مومنین کے نمایا ں اوصاف

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
رحم مادر میں ، جنین کے ارتقائی مراحل ساتوں اور آخری حِصّہ :

پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ اس سورہ کا نام اس کی ابتدائی آیتوں کی وجہ سے ہے جو مومنین کی خصوصیات پر مغزاور با معنی چھوٹے چھوتے جملوں میں بیان کرتی ہیں .توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ مومنین کے اوصاف کے بیان سے پہلے ان کی پُر کیف اور مایہ ناز زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے .تاکہ دلوں میں اس بلند بالا مرتبے کو حاصل کرنے کا زوق وشوق پیدا ہو ، سب سے پہلے فرمایا گیا ہے .مومنین کامیاب ہوگئے اور ہر لحاظ سے اپنے مقصد کو پاگئے ۔

(قدافلح المئومنون ) افلح ، فلح ، اور فلاح سے ہے .اس کے اصلی معنی چیرنا اور پھا ڑ نا ہیں اس کے علاوہ ہمہ جہت کامیابی حاصل کرنا ، مقصد کو پالینا اور خوش نصیب ہونا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے دراصل جتنے افراد کامیاب نجات یافتہ اور خوش بخت ہوتے ہیں وہ ہر قسم کی روکاوٹوں کو چیر کر ہی اپنی منزل کامیابی کی طرف راستہ بناتے ہیں ۔
البتہ فلاح اور کامیابی مادی اور معنوی دونوں پہلوں پر محیط ہے اور مومنین کے لیے دونوں جہات مراد ہیں ۔ دنیاوی کامرانی وکامیابی یہ ہے کہ انسان آزاد ، سر بلند ، مستحکم اور بے نیاز رہے اور ایمان کے بغیر یہ مقام حاصل نہین ہوا کرتا ۔ اُخروی کامیابی یہ ہے کہ اللہ کے جوار ِ رحمت میں اچھے ساتھیوں اور ابدی نعمتوں میں باوقار اور سر بلند رہے .راغب اپنی کتاب ، مفردات ، میں کہتے ہیں
دنیاوی فلاح تین چیزوں میں مضمر ہے .۱۔ بقاء ۲۔ بے نیازی ۳۔ عزت و وقار ، اور فلاح اخروی بھی چار چیزوں میں ہے .۱۔ بقاء غیر فانی ۲۔ ہر قسم کی احتیاج سے بے نیازی ۳۔ ہمہ جہت وقار اور عزت ۴۔ ہر قسم کی جہالت سے نجات دینے والا علم ۔
اس کے بعدمومنین کے اوصاف میں سب سے پہلے نماز کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے .وہ ایسے لوگ ہیں جو عالم نماز میں سراپا عجز وانکساربنے ہوئے ہیں

 ( الذین ھم فی صلاتھم خاشعون ) خاشعون ، خشوع سے ہے اس کا معنی جسمانی اور ذہنی عجزوانکساری ہے .یہ لفظ اس حالت کو بیان کرتاہے جوایک بزرگ وبرتر ذات کی موجودگی میں کسی شخص میں پیدا ہوتی ہے .اس کے اعضاء وجوارح سے ظاہر ہوتی ہے .
غور طلب نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید مومنین کے نماز پڑہنے کو اس کی علامت شمار نہیں کرتا بلکہ نماز میں عجز وانکساری کو ان کی خصوصیت قرار دیتا ہے یعنی واضح کرتا ہے کہ مومنین کی نماز بے معنی اور بے روح حرکات وسکنات نہیں .بلکہ عالم نما ز میں وہ پوری طرح اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں .اور غیر اللہ سے مکمل طور پر منقطع ہوتے ہیں .اور صرف ذات پرور دگار عالم سے رشتہ جوڑ ے ہوے ہوتے ہیں .ایسے میں وہ ذہنی اور جسمی طور پر اپنے پالنے والے سے راز ونیاز کرتے ہوئے عالم استغراق میں کچھ اس طرح کھوجاتے ہیں کہ ان کے بدن کے ہر ایک عضو پر اس کا اثر ہوتا ہے .وہ ذات ِ لامتناہی کے مقابلے میں اپنے نفس کو ایک ذرہ اور بحر نا پیدا کنار کے مقابلے میں ایک قطر ہ سمجھنے لھتے ہیں .نماز کے لمحات ان کے لیے تہذیب ِ نفس اور تربیت روح کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں .
پیغمبر اکرم سے روایت ہے کہ آپ نے ایک شخص کو حالت نماز میں اپنی داڈھی سے کیھلتے ہوئے دیکھا ، تو آپ نے فرمایا ۔ (اما انہ لوخشع قلبہ لخشعت جوارحہ ) اگر اس کا دل حالتِ عجزمیں ہوتا تو اس کے اعضاء بھی عجز میں ہوتے ۔
یہ روایت اس حقیقت پر روشنی ڈال رہی ہے کہ نماز میں خشوع ، ایک باطنی کیفیت ہے جو ظاہر پر اثر انداز ہوتی ہے .عظیم ہادیان ِ اسلام عالم ِ نماز میں اس درجہ خضوع وخشوع میں ہوتے تھے کہ غیر اللہ سے بالکل بے گانہ ہوجاتے تھے .ایک حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے کبھی پیغمبر اسلام حالتِ نماز میںآسمان کی طرف دیکھ لیا کرتے تھے .مگر اس آیت کے نزول کے بعد آپ ہمیشہ اپنی نظریں زمین کی طرف رکھتے تھے ۔
تفسیر صافی اور مجمع البیان ، زیر بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں ،
عالم نماز میں عجز وانکساری کے بعد مومنین کی دوسری صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے . نیز وہ ہر قسم کی بے ہودگی سے منہ موڑے ہوئے ہوتے ہیں .
(والذین ھم عن الغومعرضون ) در اصل مومنین کی زندگی کی تمام حرکات وجہات ، مقصد اور نصیب العین کے حصول کے لیے ہیں .اور مقصد بھی تعمیر ی اور مفید ، کیونکہ لغو کا مطلب یاوہ مقصد جس کا مفید نتیجہ برآمد نہ ہو ، بقول عظیم مفسر وں کے لغو کے مندرجہ ذیل معانی ہیں ۔ ۱۔ بے مقصد نے ہودہ اور مفید نتیجہ نہ دینے والا فعل ۲۔ ہر وہ گفتگو یاعمل جو خاطر خواہ نتیجہ نہ رکھتا ہو ، ۳۔ باطل ۴۔ گناہ ۵۔ جھوٹ ۶ ۔گالی یا جوابی گالی . ۷ ۔ موسیقی اور گانا بجانا ، ۸۔ شرک ، مندرجہ بالا سب کی سب معانی مجموعی اور کل معنی کا حِصہ ہیں .لغو ، میں صرف بے ہودہ باتوں اور افعال کا مفہوم ہی نہیں پایا جاتا ، بلکہ وہ بے ہودہ یا فضول قسم کے افعال جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیں .نیز معقول اور مفید امور پر غور و فکر کرنے کا موقع نہ دیں .سب لغوکے مفہوم میں شامل ہیں .
در حقیقت مومنین ایسے تر بیت یا فتہ لوگ ہیں .جو نہ صرف باطل افکار ، بے ہودہ گفتگو اور فضول کاموں میں مشغول نہیں ہوتے .بلکہ ان سے منہ موڈے ہوئے ہوتے ہیں .اس کے بعد مومنین کی تیسری صفت بیان کی گئی ہے جو معاشرتی اور مالی پہلو رکھتی ہے ارشاد ہوتا ہے وہ لوگ جو زکواة دیتے ہیں .( والذین ھم للزکواة فاعلون ) ۳ ہم سطور بلا میں بیان کر آئے ہیں کہ چونکہ یہ سورت مکّی ہے اور مکّہ میں عام زکواة کا حکم نہیں آیا تھا ۔ لہذا مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ ۳یہاں زکواة ، مصدری معنی رکھتی ہے اسی لیے بعد میں ، فاعلون ، آیا ہے مگر بعض مفسرین نے زکواة کے مشہور معنی ہی سمجھے ہیں .یعنی اپنے مال سے ایک مقدار ، راہ خدا میں خرچ کرنا ، اس صورت میں ، فاعلون یعنی موٴدون ، (اداکرنے والا ) ہوگا ۔
ہماری نظر میں صحیح بات یہ ہے کہ اس آیت میں زکواة کا حکم واجب زکواة کے لیے مخصو ص نہیں ہے بلکہ مستحبی زکاتیں شریعت اسلام میں بکثرت تھیں جس زکات کا حکم مدینہ میں آیا وہ واجب تھی . لیکن مستحبی زکواة کا حکم مدینہ سے پہلے بھی آچکا تھا ۔
بعض مفسرین کے بقول مکّہ میں بھی واجب زکواة کا حکم تھا ، مگر نصاب مقرر نہ تھا ، مسلما ن پابند تھے کہ اپنے مال میں سے کچھ مقدار محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دیں ،جب مدینہ میں اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی گئی . بیت المال تشکیل دیا گیا اور ایک مالی نطام کے طور پر زکواة ، کا سلسلہ شروع ہوگیا ، تب نصاب مقرر ہوا اور پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے ملک کے مختلف حِصوں میں عمال بھیجے گئے .تاکہ حکومتی سطح پر زکواة جمع کر سکیں ۔
البتہ فخر الدین رازی اور الوسی جیسے مفسرین نے اور راغب نے اپنی کتاب مفردات ، میں لکھا ہے کہ اس آیت میں زکواة سے مراد ہر قسم کا کارِ خیر ، تزکیہ اور تہذیب نفس ہے .مگر ہماری نظر میں یہ بعید بات ہے .کیونکہ قرآن مجید کے اسلوب کے تحت جہاں بھی نماز اور زکواة اکٹھے ذکر ہوئے ہیں .وہاں زکواة سے مراد مالی خرچ ہے لہذ ا یہاں بھی زکواة راہ خدا میں خرچ کرنے کے معنی میں ہے .اس کے علاوہ کوئی اور معنی کرنے کے لیے ، قرینہ ، کی ضرورت ہے جو یہاں مفقود ہے ۔
مومنین کی چوتھی صفت پاکدامنی .عفت اور ہر قسم کے غیر قانونی جنسی اختلاط سے پرہیز ہے ارشاد ہورہا ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنی شرم گاہ کو بے حیائی سے محفوظ رکھتے ہیں ،( والذین ھم لفروجھم حافطون ) ۱ البتہ اپنی بیویوں اور کنیز وں سے جنسی تلذذ حاصل کرتے ہیں اور ایسا کرنے میں وہ کسی طرح بھی قابل ملامت نہیں ہیں ۔ ( إِلاَّ عَلی اٴَزْواجِہِمْ اٴَوْ ما مَلَکَتْ اٴَیْمانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومین)
نفسانی خواہشات میں جنسی خواہش ، بڑی طاقت اور سر کش ہے .لہذا اس پر قابو پانے کے لیے قوی ایمان اوربلند درجے کے تقوی ٰکی ضرورت ہے اس نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے بعد کی آیت میں ارشاد ہورہاہے جو شخص (قانونی تلذذ جنسی ) کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرے اور حد سے تجاوز کرنے والا ہے .(فَمَنِ ابْتَغی وَراء َ ذلِکَ فَاٴُولئِکَ ہُمُ العادُونَ )
شرم گاہ کی حفاظت ، کی اصطلاح اس حقیقت کو آشکار کررہی ہے .اگر جنسی خواہش کو دبا نے کے لیے نفس کی مسلسل اور برابر نگرانی نہ کی جائے تو جنسی بے راہ روی کا زبر دست اندیشہ ہے ۔ ، بیویوں ، سے مراد دائمی اور وقتی دونوں ازدواج ہیں .البتہ بعض اہل سنت مفسرین اس مسلے میں ایک بڑی غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں .جس کا ذکر آگے آئے گا ،
”غیر ملومین “ (وہ قابل ملامت نہیں ہیں ) کی اصطلاح شاید گمراہ عیسایئوں کے باطل افکار کی طرف اشارہ کررہی ہے .بعض عیسائی جو اصل مذہب عیسایت سے منحرف ہوچکے ہیں .یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ہر قسم کا جنسی اختلاط حرام ہے اور انسانی شرف کے منافی ہے اور اسے ترک کرنا انسان کی شان تصور کرتے ہیں .یہی وجہ ہے.
ہے کہ ان میں ، رومن کیتھولک ، فرقے کی عورتیں اور مرد تارک الدنیا ہوتے ہیں اور کنوار پن میں ہی زندگی بسر کرلیتے ہیں .اور شادی کو روحانی منصب کے خلاف تصور کرتے ہیں (اگرچہ در پردہ وہ جنسی اختلاط کے کئی راستے اپنا لیتے ہیں ) عیسائی مصنفین نے خود اس عنوان سے جو کتابیں لکھی ہیں وہ پادریوں اور راہباوں کے جنسی اختلاط کے واقعات سے بھری پڑی ہیں . ۱ بہر حال یہ نا ممکنات میں سے ہے کہ جو فطری میلان اور خواہش ایک بہترین نظام کے اہم جزو کے طور پر پیدا کیا جائے اور پھر اس کی تسکین کو حرام سمجھا جائے یا اسے انسانی شرف کے منافی سمجھا جائے .
یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بیوی کی حلّت کے سلسلے میں بعض استثنائی مواقع پر قربت سے ممانعت مثلاً ان کے مایانہ مخصوص ایام میں اصل مسئلہ سے کوئی تضاد نہیں رکھتا ،کنیزوں کے حلال ہونے کے مسلئے میں بھی بعض شرائط عائد کی گئی ہیں .جن کا ذکر فقہی کتابوں میں موجود ہے .یوں نہیں کہ ہر کنیزہر مالک پر حلال ہو ، بہت سے پہلووٴں اور حالات کے اعتبار سے کنیزوں کی شرائط بیویوں کی شرائط سے ملتی جلتی ہیں .
ز یر بحث آٹھویں آیت میں مومنین کی پانچویں اور چھٹی نمایاں صفت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے .وہ ایسے لوگ ہیں جوامانتیں لوٹا تے ہیں اور وعدہ وفا کرتے ہیں .(وَ الَّذینَ ہُمْ لِاٴَماناتِہِمْ وَ عَہْدِہِمْ راعُونَ)
امانتوں کی حفاطت اور ان کاصحیح وسالم مالک کو لوٹا نا اپنے وسیع تر مفہوم میں مومنین کی نمایا ں صفت ہے اور اسی طرح خالق ومخلوق سے کیے گئے وعدو ں کو نبھانا بھی امانت کے وسیع تر مفہوم میں اللہ اور انبیاء کی امانتوں میں شامل ہے .اسی طرح لوگوں کی امانتیں بھی اس مین آتی ہیں .اللہ کی ان گنت نعمتوں میں سے ہرایک اس کی امانت ہے .دین قانو ن الہی . آسمانی کتابوں دینی راہنماوٴں کی ہدایات سب کی سب امانتیں ہیں .اور اسطرح اولاد ، مال منصب اور مقام بھی مومنین ساری زندگی ان امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کی ادایئگی کے لیے کوشاں رہتے ہیں .اور دنیا سے جاتے ہوئے اپنی شریف النفس نسل جِسے انہوں نے ان کی حفاظت کے لیے تربیت کیا ہوتا ہے .کے پسرد کردیتے ہیں .
لفظ امانت ، کی عمومیت کی دلیل لفظ کی وسعت اور اطلاق کے علاوہ ، امانت کے مفہوم کے بارے میں متعدد روایات بھی ہیں .جو امانت کی تفسیر میں بیان ہوئی ہیں،کبھی امانت سے مراد آئمہ معصومین کی امانت ہے جسے ایک امام دُنیا سے جاتے ہوئے اپنے بعد کے امام کے سپرد کرتا ہے ۲ اور کبھی مطلقاً ولایت و حکومت ،
امام محمد باقر اور امام صادق کے معتمد علیہ شاگرد جناب زرار ہ سورہ نساء آیت نمبر ۵۸ (ان توٴدو الامانات الیٰ اٴھلھا ) کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں .یہاں امانت سے مراد حکومت وولایت ہے جس کو اہل کے سپرد کرنے کا حکم دیاہے .۳
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت وولایت اہم ترین امانت ہے جسے اس کے اہل کے سپرد کرنا چاہیے .اسی طرح عہد وپیمان نبھانے کے لیے عمومی دلیل بھی قرآن مجید کی دیگر آیات میں بیان کی گئی ہے منجملہ فرمایاگیا ہے .(وَ اٴَوْفُوا بِعَہْدِ اللَّہِ إِذا عاہَدْتُمْ )( سورہ نحل ۹۱)جب تم اللہ سے کوئی وعدہ کرو تو وفاکرو،

( نحل ۹۱ )
توجہ طلب بات یہ ہے کہ بعض آیتوں میں امانت کی ادایئگی یا امانت میں خیانت نہ کرنے کاحکم دیا گیا ہے جب کہ زیر بحث آیت میں صرف ، امانت کا خیال رکھنے کاحکم دیا گیا ہے جو امانت کی مکمل حفاظت نگرانی اور صحیح ادایئگی دونوں پر محیط ہے اس بنا پر اگرکبھی کسی امانت کے ضمن میں اس چیز کی اصلاح میں کوتاہی کی وجہ سے نقصان کاڈر ہو تو امانت دارکی یہ ذمہ داری ہوگی کہ مطلوبہ اصلاح بھی کرے تو یوں امانت کے ذیل میں تین کام سُپرد کیے جاتے ہیں .۱۔ دایئگی ۲، ۔ حفاظت ۳۔ اصلاح ، بہر حال یہ مسلمہ امر ہے کہ انسان کے اجتماعی نظام کی بنیاد وعدوں کی وفاامانتوں کی حفاظت اور ان کی ادایئگی پر ہے ،
ورنہ معاشرے کا توازن بگڑ جائے اور ہر چیز درہم برہم ہوجائے .یہی وجہ ہے کہ لادین افراد اور معاشرے بھی اپنے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے وعدہ خلافی اور
امانت میں خیانت سے بچتے ہیں .اور کم ازکم اپنے مجموعی واجتماعی مسائل میں ان دو امور کی حفاطت اپنی زمہ داری جانتے ہیں .
امانت کی اہمیت کے عنوان سے ہم اسی تفسیر کی جلد ۲ میں سورہ مائدہ آیت ۱۱اور جلد ۶ میں سورہ نحل آیت ۱۱ کی تفسیر کے ذیل میں مفصل لکھِ چکے ہیں .
نویں آیت میں مومنین کی آخری نمایاں صفت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے .وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔
(وَ الَّذینَ ہُمْ عَلی صَلَواتِہِمْ یُحافِظُونَ )
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ مومنین کی پہلی بیان شدہ خصوصیت وصفت ، نماز میں خشوع وخضوع ، ہے اور آخری نماز کی حفاظت ، مختصر یہ کہ مومنین کے اوصاف کی ابتداء بھی نماز ہے اور انتہابھی نماز ، کیونکہ نماز خالق ومخلوق کے درمیان بہترین رابطہ ہے .نماز اعلی تربیت کا اعلی سطح کا مدرسہ ہے .نماز روح کی بیداری اور گناہوں سے بچاوٴ کا ذریعہ ہے .مختصر یہ کہ نماز تمام آداب وشرائط کے ساتھ اداکی جائے تو تمام تر نیکیوں اور خوبیوں کے لیے قابل اطمینان وسیلہ بن جاتی ہے ،
یہ بتانا ضروری ہے کہ اس سلسلے کی پہلی اور آخری آیت دو مختلف مفاہیم پیش کررہی ہیں . پہلی آیت میں ، صلواة ، مفرد استعمال ہوا ہے جبکہ آخری میں ، صلوات ، جمع کی صورت میں آیاہے .پہلی آیت روح نماز یعنی خضوع وخشوع اور ایک باطنی کیفیت کی اہمیت بیان کررہی ہے اور یہ وہ کیفیت ہے جو انسان کے تمام اعضاء وجوارح پر اثر اندازہوتی ہے .جبکہ آخری آیت نماز کے اوقات ، آداب ِ شرائط اور مقام نماز ، تعدد وغیرہ کی اہمیت کو اُجاگر کررہی ہے گویا کہ سچّے مومن نمازیوں کو ہدایت دے رہے ہیں .کہ ہر ایک نماز کی ادایئگی کے عالم میں تمام مذکورہ آداب وشرائط کا لحاظ رکھنا از بس ضروری ہے .نما ز کی اہمیت کے بارے میں ہم اسی تفسیر کی جلد ۵ میں سورہ ہود آیت ۱۱۴ اور جلد ۲ سورہ نساء آیت نمبر ۱۰۳ اور جلد نمبر ۷ سورہ طہٓ آیت ۱۴ تفسیر کے ذیل میں مفصل بیان کرچکے ہیں ۔ ملاحظہ فرمایئں .
مومنین کے نمایاں اوصاف کے بیان کے بعد نتیجہ ً بیان کیا جاتاہے .وہی وارث ہیں ۔ اوٴلئک ھم الوارثون ، وہی ہیں جو فردوس بریں کے بھی وارث ومالک ہیں اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گے ۔ ( الّذین یرثون الفردوس ھم فیھا خالدون )
فردوس ، لغوی طور پر اس لفظ پر کافی اختلاف پایاجاتا ہے کہ دراصل یہ کس زبان کا لفظ ہے .بعض اسے رومی زبان کا لفظ سمجھتے ہیں .بعض کے نزدیک یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور بعض کا خیال میں یہ فارسی سے آیا ہے .بہر حال اس کا معنی باغ یا ایسا باغ ہے جس میں زندگی کی تمام نعمات خداوندی موجود ہوں .بہر حال یہ ایسی بہشت بریں ہے .جو جنّت کے بیترین باغوں میں سے ہے .
وارث ہونے سے شاید یہ مراد ہو کہ مومنین بغیر زحمت کے اس مقام تک پہونچ جا یئں گے جس طرح انسان بغیر کسی زحمت وکوشیش کے وراثت پالیتا ہے یہ صحیح ہے کہ مومنین کو جنتّ تک پہونچ کے لیے دنیا میں تزکیہ نفس کے عمل کو پورا کرتے ہوئے بڑی جانسو ز مشقت اٹھا نا پڑی ۔ مگر فردوس بریں کی شکل میں جتنی عظیم کثیر اور اعلی جزاء انہیں دی جا ئے گی . اس کے مقابلے میں ان کے اعمال ِ دنیا گویا کچھ بھی نہیں اور یوں معلوم ہوگا ، جیسے بغیر کچھ کیے ہی اتنا کچھ مل گیا ہو ، اس سلسلے میں پیغمبر اسلام کی ایک حدیث پیش نظر رہنی جاہیے .فرماتے ہیں .(ما منکم من احد الاولہ منزلا ن ، منزل فی الجنہ ،ومنزل فی النار فان مات ودخل الناّر ورث اھل الجنّة منزلہ )
تم میں سے ہر ایک شخص کے دو گھر وں کا مالک ہے .ایک جنتّ میں دوسرا جہنم میں .اگر ایک شخص مرجائے اور دوزخ میں جائے تو اس کا جنتّ والا گھر ، اہل جنتّ کو ورثے میں مل جائے گا ، ، ورثہ ، کی اصطلاح کے ذیل میں مفسرین نے اس احتمال کو بھی بعید از قیا س نہیں جانا کہ یہ لفظ مومنین کے انجام کے طور پر استعمال کیا گیا ہے چونکہ ورثہ آخر کار ورثاء تک پہنچتا ہے .بہر حال مندرجہ بالا آیتوں کے مطابق جنتّ کا یہ عالی شان درجہ ان مومنین کے لیے مخصوص ہے جو مذکور ہ اوصاف کے حامل ہوں .رہ گئے دوسرے جنتی لوگ تووہ نچلے درجے میں ہوں گے ۔

 

چند اہم نکات

۱۔افلح کا مفہو م : فعل ماضی کا صیغہ ہے مومنین کی حتمی کامیابی کے سلسلے میں فعل ماضی کا استعمال تاکید کے مفہوم میں ہے .یعنی ان کی کامیابی اور فلاح اس قدر مسلمہ امر ہے گویا کہ پہلے ہی طے ہے مزید برآں جمُلے کے آغاز میں ،قد، کا استعمال تاکید مزید کے لیے ہے ، خاشعون ، معرضون ، راعون ، اور یحافظون اسم فاعل ، یا فعل مضارع ، کے صیغے ہیں .اس حقیقت کو ظاہر کررہے ہیں کہ یہ اعلی ٰ وصاف وقتی اور عارضی نہیں ہیں بلکہ مستقل و دائمی ہیں۔
۲۔ دائمی اور کم مدتی شریک ِحیات : مذکورہ بالا آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ عورتیں مردوں پر دو طرح سے حلال ہیں .۱۔ بیوی کی صورت میں .۲۔ کنیز اور لونڈی کی صورت میں .(خاص شرائط کے ساتھ ) اس لیے یہ آیت فقہی کتابوں میں ، باب نِکاح ، میں کئی مباحث کے لیے مستند قرار پائی ہے ۔
بعض باہل سنت مفسرین نے کوشیش کی ہے کہ اس آیت کو نِکاح موقت کی نفی اور اسے زنا ہی کے زیل میں ثابت کرنے کے لیے سند کے طور پر پیش کریں .یہ حقیقت ہے کہ نِکاح موقت متعہ مسلمہ طور پر پیغمبر اکرم کے زمانے میں رائج تھا ، بعض کہتے ہیں کی آغاز ِ اسلام میں بہت سے صحابہ نے اس پر عمل کیا تھا ، اور کوئی مسلمان اس کی صحت سے انکار نہیں کرتا ، اور کوئی مسلمان اس کی صحت سے انکار نہیں کرتا ، زیادہ سے زیادہ ا س میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں رائج تھا .مگر بعد میں منسوخ کردیا گیا ، بعض کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے اسے حرام قرار دیا ،
اس مسلمہ حقیقت کے پیش نظر مذکورہ اہل سنّت علماء کے نظریئے کا یہ مفہوم سمجھا جائے گا ( العیاذ بااللہ ) پیغمبر اکرم نے زنا کو جائز جانا ( چاہے تھوڑی سی مدت کے لیے یہی سہی ) مگر یہ نا ممکنات میں سے ہے .بہر حال اس بحث سے قطع نظر ، غور کیجئے کہ حقیقت یہ ہے کہ ، متعہ ، بھی نکاح کا ایک طریقہ ہے اور اس کی اکثر شرائط وہی ہیں .جو دائمی شادی کی ہیں .اس لیے یہ بھی ( الاّعلٰی ازواجھم ) کے جُملے میں شامل ہے .یہی وجہ ہے کہ ، کچھ مدتی شادی .، کا صیغہ نکاح پڑہتے ہوئے وہی الفاظ اور صیغے ، انکحت ، زوجت ، مدت کی قید کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں اور یہی اس کی حِلیت اور جواز کی بہتر دلیل بھی ہے .
اسی تفسیر کی جلد ۲ میں سورنساء آیت نمبر ۲۴ کی تفسیر کے ذیل میں ہم نکاح موقت اسلا م میں اس کا شرعی جواز اس کا منسوخ نہ ہونا اور اس کا اجتماعی فلسفہ وغیرہ جیسے مسائل پر سیرحاصل بحث کرچُکے ہیں ،
۳۔ خضوع وخشوع روحِ نماز ہے : اگر قرائت رکوع ،سجود اور ازکار کو ایک جسم سے تشبہ دیں تو حقیقت نماز طرف اور اس کی طرف جس کی نماز پڑہتے ہیں .قلبی توجہ اور باطنی یکسوئی روح نماز ہے ۔ ،خشوع ، عجزوانکساری اور ادب کے ساتھ دلی توجہ کا دوسرا نام ہے .اس سے پتہ چلتا ہے کہ مومنین نماز کو ایک بے روح ڈھانچہ نہیں سمجھتے .بلکہ ان کی پوری توجہ نماز کی باطنی کیفیت اور حقیقت پر ہوتی ہے اکثر لوگ ایسے ہیں جو نمازاز حد کوشیش کرتے ہیں کہ عالم نماز میں خضوع وخشوع اور اللہ کی طرف دلی توجہ کریں .مگر وہ ایسا کر نہیں پاتے .نمازاور دیگر عبادات کے دوران خضوع وخشوع اور حضور قلب کے لیے مندرجہ ذیل امور پر توجہ مرکوز رکھنی چا ہیئے
۱۔ معلومات کو ا س حد تک پہنچا ئے کہ انسان کی نگاہ میں دنیا کی ذِلت وپستی اور اللہ کی رفعت وبلندی اور عظمت وبزرگی واضح ہوجائے تاکہ کوئی بھی دنیا وی امر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ی کے وقت اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے .
۲۔ پر یشان خیالی اور ذہنی انتشارجو اس کو ایک طرف مر کوز رکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لہذا انسان جتنا ان کو کم کرے دلی توجہ اور یکسوئی میں ممدومعاون ثابت ہوگا ،
۳۔ اس سلسلے میں نماز اور دیگر عبادات کے لیے مقام کا محل وقوع خاصہ موٴثر ہے .اسی بنا پر ایسی جگہوں پر نماز ادا کرنا مکروہ ہے جو انسان کی توجہ ہٹا نے کا سبب ہو ں
مثلاً آیئنے کے سامنے نماز پڑھنا ، کھلے دروازوں کے سامنے جہاں سے لوگ کی آمدو رفت ہوتی ہو ، نماز پڑھنا اور کسی تصویر یا پرکشش منظر کے سامنے نماز ادا کرنا وغیرہ اسی وجہ سے مساجد زیب وزینت اور آرائش سے خالی ہونی چاہیں تاکہ انسان کی توجہ مکمل طور پر اللہ کی طرف ہی رہے .
۴۔ گناہ سے ہرہیز کرنا ، کیونکہ گناہ کے ارتکاب سے انسان اللہ سے دُور ہوجاتا ہے .اور نماز میں حضور قلبی سے محروم رہتا ہے .
۵۔ نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے .اس کے معنی اور اس کے افعال واذکار سے واقفیت حاصل کرنا ،
۶۔ نماز کے مخصوص آداب اور مستحبات کو اداکرنا چاہیے .ان کا تعلق مقدمات ِ نماز سے ہو یا خود اصل نماز سے ۔
۷۔ مذکورہ بالا تمام امور سے قطع نظر خضوع وخشوع کے حصول کے لیے مسلسل اور پہم مشق اور پوری توجہ کی ضرورت ہے .کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان شروع شروع میں تھوڑی دیر کے لیے یکسوئی پیدا کر لیتا ہے اور اگر وہ اس کی مسلسل مشق کرے اور ہر نماز میں برابر اس کے اضافے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ملکہ پیدا نہ کرلے کہ ہمیشہ حالت، نماز میں وہ غیر اللہ سے بالکل بے نیاز ہوجائے .(قابل غور ہے )

 

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طینٍ (12)
ثُمَّ جَعَلْناہُ نُطْفَةً فی قَرارٍ مَکینٍ (13)
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً فَکَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً ثُمَّ اٴَنْشَاٴْناہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبارَکَ اللَّہُ اٴَحْسَنُ الْخالِقینَ (14)
ثُمَّ إِنَّکُمْ بَعْدَ ذلِکَ لَمَیِّتُونَ (15)
ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ تُبْعَثُونَ (16)
ترجمہ
۱۲۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا ۔
۱۳۔ پھر ہم نے اسے نطفے کی صورت میں ایک اطمینا ن بخش جگہ (رحم ) میں رکھا ۔
۱۴ ۔ پھر نطفے کو علقہ ( جمے ہوئے خون ) کی صورت دی اور علقہ کو مضغہ (گوشت کے لوتھڑے کی سی چیز ) کی شکل بخشی اور پھر ہم نے اس لوتھڑے کو ہڈیوں کی شکل دی ۔ پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا یا ، اس کے بعد ہم نے اس کو ایک نئی صورت میں پیدا کیا ، وہ خدا عظیم ہے .جو خلق کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے .
۱۵ ۔ اس کے بعد تمھیں مرنا ہے ۔
۱۶ ۔ پھر روز قیامت دوبارہ اُٹھائے جاوٴگے ۔

 


۱- فروج ، فرج ، کی جمع ہے اور یہ افزائش نسل کی طرف اشارہ ہے ۔
2-ویل ڈیورانٹ کی مشہور تاریخ ملاحظہ ہو ۲ ۳ تفسیر برہان ج ۱ ص ۳۸۰
 
رحم مادر میں ، جنین کے ارتقائی مراحل ساتوں اور آخری حِصّہ :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma