دو پہلو اور دو چہرے رکھنے والا منافق نہیں ہے ۔ جو شخص ظاہری طور پر امین ہے اور ای وجہ سے لوگ اس کا اعتبار کرتے ہیں اور اپنی امانتیں اس کے سپرد کرتے ہیں لیکن در حقیقت وہ ان میں خیانت کرتا ہے کیا و ہ دوزخی شخصیت کا حامل نہیں ہے اسی طرح وہ لوگ عہد و پیمان باندھتے ہیں لیکن کبھی اس کی پاسداری نہیں کرتے ۔ کیا ان کا یہ عمل منافقوں کا سا نہیں ہے ؟
انسانی معاشروں کےلئے ایک عظیم ترین مصیبت اور پس ماندگی کا ایک عامل ایسے منافقوں کا وجود ہے اگر ہم آنکھیں بند نہ کرلیں اور اپنے آپ سے جھوٹ نہ بولیں تو ایسے بہت سے ثعلبہ صفت منافقین ہمیں اپنے گرد و پیش اور اسلامی معاشروں میں نظر آئیں گے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان سب عیوب، ننگ و عار اور اسلامی تعلیمات کی روح سے دوری کے باوجود ہم اپنی پس ماندگی کاگناہ اسلام کی گردن پر ڈالتے ہیں۔

 

۷۹۔ الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لاَیَجِدُونَ إِلاَّ جُھْدَھُمْ فَیَسْخَرُونَ مِنْھُمْ سَخِرَ اللهُ مِنْھُمْ وَلَہمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ۔۔
۸۰۔ اسْتَغْفِرْ لَھُمْ اٴَوْ لاَتَسْتَغْفِرْلَھُمْ إِنْ تَسْتَغْفِر لَھمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَنْ یَغْفِرَ اللهُ لَھُمْ ذَلِکَ بِاٴَنَّھُمْ کَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِہِ وَاللهُ لاَیَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ۔
ترجمہ
۷۹۔ جو لوگ عبادت گذر مومین کے صدقات کی عیب جوئی کرتے ہیں اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں جو ( تھوڑٰی سی ) مقدار سے زیادہ کی دسترس نہیں رکھتے خدا کا مذاق اڑاتا ہے ( انھیں مذاق اڑانے والوں کی سزا دیتا ہے ) اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
۸۰۔ ان کے لئے استغفارکرویا نہ کرو( یہاں تک کہ ) اگر ان کے لئے ستر مرتبہ استغفار کروہ تو خدا انھیں ہر گز نہیں بخشے گا کیونکہ انھوں نے خدا اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور خدا فاسقوں کے گروہ کو ہدایت نہیں کرے گا ۔

 


۱ مجمع البیان ۔ زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
۲۔سفینة البحار ج ۲ ص ۶۰۷۔
شان ِ نزول منافق کم ظرف ہوتے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma